عمران نے دھرنا دیا اور قادری کینیڈا سے ٹپک پڑا، اس نے لاہور میں طیارے سے اترنے سے انکار کر دیا، اس کامطالبہ تھا کہ کور کمانڈر آئے اورا س سے مذاکرات کرے، کور کمانڈر نہیں گئے، نہ جا سکتے تھے۔البتہ گورنر سرور گئے اور قادری کو ماڈل ٹاؤن پہنچا آئے۔
دھرنے والوں نے شدید گرمی میں جھلسنے والے ہجوم کو دلاسہ دینے کے لئے بات بنائی کہ بہت جلد ایمپائر انگلی کھڑی کر دے گا۔روئے زمین پر کسی ایمپائر کا وجود ہی نہیں تھاتو انگلی کہاں سے کھڑی نظر آتی۔پھر پتہ نہیں کہ کیا ہوا کہ عمران ا ور قادری کی ملاقات آرمی چیف سے ہو گئی، یہ نہ ہوتی تو اچھا تھا۔ مگر آرمی چیف نے ان کے مطالبے کو پذیرائی بخشنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ حضرات وزیر اعظم کا استعفے لینے گئے تھے۔ ظاہر ہے جی ایچ کیو کسی لحاظ سے جی پی او تو نہیں جو پی ایم ہاؤس کی ڈاک تقسیم کرنے کا فریضہ ادا کرتا ہو۔
فوج کے اس کھلی غیر جانبداری کے رویئے کے باوجود خورشید شاہ نے غیر جمہوری قوتوں کے خلاف طبل جنگ بجا دیا، پارلیمنٹ کے اجلا س میں دھواں دار تقریریں ہوئیں۔ پیپلز پارٹی نے فوج کے خلاف پرانے بدلے بھی اتار لئے ۔ پارلیمانی قوتیں اس طرح میدان میں صف آرا ہو گئیں جیسے فوج بس حرکت میں آیاہی چاہتی ہے ۔اور اس کاراستہ روکنا ضروری ہے۔
سیاسی قوتیں فوج کے خلاف ادھار چکانے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتی ہیں، آرمی چیف ضرب عضب کے حق میں تھے، سیاستدانوں نے دہشت گردوں سے مذاکرات کا ڈول ڈال لیا۔آرمی چیف ان کا محتاج نہیں تھا، ملک کے کسی بھی سرکاری ہسپتال کے آپریشن روم میں مریض کا سینہ یا سر کھولنے سے پہلے ڈاکٹروں کو حکومت یا سیاستدانوں سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آرمی چیف بھی انہی ڈاکٹروں کی طرح خود مختار تھا، اس ننے آپریشن کاآغاز کر دیا، مگر سیاستدان اور حکمران فوج کے پیچھے کھڑے نہ ہو سکے۔وہ تو پشاور میں آرمی پبلک اسکول مں کوئی ڈیڑھ سو بچوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی تو سیاستدانوں ا ور حکومت نے بھی ہوش کے ناخن لئے، عمران نے اپنا دھرنا لپیٹا اور سبھی پشاور میں مل بیٹھے، اب پوری قوم ضرب عضب کے پیچھے کھڑٹی تھی، چاہے نام کے طور پر ہی سہیِ مگر کسی میں اس کی مخالفت کی ہمت نہیں تھی، وہ بھی مخالفت نہیں کر سکے جنہوں نے لال مسجد کے آپریشن کی مخالفت کی، وہ بھی تھے جنہوں نے سوات آپریشن کی مخالفت کی ا ور وہ بھی تھے جنہوں نے اکہتر میں مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی، اب انہیں بنگلہ دیش حکومت تمغوں سے نواز رہی ہے۔ان میں ا ور مودی میں کیا فرق ہوا جس نے ڈھاکہ جاکر کہا کہ وہ بھی بنگلہ دیش بنوانے میں سرگرم تھا۔
ضرب عضب میں قومی اتفاق رائے کے بعد ایک ا صطلاح رائج ہوئی کہ سبھی ایک صفحے پر ہیں۔
پانامہ لیکس پر عمران خان کے ہنگامے نے یہ صفحہ پھاڑنے میں اہم کردارا دا کیا۔وزیر اعظم نے پہلی تقریر کی تو اس کا آدھے سے زیادہ حصہ فوج سے براہ راست خطاب تھا، ا سلئے کہ کہیں آرمی چیف کہہ بیٹھے تھے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے ا ور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ کرپٹ عناصر کی بیخ کنی کی جائے جو پس پردہ یا کھلے عام دہشت گردی کی سرپرستی کرتے ہیں، اس تقریر کے بعدفوج نے اعلی تریں افسروں کو کرپشن کے الزام میں گھر بھجوا دیا، اس سے چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ فوج پانامہ کے شور میں اپنی آواز ملا رہی ہے۔ مگر فوج کا ہر گزکوئی ایسا ارداہ نہ تھا ۔اس نے خاموشی ا ختیار کر لی کہ حکومت جانے اور اپوزیشن جانے یا عدلیہ جانے جس کی کورٹ میں اب گیند جا چکی ہے۔
