خبرنامہ پاکستان

پیپلز پارٹی کا کالا باغ ڈیم منصوبے کی دوبارہ بحالی پر ’مزاحمت‘ کا انتباہ

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے متنازع کالا باغ ڈیم منصوبے کی دوبارہ بحالی کے اقدام کو پارلیمان اور ملک کے عوام کی ’ سراسر توہین‘ قرار دیتے ہوئے خبر دار کیا ہے کہ اگر یہ منصوبہ دوبارہ بحال ہوا تو سخت مزاحمت کی جائے گی۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو نے ایک بیان میں کہا کہ 3 صوبوں کی اسمبلیاں کالا باغ ڈیم کو مسترد کرچکی ’لہٰذا جو کوئی اس منصوبے کی حمایت کرے گا اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔

خیال رہے کہ پارٹی کی جانب سے یہ بیان چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے اس ریمارکس کے ردعمل میں سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ تھا کہ صرف کالا باغ ڈیم ’پاکستان کی بقا اور سلامتی کی ضمانت ہے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ وہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے معاملے کا تعاقب کرنے کا عمل نہیں روکے گیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ اگر قوم راضی ہوتی ہے تو دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز کے بعد کالا باغ ڈیم بھی تعمیر ہوگا‘۔

تاہم ان ریمارکس کے بعد ردعمل دیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ ’کالا باغ ڈیم کی بات کرنا سندھ کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترداف ہے۔

سسی پلیجو کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں اور رواں سال صرف 30 فیصد زمین کے حصہ کاشت کیا جاسکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوٹری بیراج میں پانی کے کم ہونے کے باعث ٹھٹھہ اور بدین میں ہزاروں زمینیں سمندر کے پانی سے زیر آب آگئی ہیں۔

پی پی پی سینیٹر نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے دیامر بھاشا ڈیم کی مجوزہ تعمیر پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے گزشتہ ہفتے کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ وہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے خلاف نہیں لیکن انہیں اس کے مقام اور نظام میں پانی کی دستیابی پر ’کچھ تحفظات‘ ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ اصل میں باشا ڈیم منصوبے کا آغاز پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا تھا لیکن اس پر تکنیکی معاملات پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے، لہٰذا انہوں نے زور دیا کہ اس متنازع منصوبوں پر ضروت ہے کہ مرکز سب کو اعتماد میں لے۔

یاد رہے کہ مئی کے مہینے میں پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے عطیات پر ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ اگر سندھ کو اس کا پانی کا حصہ نہیں دیا گیا تو ہوسکتا ہے کہ یہاں کے عوام صوبے کی سرحد پر آجائیں اور اسے پورے ملک سے الگ کردیں۔