پانامہ لیکس

شہباز شریف میدان میں …اسداللہ غالب

شہباز شریف بھی میدان میں۔۔۔اسداللہ غالب
باتیں ہو رہی تھیں حکمران خاندان میں پھوٹ ا ور انتشار کی مگر بٹوارہ ہو رہا ہے تحریک انصاف میں ، عمران خان سے چندلیڈر نہیں سنبھالے جاتے، نے ہاتھ باگ پر ہے ، نے پا ہے رکاب میں ۔اس کی تفصیل آگے چل کر۔
مگر یہ طعنہ تو ختم ہوا کہ شہباز شریف نے پانامہ لیکس پر خاموشی ا ختیار کر رکھی ہے ا ورا س خاموشی کا مطلب بھی نکالنے کی کوشش کی جاتی رہی۔جتنے منہ اتنی باتیں۔کوئی دور کی یہ کوڑی لایا کہ شریف خاندان میں لڑائی ہے۔کسی نے کہا شہباز چاہتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی پھنسیں اور وہ یا ان کا بیٹا حمزہ وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہو، کسی نے کہا کہ شہباز کسی طور پر اسحق ڈار کو وزیر اعظم بنتے نہیں دیکھنا چاہتے، یہ ساری بحث از کار رفتہ تھی، بے معنی تھی، بے وقت تھی، بے بنیاد تھی ،شر انگیزی پر مبنی تھی، نہ کہیں وزیرا عظم جا رہے تھے، نہ ان کاکہیں جا نے کاارادہ تھا، نہ کوئی ان کو کہیں بھیجنا چاہتا تھا۔وہ لندن ضرور گئے، چیک اپ کے لئے، ایک بار پہلے بھی ایساہی روٹین کا چیک اپ تھا کہ جان کے لالے پڑگئے، میاں صاحب کی ایک شریان پھٹ اور خون بہہ کر پیٹ میں جمع ہونے لگا، نوائے وقت کے صفحات گواہ ہیں کہ میں نے یہ خبر اپنے کالم میں اسی وقت ہی بریک کر دی تھی لیکن اسے اچھالنا مناسب نہیں سمجھا تھا، یہ تب ہوا جب ریمنڈ ڈیوس پاکستان سے ا ڑنچھو ہوا، تب ہی چھوٹے بھائی تشویش کے عالم میں لندن سدھارے۔ لوگوں نے ان کا ناطہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے جوڑا مگر میں نے اصل خبر کالم میں لکھ دی تھی ا ور شریف خاندان کے سرکاری یا نجی بائیو گرافر کی طرح اسے چار سال تک چھپائے نہیں رکھا۔اب اللہ کا شکر ہے میاں صاحب کسی ایمر جنسی کا شکار نہیں ہوئے، اس لئے وہ جلد واپس بھی چلے آئے مگر چار سال قبل اللہ نے انہیں نئی زندگی عطا کی تھی ا ور شاید ا س کا کوئی مقصد تھا،میاں صاحب کو اللہ کی رضا کی خاطر کوئی کارنامہ انجام دے دینا چاہئے۔پل بنا ، چاہ بنا ، فیض کے اسباب بنا۔وہ واقعی موٹر ویز کا جال پھیلانے کی باتیں کر رہے ہیں، وزیر اعظم کوئی اعلان کرتے ہیں تو یہ دل بہلاوے کے لئے نہیں ہوتا، انہوں نے گزشتہ الیکشن میں نعرہ لگایا تھا کہ بدلا ہے پنجاب ،بدلیں گے پاکستان اور پاکستان واقعی بدل رہاہے۔ تین شہروں میں میٹرو، ایک شہر میں اورنج ٹرین اور شہر شہر موٹر وے کے منصوبے۔ بجلی کے میگا پراجیکٹ الگ ہیں۔ یہ سب کچھ نظرآ رہا ہے،عمران نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ تبدیلی کا نعرہ لگایا اور یہ وہ وعدہ تھا جو کبھی ا یفا نہیں ہوتا، خیبر پی کے کی حالت پر تقدیر بھی آنسو بہاتی ہے، روز بارشوں میں لوگ مرتے ہیں، اور بنی گالہ کا شہزادہ سندھ میں دھرنوں کا کارواں لے کے جا رہا ہے۔ نہ اپنا گھر چلایا گیا ، نہ صوبہ چل پا رہا ہے، اور چلے ہیں سندھ کو تبدیل کرنے ، دیکھئے سندھی ان کے ساتیھ کیا سلوک کرتے ہیں ۔