مقام شکر ے کہ ابھی تک اس تنازع میں کسی نے فوج کی طرف نہ تو انگلیاں اٹھائی ہیں، نہ عمران نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایمپائر کی بات کی ہے، نہ فوج کو کہیں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ بھی بہتر ہوا ہے کہ اس دوران وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات بھی نہیں ہوئی لیکن اگر ہو بھی جائے تو اس پر کون معترض ہو سکتا ہے، ملک اس وقت سیکورٹی کے سنگین بحران کا شکار ہے، دہشت گرد آخری زور لگا رہے ہیں ، افغانستان گھوریاں ڈال رہا ہے، بھارت کی را کے تربیت یافتہ ایجنٹ پکڑے جا رہے ہیں،افغانی ایجنٹ بھی گرفتار ہو رہے ہیں، پاک بھارت تعلقات سرد مہری کاشکار ہیں، سعودیہ کے ساتھ روایتی قربت دکھائی نہیں دیتی اور ایران جیسا قریبی مسلم ہمسایہ بھی فاصلے پر ہو گیا ہے۔ان حالات میں وزیرا عظم اور آرمی چیف باہم مشاورت نہیں کریں گے تو کیا وزیراعظم اور عمران کی مشاورت سے فیصلے ہو ں گے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف اپنی عوامی مقبولیت کی بلندی پر ہیں۔ مگر وہ اس سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے کے موڈ میں نہیں ہیں ،بلکہ کوئی جائز فائدہ بھی نہیں اٹھا رہے۔وہ طالع آزما جرنیل ہر گز نہیں ہیں۔ نہ وہ ایوب خان ہیں ، نہ نعوذ باللہ یحی خاں ہیں، نہ ضیا، نہ مشرف۔بس وہ راحیل شریف ہیں، میجر عزیزبھٹی شہید نشان حیدرا ور میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کی روایات کے امیں۔راحیل نے اپنا سکہ جمایا ہے تو ایک کڑے مقابلے میں جہاں دنیا کے بڑے بڑے سورما جرنیل شکست کھا چکے اور ناکام ہو چکے، راحیل واحد جرنیل ہیں جو دہشت گردی کی جنگ میں فتح سے ہمکنار ہوئے ہیں ا ور پوری دنیا اس کے لئے ان کو سر جھکا کے سلام کرتی ہے۔ان کی وجہ سے پاکستان قوموں کی برادری میں سر بلند ہوا ہے ا ورا سکی توقیر میں ا ضافہ ہوا ہے۔پاکستان سپر طاقت نہ سہی ،مگر ایک منی سپر پاور ضرور ہے اوراس سے کسی کو انکار نہیں ، اگر سیاستدان بھی اپنا چہرہ اور کردار صاف اور شفاف بنا لیں تو عالمی ایئر پورٹوں پر پاکستانی مسافروں کے کپڑے اتار کر تلاشی لینے کی کسی کو جرات نہیں ہو گی، ابھی کل ہی ہمارے وزیر داخلہ نے امریکی صدارتی امیدوار کو ترنت جواب دیا ہے کہ آپ صدر بن کر بھی پاکستان جیسے خود مختار ملک میں منہ نہیں مار سکتے ا ور شکیل آ فریدی کو بچا کر نہیں لے جا سکتے۔یہ ہے وہ طنطنہ جو جنرل راحیل شریف کی زیر کمان قربانیاں دینے والی فوج کے لہو نے ہمیں بخشا ہے۔ہمارے سیاستدان بلیوں کی طرح ایک دوسرے پر نہ جھپٹیں اور باہمی معاملات اور تنازعات کا حل مل بیٹھ کر نکالنے کی عادت اختیار کر لیں تو پاکستان کے سپر پاوربننے کے خواب کی تکمیل سامنے نظرآ جائے گی۔ورنہ کسی داستان میں ہماری داستان کا تذکرہ نہیں ہو گا۔ فاعتبرو یا اولی الابصار!!
امید کی جانی چاہیے کہ وزیر اعظم بھی فوج سے ٹکرانے کی ماضی کی تاریخ نہیں دہرائیں گے اور اپنا اور جمہوریت کا دھوبی پٹرہ نہیں کروا بیٹھیں گے۔
پانامہ لیکس
شکر ہے فوج کو کسی نے درمیان میں نہیں گھسیٹا۔۔۔اسداللہ غالب