پانامہ لیکس

تقریروں کا ترازو۔۔۔اسداللہ غالب

چیف جسٹس آف پاکستان نے کمیشن بنانے سے معذرت کر لی۔
آرمی چیف سبھی کوان کے حال پر چھوڑ کر چین چلے گئے۔
مگرترازولگ گیا ، صرف تقریروں کے میدان میں ۔
سپریم کورٹ کا ترازو ابھی تک خالی ہے۔
اور کسی کو معلوم نہیں کہ آرمی چیف ا ور وزیر اعظم کی ملاقات میں کیا طے ہوا، کیا یہ کہ تقریروں کی کبڈی کبڈی سے مسئلہ حل کر لیا جائے، کیا پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی بن جائے۔
اس ضمن میں جنرل عاصم باجوہ کا ٹویٹر اکاؤنٹ خاموش ہے۔
قومی اسمبلی میں پہلی تقریر وزیر اعظم نے کی۔ لیڈرآف اپوزیشن نے ایک پتہ کھیلا ، نہ خود تقریر کی، نہ عمران کو کرنے دی۔ مگر اگلے روز ان دونوں نے تقریر کی اور ٹریژری بنچ والوں نے بھی خوب خوب تقریریں جھاڑیں۔خوجہ آصف نے تو خوب لتے لئے۔اور عمران کی سٹی گم ہو کر رہ گئی۔
وزیر اعظم اس سے پہلے بھی دو تقریرں کر چکے ہیں ، یہ نشری خطابات تھے۔ان میں وزیر اعظم پر سکون نہیں تھے ، یقینی طور پر پہلی تقریر میں تو وہ ٹینشن کا شکار تھے، دوسری تقریر میں لہجہ قدرے دھیما تھا مگر خود اعتمادی کا عنصر مفقود تھا، اب جو اسمبلی میں آئے تونواز شریف سب سے زیادہ فریش نظرآ رہے تھے، ہر ایک سے ہاتھ ملا رہے تھے ا ور ایک ایسے شخص سے بھی ہینڈ شیک کی جوشاید اس کے لئے تذبذب میں تھا۔
اگر وزیر اعظم کی تقاریر کے متن پر غور کیا جائے تو سب کا متن ایک ہی تھا۔ سوائے ا سکے کہ تیسری تقریر میں وہ دبئی کا بزنس بھی سامنے لے آئے جس پر خورشید شاہ نے گرہ لگائی کہ سات سوالوں کی جگہ ستر سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔اور ڈاکٹر مبشر حسن جو دوبئی کے کاروبار کے دنوں میں ملک کے وزیرخزانہ تھے، وہ بھی بول اٹھے ہیں۔انہوں نے ستر سوالوں میں ایک اور کا اضافہ کر دیاہے۔وزیر اعظم نے قومیا اسمبلی میں بھرپور اعتماد کے ساتھ تقریر کی۔وہ کسی ٹینشن کا شکار نظر نہیں آتے تھے، مخالفین کے ذکر پر بھی انہوں نے لہجے میں تلخی نہیں آنے دی، میں نے یہ تقریر بار بار سنی ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کی وزیر اعظم کومستقل طور پر یہی لب و لہجہ اختیار کرلینا چاہئے۔ اب تک کی تقریروں میں سے یہ تقریر وزیر اعظم کی بیسٹ تقریر تھی، میں اسے پورے نمبر دیتا ہوں۔مگر یہ بات بھی ریکارڈ پا لانا چاہتا ہوں کہ پہلی دو تقریروں کی قطعی ضرورت نہ تھی۔کوئی حکومت اس انداز میں اپنے رد عمل کااظہار کرے تو اسے گبھراہٹ پر محمول کیا جاتا ہے۔
رہے مزید ستر سوالات تو ان کاحل بھی وزیر اعظم نے تجویز کر دیا ہے۔اور لگتا ہے کہ ا س حل پر پیشگی اتفاق رائے حاصل کر لیا گیا ہے۔اور یہ حل ہے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا۔ اپوزیشن نے بائیکاٹ کے باوجود اس کی تشکیل پر صاد کیا ہے۔کیوں کیا ہے، اس پر بات آگے چل کر کروں گا۔
میں اس وقت خوب ہنسا جب ایک ٹی وی چینل نے اپنا ایک ٹاک شو، ری پیٹ کے طور پرچلایا، اس میں بحث اس بات پرہو رہی تھی کہ نواز شریف اور شہباز شریف میں شدید اختلافات ہیں، میں اس وقت ا ور ہنسا جب شریف خاندان کے ایک اندرونی اخبار نویس بھی مانے چلا جارہا تھا کہ چھوٹے موٹے ا ختلافات تو ہر خاندان میں ہوتے ہیں،میری ہنسی کی وجہ یہ تھی کہ ساتھ ہی پروگرام کو،کٹ کر کے پنجابا اسمبلی میں شہباز شریف کی لائیو تقریر دکھانی شروع کر دی گئی۔ میں ہنساا سلئے بھی کہ اس قدر با بصیرت ا ور باعلم تجزیہ کاروں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کی گل افشانی کے عین اگلے روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہے ا ورا س میں وزیر اعلی کا خطاب شامل ہے۔
