پانامہ لیکس

اپوزیشن کے سوالات…..میجرجنرل(ر) زاہدمبشر

جناب وزیراعظم تاجکستان کے دورے پر تھے لیکن ان کا دل اور دماغ پاکستان میں تھا۔ پاناما لیکس کا پریشر ہے کہ گھٹنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ دن بدن اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیرداخلہ کی بسیار کوششوں کے بعد وزیراعظم کی ملاقات آرمی چیف سے ہوئی۔یہ خصوصی اہمیت کی حامل ایک ملاقات تھی کیونکہ یہ ملاقات خلاف معمول تقریباً ایک ماہ کے بعد ہوئی تھی جبکہ قبل ازیں وزیراعظم ہر دوسرے تیسرے دن آرمی چیف سے ملاقات کرتے تھے اور ایک صفحے پر ہونے کا تاثر اجاگر کرتے تھے۔ لیکن پچھلے ایک مہینے میں بعض اہم معاملات وقوع پذیر ہونے کے باوجود یہ ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ کلبھوشن یا دیو کی گرفتاری کو پاکستان کی مسلح افواج نے جو اہمیت دی وہ سول حکومت کے رویے کے بالکل برعکس تھی۔ وزیراعظم یا وزیردفاع نے اس پر بھرپور احتجاج تو کجا، اس کا ذکر تک کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے دوران وزیراطلاعات ایسے خاموش و پریشان دکھائی دیئے جیسے خدانخواستہ پاکستان کی کوئی سازش پکڑی گئی ہو۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ عدالتی فیصلے کے بعد ہی کوئی حتمی رائے دی جا سکے گی۔ F-16 کی سپلائی کے معاملے میں بھی امریکہ نے جس بے اعتناعی سے اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ سول حکومت نے اس کا خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا جبکہ فوج اس پر مضطرب ہے اور اپنے طور پر اس معاملے کو امریکی افواج کے ساتھ اٹھا رہی ہے۔ بھارت کے دفتر خارجہ نے پاکستان کو F-16 کی فراہمی روکنے کیلئے زبردست لابی بنائی جبکہ ہمارے دفتر خارجہ کی کارکردگی نتیجے سے ظاہر ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کی چار پانچ ہفتے کے وقفے کے بعد ہوئی ملاقات صرف ان دنوں کے درمیان تھی۔ اس لئے حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا کیا موضوع زیربحث آئے لیکن مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات سے میڈیا نے یہ خبر دی ہے۔ مندرجہ بالا تمام معاملات پر بات چیت ہوئی اور آرمی چیف نے وزیراعظم کو پانامہ لیکس کے حوالے سے بھی استدعا کی کہ اسے جلد ازجلد حل کیا جائے تاکہ ملکی معاملات میں آنے والے تعطل کو ختم کیا جا سکے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اور معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ حکومتی حلقے دبے دبے لفظوں میں اس خبر کی تردید کر رہے ہیں لیکن کوئی حتمی اور واضح مو¿قف دینے سے گریز کیا گیا ہے اور عام طور پر یہ کہا گیا ہے کہ یہ اطلاعات سو فیصد درست نہیں ہیں۔ سنجیدہ مبصرین کی رائے میں یہ اطلاعات درست ہیں اور اس نئے پس منظر میں جناب نوازشریف کی آپشنز مزید محدود ہوگئی ہیں۔ اب انہیں وقت گزاری کی پالیسی کو شاید بدلنا پڑے اور پانامہ لیکس پر کوئی واضح مو¿قف اختیار کرنا پڑے۔ اب انہوں نے قومی اسمبلی میں حاضر ہونے کی حامی بھی بھر لی ہے اور ظاہر ہے کہ اب انہیں حزب اختلاف کے سوالوں کے جوابات دینے پڑیں گے۔ اگرچہ یہ سوالات بڑے سادہ اور ان کے جوابات نہایت آسان ہیں لیکن اگر وزیراعظم کا دامن صاف ہوتا تو وہ پہلے دن ہی اسمبلی میں حاضر ہوجاتے اور اپنی بے گناہی کے ثبوت پیش کردیتے لیکن جب بے گناہی کے ثبوت ہی موجود نہ ہوں تو اسے سیاسی رنگ دینے کے علاوہ کیا چارہ کار باقی رہتا ہے۔ ابھی بھی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اسمبلی میں آکر سیاسی تقریر کریں گے اور بات کو مزید گھمانے کی کوشش کریں گے۔ غالباً ان کے وکلاءنے انہیں سختی سے منع کیا ہے کہ ان سوالوں کے جواب نہ دیئے جائیں ورنہ وہ پھنس جائیں گے۔ حسین نواز کا پراپرٹی کی ملکیت کا اقرار نامہ پہلے ہی گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ ان کا اپنے ”پسندیدہ“ صحافی کے ساتھ رضاکارانہ انٹرویو دراصل حفظ ماتقدم کا ایک اقدام تھا۔ ورنہ جس حقیقت کو بعد احتیاط بیس پچیس سال تک پوری قوم سے چھپایا گیا اسے آشکار کرنے میں کیا مصلحت ہوسکتی ہے؟۔ اس انٹرویو سے نہ صرف ن لیگ کی حکومت مسلسل مشکلات میں گھری ہوئی ہے بلکہ اس انٹرویو نے حسین نواز کی ”عقل و دانش“ کا پول بھی کھول دیا اور پوری قوم حیران ہے کہ وہ کس طرح مٹی کو سونے میں تبدیل کردیتے ہیں۔ فی الحال تو انہوں نے اپنے والد محترم کو ایسی قابل رحم حالت تک پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لئے طلال چودھری‘ دانیال عزیز‘ عابد شیرعلی اور محمد زبیر جیسے لوگوں کے محتاج ہوگئے ہیں۔ اپنی دیانتداری کی گواہی کے لئے انہیں مولانا فضل الرحمان اور اکرم درانی کی ضرورت ہے۔ بیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں اپنا کیس لڑنے کے لئے انہوں نے اگر ان شاہ دماغوں کا انتخاب کیا ہے تو کیس کے نتیجے کے بارے میں کسی کو بھی شک نہیں ہونا چاہئے۔
وزیراعظم کو شدید گلہ ہے کہ اپوزیشن کا اتحاد کرپشن کے خلاف نہیں بلکہ ان کی ذات کے خلاف بنا ہے۔ پاکستان میں بے شمار کرپٹ لوگ ہیں اور سوالات صرف ان سے پوچھے جا رہے ہیں جبکہ ان کا نام بھی پانام لیکس میں شامل نہیں ہے۔ اعتزازاحسن اور حامدخان نے اپنی قانونی طاقت کو پوری طرح جمع کر کے پورے کیس کو سات سوالوں میں قید کر دیا ہے اور پرچہ حل کرنے کیلئے وزیراعظم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ یہ اندرون سندھ کی کوئی امتحان گاہ ہے کہ وزیراعظم کی پڑھی لکھی ٹیم امتحان گاہ کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے اور بضد ہے کہ وہ وزیراعظم کو پرچہ حل نہیں کرنے دے گی اور ہر مددگار اپنی اپنی ”بوٹی“ ان کے حوالے کر رہا ہے۔ ان گنجلک سوالوں کے جو جوابات طلال چودھری اور ان کی ٹیم نے تجویز کئے ہیں وہ نہایت دلچسپ ہیں اور پوری قوم کو اتنی ٹینشن کے باوجود مسکرانے کا موقع مہیا کرتے ہیں۔ مثلاً ”لندن کے فلیٹس کس نے اور کیسے لئے“‘ اس کا جواب ہے حسین نواز نے سعودیہ کی فیکٹری فروخت کر کے لئے۔ ”متضاد بیانات میں کون سا درست ہے“ جواب ہے کہ حسین نواز کا بیان حسن نواز کے بیان کی تائید کرتا ہے۔ ”وزیراعظم کی فیملی کی آف شور کمپنیوں کی تفصیل“ جواب ہے کہ نوازشریف کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے۔ غیرملکی جائیدادوں کی خریدوفروخت اور ٹیکس کے بارے میں جواب ہے کہ آمدن‘ جائیداد وغیرہ انکم ٹیکس گوشواروں میں موجود ہے۔ وزیراعظم کے بچوں کے کاروباری ٹیکس وغیرہ کے بارے میں جواب ہے کہ تمام جائیداد اور ٹیکس ملکی قوانین کے مطابق ہے۔ آخری سوال 1985ءسے وزیراعظم اور ان کی فیملی کے ٹیکس کے بارے میں ہے‘ جواب بڑا سادہ ہے کہ ہر فیملی ممبر نے قانون کے مطابق ٹیکس دیا۔ اگر یہ پرچہ اسی طرح حل کیا گیا تو تین گھنٹے کی بجائے پرچہ دس منٹ میں حل ہو جائے گا لیکن ان جوابات سے دو تین فیصد نمبر ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے۔ یہ تو تھے اپوزیشن کے سوالات اور وزیراعظم کی ٹیم کے جوابات‘ لیکن وزیراعظم کی اقدار کی سیاست کے دعوے کے پیش نظر بہت سے مزید سوالات ان کے جواب کے منتظر ہیں۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ وزیراعظم اور ان کی اولاد کی ساری دولت جائز اور حلال ہے تو وہ اپنے کسی خطاب میں قوم کو بتائیں کہ ان کو اور ان کی اولاد کو یہ حق کون سی اقدار دیتی ہے کہ وہ اپنی ساری جائیداد اور دولت بیرون ملک رکھیں اور دوسروں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنی دولت پاکستان لائیں۔ اگر یہ ساری دولت اور آف شور کمپنیاں جائز ہیں تو انہیں بیس پچیس سال تک خفیہ کیوں رکھا گیا اور چند ہفتے پہلے ان کا اعلان کس مصلحت کے تحت کیا گیا۔ قرضے معاف کروانے والے سینکڑوں لوگوں کا خیال انہیں اپنی حکومت کے پہلے تین سال گزرنے کے بعد اور پانامہ لیکس آنے کے بعد کیوں آیا۔ اس سے پہلے ان مجرموں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا گیا۔ وزیراعظم یہ بھی بتائیں کہ وہ اپنے طویل عرصہ اقتدار میں پاکستان میں ایک بھی ایسا ہسپتال کیوں نہیں بنا سکے جو ان کا طبی معائنہ اور علاج کر سکے۔ پاکستان کے کروڑوں بچے سکول جانے سے کیوں محروم ہیں۔ مری کے گورنر ہاﺅس پر 43کروڑ روپے کیوں خرچ کئے جا رہے ہیں جبکہ مری کے عوام پانی جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں۔ اپنے عوام کو اقدار کی سیاست کی تعریف ضرور بتائیں تاکہ عوام فیصلہ کر سکیں کہ آپ اقتدار اور اقدار کو ہم معنی تو نہیں سمجھتے۔ ٭