خبرنامہ پاکستان

پرویز مشرف کا پاکستان آنے کا فیصلہ، پروگرام تاحال واضح نہیں

آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا ہے تاہم پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق تاحال پاسپورٹ بحال نہ ہونے کی وجہ سے اُن کا پروگرام غیر واضح ہے۔

اس بات کا اعلان آل پاکستان مسلم لیگ کے ٹوئٹر آکاؤنٹ پر جمعرات کی شب کیا گیا ہے۔ تاہم پیغام میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ پرویز مشرف کب اور کتنے عرصے کے لیے پاکستان آئیں گے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو ایک دن کی مہلت دیتے ہوئے 14 جون کو وطن واپس آ کر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف وطن واپس نہ آئے تو اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ان کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال نہیں ہونے دی جائے گی۔

اس سے پہلے عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو 13 جون تک سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے اپنی حکومت کے آخری دن سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم جاری کیا تھا

’عدالت آپ کی شرائط کی پابند نہیں‘

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لاہور رجسٹری میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے انتخابات میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کی سماعت کی۔

عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل ملک قمر افضل سے استفسار کیا کہ کیا ان کے موکل عدالت میں پیش ہو رہے ہیں جس پر پرویز مشروف کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر ان کی جان کے تحفظ کی ضمانت دی جائے تو ان کے موکل آئین شکنی کے مقدمے سمیت دیگر مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔

اس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت ملزم پرویز مشرف کی واپسی سے متعلق ان کی طرف سے پیش کی جانے والی شرائط کی پابند نہیں ہے۔
عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل سے کہا کہ ان کے موکل کس خوف میں مبتلا ہیں اور کس بات کی ضمانت چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اتنا بڑا کمانڈو وطن واپس آنے سے کیوں خوف زدہ ہے۔‘ اُنھوں نے کہا کہ جب پرویز مشرف نے سنہ 1999 میں اتنے بڑے ملک پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت اُنھیں خوف کیوں نہیں آیا۔

واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف نے جب اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنے کے بعد اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور آئین کو معطل کر کے عبوری آئینی حکم نامہ جاری کیا تھا تو چیف جسٹس ثاقب نثار اعلیٰ عدلیہ کے ججز میں شامل تھے جنھوں نے پرویز مشرف کے پہلے پی سی او کے تحت حلف اُٹھایا تھا۔

خصوصی عدالت کا نیا بینچ

دوسری طرف صدر مملکت نے ملزم پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کے لیے ایک نیا تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے۔

اب اس خصوصی عدالت کی سربراہی لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یاور علی کریں گے۔ اس خصوصی بینچ کے دیگر دو ارکان میں بلوچستان ہائی کورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر شامل ہیں۔

یہ خصوصی بینچ عید کی چھٹیوں کے بعد عدالتی کارروائی کا آغاز کرے گا۔ اس سے پہلے بینچ کے سربراہ جسٹس یحییٰ آفریدی بعض وجوہات کی بنا پر بینچ سے الگ ہو گئے تھے۔