خبرنامہ پاکستان

چناروں کی وادی…ابراہیم راجہ

چناروں کی وادی ،کپواڑہ کے پوشپورہ گائوںمیں ،فروری کی ایک ٹھٹھرتی رات، پچیس برس سے ٹھہری ہوئی ہے ، ایسی بھیانک رات، جو کٹتی ہی نہیں، جس کی صبح کبھی ہوتی ہی نہیں ۔
تئیس فروری انیس سو اکیانوے،رات کا گہرا سکوت ٹوٹتا ہے، بھارتی فوج کے درندوں کے درندے، دندناتے ، چنگھاڑتے ، کنن اورپوشپورہ گائوں میں داخل ہوتے ہیں، گھروں کے دروازے ٹوٹتے ہیں، مرد بدترین تشدد کے بعد باندھ دیے جاتے ہیں، اوربھارتی بھیڑیے ، لاچار اور بے بس عورتوں پر جھپٹ پڑتے ہیں ۔پھر وہ مکروہ کھیل کھیلا جاتا ہے، جس پر انسانیت تو ایک طرف، حیوانیت بھی شرما جائے۔ 80 خواتین ، بھارتی درندوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں ،اوردرندگی کا یہ کھیل، کشمیریوں کودبانے کے لیے ، ریاستی حربے کے طورپر کھیلا جاتا ہے، پوری ریاستی پشت پناہی کے ساتھ ۔پچیس برس گزر چکے، یہ گاوں آج بھی سکتے میں ہیں، جیسے یہاں کسی آسیب کا سایہ ہو۔یہاں رہنے والوں کے زخموں سے، آج بھی لہو رستا ہے ۔ اس گھناونے کھیل کے باعث ، یہ گائوں ”ریپ زدہ ‘‘ گائوں کہلانے لگے۔یہاں بسنے والی لڑکیوں کی شادیاں نہ ہو سکیں ، اس گائوں کی عورتیں شرمندہ شرمندہ ، زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، ایک ناکردہ گناہ پر شرمندہ ۔یہاں پیدا ہونے والے بچے،ہوش سنبھالتے ہی ،نفسیاتی امراض اورالجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔کنن اورپوشپورہ میں جو درندگی ہوئی ، اسے گزشتہ دوسو برس میں، انسانیت کے خلاف، سنگین ترین جرائم میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ اس واقعہ پر ـدستاویزی فلمیں بنیں ، اور”Do you remember Kunan Poshpora‘‘ یعنی ”کیا آپ کو کنن پوشپورہ یاد ہے ‘‘ کے عنوان سے کتاب بھی لکھی گئی ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، اس درندگی کو ،کشمیر میں بھارتی استعمارکا اصل چہرہ قرار دیتی ہیں۔
کشمیر کی جلتی وادی، ایک دو نہیں، ان گنت زخموں سے چور ہے، ہر زخم ایسا، جو نسل درنسل بھرتا نہیں ۔ 1993 میںجلائے جانے والے سوپور کی جلن، آج بھی ختم نہیں ہوتی ۔وہ سوپور، جہاں کشمیریوں کے چارسوپچاس گھر راکھ کا ڈھیر بنا دیے گئے، چالیس کشمیریوں کے جسم گولیوں سے چھلنی کئے گئے، پھرایک بس میں سوار پندرہ کشمیری ، زندہ جلا دیے گئے ۔بھارتی حکومت ، پہلے اس وحشیانہ واردات کے اعتراف سے انکار کرتی رہی ،پھر انسانی حقوق کی تنظیمیں ثبوت سامنے لے آئیں، اور چاروناچار عدالتی تحقیقات کروانا پڑ گئیں۔ جب جرم ثابت ہو گیا ، تو نمائشی اقدام کے طورپر، بی ایس ایف کے افسروں کو معطل کر دیا گیا، محض معطل ۔
سری نگر بھی بار بار جلتا اور سلگتا ہے ، اس شہر میںانیس سونوے کا قتل عام، اب بھی کشمیریوں کو خون کے آنسو رلاتا ہے۔تین سونہتے شہریوں کا بے رحمانہ قتل ، جس پرہیومن رائٹس واچ سمیت، تمام عالمی تنظیمیں چِلا اٹھیں۔انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے، تمام ثبوت بھارتی حکومت کے سامنے رکھ دیے، لیکن سفاک بھارتی اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔پندرہ سال بعد، کیس ہی بند کر دیا گیا۔ سری نگر کا لال چوک بھی، آج تک اُن ایک سو پچیس کشمیریوں کے لہوسے لال ہے ، جنہیں انیس سو ترانوے میں شہید کیا گیا، وہ عام معصوم کشمیری ، جن کے گھروں اوردکانوں کو آگ لگا دی گئی ۔کچھ نے جان بچانے کے لیے، دریائے جہلم کے دوسرے کنارے جانے کی کوشش کی، تو ان کی کشتیوں پر بھی گولیاں برسا دی گئیں۔کم سے کم سولہ کشمیری، دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔
بج بہاڑہ کی گلیاں بھی ، آج تک اس خون سے رنگی ہیں ، جو انیس سو ترانوے میں بہایا گیا۔ ان سیکڑوں نمازیوں کا خون، جو نماز جمعہ کے بعد، پرامن احتجاج کر رہے تھے، وہ کشمیری جنہیں ایک گلی میں بند کرکے، گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔پہلے الزام لگایا گیا کہ ، مظاہرین نے اہلکاروں پر حملہ کیا،پھر حقیقت سامنے آئی ، عالمی دبائو
بڑھا توبھارتی حکومت کو عدالتی کمیشن بنانا پڑا۔انسانی حقوق کی تنظیموںنے ، تمام ثبوت کمیشن کے سامنے پیش کر دیے ۔کمیشن نے تحقیقات کیں اورفیصلہ دے دیا ، ایسا فیصلہ جوبھارتی حکومت کے ماتھے پر، کلنک کا ایک اورٹیکا ثابت ہوا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ مظاہرین مکمل طور پر پُرامن تھے، ان پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت، منظم طریقے سے فائرنگ کی گئی ۔
مقبوضہ کشمیر میں، بھارتی مظالم کی ہر داستان دل دہلا دینے والی ہے ۔یہاں ہزاروںکشمیری ، قتل کئے جانے کے بعد، بڑے بڑے گڑھوں میں دفنا دیے گئے ۔وادی کے چار اضلاع میں، دوہزارسات سوتیس لاشیں، اجتماعی قبروں سے برآمد ہو چکیں، ان میں پانچ سو چوہتر کی شناخت ممکن ہوئی، اور وہ سب مقامی کشمیری نکلے، جنہیں بھارتی فوج نے اغواکر لیا تھا،ان پر غیرملکی درانداز ہونے کا الزام لگایا گیا، جو ہر انکوائری میں غلط ثابت ہوا۔ یہ ریاست کے سرکاری انسانی حقوق کمیشن کے اعدادودشمار ہیں، غیر جانب داراورمستند اعدادوشمار، اس سے کہیں بڑھ کر ہیں ۔
‘ ‘ہاف وِڈوز‘‘یعنی” آدھی بیوائیں‘‘کی اصطلاح ، دنیا بھر میں ، صرف کشمیری خواتین کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ وہ خواتین، جن کے شوہروں کو، بھارتی فوج نے اغواکر لیا، او رپھر یہ تک نہ پتہ چل سکا کہ وہ زندہ ہیں یا مار دیے گئے ۔ان کی پوری زندگیاں ، دکھ اور اذیت میں کٹ گئیں ۔عالمی تنظیم ــ”ڈاکٹرز وِدآوٹ بارڈرزـ‘‘ کے مطابق، دنیا بھر میں، سب سے زیادہ جنسی تشدد کا شکاربھی ، کشمیری خواتین ہی ہیں۔ بھارتی افواج کے، کم سے کم ایک سوپچاس اعلی افسران بھی، مقبوضہ کشمیر میں، جسمانی اور جنسی تشدد میں ملوث ہیں۔
بھارتی استعمار نے ، مقبوضہ وادی میں، ان گنت خون آلود داستانیں رقم کیں۔کیا پھر بھی، یہ سمجھنا مشکل ہے ، کہ پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھنے والا، برہان وانی پندرہ برس کی عمر میں جنگجو کیوں بن گیا ؟ لاکھوںکشمیری جو جنگجو نہیں، وہ بھی اپنی جان پر کھیل کر، اُس کا ماتم کیوں کر رہے ہیں ؟ان کے جذبات کیاہیں؟برہان سے پہلے، اس کا بھائی خالد، کیسے اورکن حالات میں مارا گیا تھا ؟ برہان کو آگ اور خون کے کھیل میں کس نے دھکیلا؟
چناروں کی وادی ، ایک بار پھر سلگ رہی ہے، ایک ہفتے میں پچاس کشمیری شہید کیے جا چکے ، ڈھائی ہزار سے زائد لہو لہان ہیں۔بھارتی فوج بربریت کی نئی تاریخ لکھ رہی ہے ،مخصوص بندوقوں سے، نہتے کشمیریوں کی آنکھوں پر چھرے برساکر، انہیں اندھا کیا جا رہا ہے ، کتنے ہی معصوم بچوں کی بینائی بھی چھینی جا چکی ۔ کیا اس طرح وادی میں لگی آگ بجھ جائے گی ؟ ظلم کا بازار گرم رہے، توامن قائم کیا جا سکتا ہے؟برہان تومر گیا، لیکن کیا نہتے کشمیریوں کے سینے چھلنی کر کے، برہان کی سوچ کو بھی مارا جا سکتا ہے ؟ ایک برہان مرچکا، لیکن اس کے بعد، بھارتی فوج نے خون کی جوہولی کھیلی، اس سے کتنے برہان جنم لیں گے ؟