اور وزیرا علی نے جو کچھ کہا ، وہ تقریر بازی کے مقابلوں میں سے زیادہ اہم ثابت ہوا، اس لئے کہ یہ تقریر دلائل سے بھری ہوئی تھی، درد اور کرب سے معمور تھی، اس تقریر میں وزیر اعلی زبانی بول رہے تھے، سبھی جانتے ہیں کہ اس وزیرا علی کو لکھی ہوئی تقریروں کی ہر گز ضرورت نہیں ہوتی، شہباز شریف کی تقریرنے مخالفین کے منہ بند کر دیئے۔اور یہ تاثر بھی ختم کر دیاکہ اس خاندان میں کوئی اختلاف بھی موجود ہے، اگر وزیرا علی شور مچا نے والوں میں شامل نہیں تھے تو ا س کی کوئی وجہ ہو گی اور میں نے لکھا تھا کہ انہیں ایک ریزرو بکتر بند ڈویژن کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اب اس بکتر بند ڈویژن کو میدان میں جھونکا گیا ہے تو سب نے دیکھ لیا کہ اس نے بازی الٹ کر رکھ دی۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور عمران خان کی تقریریں بھی ہو چکیں۔خورشید شاہ کے لہجے میں طنز تھی، وہ سنجیدگی سے گفتگو نہیں کر سکے جبکہ عمران خان نے وہی باتیں دہرائیں جو انہوں نے میڈیا کے سامنے دو دن پہلے کر دی تھیں، ان میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔وہ سخت ٹینشن میں نظرآئے، ان پر جھلاہٹ طاری تھی اور وہ اس کوشش میں تھے کہ اپنی صفائی کس طرح پیش کریں۔عمران خان ایک طرف گھیر گھار کر وزیر اعظم کو اسمبلی میں لائے ، دوسری طرف خود برطانیہ چلے گئے اور انہوں نے واپسی پر احسان جتلایا کہ وہ مانچسٹر میں فنڈ ریزنگ کی ایک تقریب درمیان میں چھوڑ کے آ ئے ہیں، آج کے اجلاس کے بعد انہین بھاگنے کی جلدی تھی، مظفر آباد میں کوئی جلسہ رکھا ہوا تھا، یہ ہے ان کے نزدیک پارلیمنٹ کی اہمیت اور لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے، مگر اب وہ آئے ہیں تو حل وہی نکلا ہے جو وزیر اعظم نے تجویز کیا ہے۔کہ ایک پارلیمانی کمیٹی احتساب کا طریقہ طے کرے، پوری پارلیمنٹ کو یہ تجویز بھا گئی ہے،ا سلئے کہ اب وہ سپریم کورٹ کے شکنجے سے بچنے کا راستہ تلاش کر لیں گے، جیتے جی یہ کمیٹی اپنے پارلیمانی ساتھیوں کی گردن سپریم کورٹ کے شکنجے میں کیوں جانے دے گی۔
لیجئے جی، پرویزرشید نے اعلان کر دیا کہ اس کمیٹی کی تشکیل ایک روز بعد پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے ہو جائے گی، اگرچہ اس کمیٹی کو اپنی سفارشات پیش کرنے کے لئے دو ہفتے دیئے گئے ہیں مگر کمیٹی کمیٹی کھیلنے کا تجربہ لوگوں کو اچھی طرح سے ہوچکا ہے۔ کوئی کام نہ کرنا ہو توماضی میں ا س پر کمیٹی بٹھا د ی جاتی تھی، کمیٹی بیٹھی رہتی تھی اور نیچے پڑے انڈے گل سڑ جاتے تھے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ا س ملک میں نہ کبھی کسی کااحتساب ہوا، نہ آئندہ ہوگا۔اور مچا لو شور !!
مجھے مسلح افواج پر رحم آتا ہے جو بقاا ور سلامتی کی جنگ لڑ رہی ہیں اور اکیلی ہیں، اس کے ارد گرد کرپٹ لوگوں کا اکٹھ ہے، کرپشن ا ور دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں، مگر فوج کو اس کرپشن کے خاتمے کی ا جازت یہ کرپٹ ٹولہ ہر گز نہیں دے گا۔کیوں دے گا۔زرداری گالی گلوچ کر کے صاف نکل گیا،الطاف کے منہ سے کتنی جھاگ نکلی۔ کمال ہے کہ ا سے ایک باکمال ترکیب سے بچا لیا گیا۔فوج منہ دیکھتی رہ گئی۔گالیاں کھا کے بھی بد مزہ نہ ہوئی۔
فوج منہ دیکھتی رہ جائے گی۔ سیاست دانوں کو کسی طرح وقت گزارنا ہے بلکہ ٹالنا ہے، انہیں انتطار ہے آرمی چیف کی ریٹائر منٹ کا۔ یہ چند مہینے تقریروں ، الزام تراشیوں اور کمیٹیو ں کے پتے کھیل کر گزارہ جا سکتا ہے۔جمہوریت ضرور بچنی چاہئے مگر کرپٹ لوگوں کو تو نہیں بچنا چاہئے۔کیا آپ کو اس سے اتفاق نہیں۔