بات تھی شریف خاندان میں بٹوارے کی، مگر نقادوں کے تجزیوں کے طوطے اڑ گئے ہیں جب میاں شہبازشریف بھی میدان میں کود پڑے ہیں ، منگل کو انہوں نے بیان دیا کہ سپریم کورٹ کے کمیشن کے بعد اپوزیشن کو اب تحقیق اور تفتیش اور فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔بدھ کو انہوں نے ایک اور بیان داغا ہے کہ دھرنے والے افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں، یہ وہ شرارت ہے جو دھرنے والوں نے ہمیشہ کی ہے، ایک دھرنا دو سال پہلے ڈی چوک میں دیا، کئی ماہ تک دیا، چین کے صدر کا دورہ روکنا ا سکا مقصد تھا ، اب حکمران تو نہیں کہیں گے کہ دھرنے و الے بھارتی را کے ایجنٹ کلبھوشن سنگھ کی دہشتگردی سے توجہ ہٹانا چاہتے ہین مگر میرا گمان یہی ہے ا ور ہر محب وطن پاکستانی کو اس کی تشویش لاحق ہے اور دھرنوں کا دوسرا مقصد اس سے بھی زیادہ سنگین اور گھناؤنا ہے، یہ لوگ پاک چین اقتصادی راہدار ی کو ہر قیمت پر روکنا چاہتے ہیں۔ہو سکتا ہے تحریک انصاف پاکستان کے ساتھ تو لڑ لے مگر چین سے لڑنے کیا ا س میں کیا ہمت، ایں خیال است و محال ا ست و جنوں است۔ ویسے پاکستان کے ساتھ لڑنے کی ہمت بھی ان میں نہیں ہے، پاک فوج ایک پورا ڈویژن اس راہداری کی حفاظت کے لئے کھڑا کر رہی ہے۔
تو شریف خاندان میں انتشار کے خواب دیکھنے والے مایوس ہو چکے جبکہ تحریک انصاف میں انتشار ہی انتشار ہے ، ایف نائن پارک کے جلسے میں جو کچھ خواتین کے ساتھ ہوا، وہ نوک قلم پر نہیں آ سکتا، خدا ان لوگوں کو اپنی ماؤں بہنوں کی عزت کرنے کی توفیق دے ، ادھر تحریک کی اعلی تریں قیادت مرغوں کی طرح الجھی ہوئی ہے ، جہانگیر تریں، چودھری سرور، اور مخدوم شاہ محمود تو وہ لوگ ہیں جو سب کو لڑتے نظر آتے ہیں مگر یہ لڑائی نچلی سطح تک سرایت کر گئی ہے۔ اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوئے ہم۔ چودھری محمد سرور اپنے بیٹے کی انتخابی مہم چلانے کے بہانے لندن کی پرواز پکڑ رہے تھے کہ عمران کو ان کی منت سماجت کرنا پڑی کہ لاہور کا جلسہ بھگتا کر چلے جانا۔ تحریک انصاف اگر چودھری محمد سرور جیسے بے داغ شخص کو برداشت نہیں کر پا رہی تو اس کی شفافیت کا پول کھل جاتا ہے، میں نے سرور کو بے داغ کہا ہے، یہ سرٹی فیکیٹ اسے برطانیہ کی عدالتوں سے ملا ہے اور کئی برس کی چارہ جوئی کے بعدملا ہے۔ برطانیہ کی عدالتوں سے بری ہونا کسی معجزے کم نہیں۔شاہ محمود اور خود عمران خان اس شفافیت کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے۔
حکمران خاندان میں انتشار تلاش کرنے والے اپنی خیر منائیں۔ تحریک انصاف کے انجام بد پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں ، تلہ گنگ سے مجھے کسی نے فون کیا، اس شخص کی عمر چھیاسی سے اوپر ہو گی،ا س نے کہا آپ نے کیسے کہہ دیا کہ نواز شریف تخت طاؤس عمران خان کے حوالے کر دے۔ عمران تو ا سکیپاسنگ بھی نہیں ہے، خدا را اس سے پاکستان کی جان چھڑائیں۔میں اسکے سوا کیا کہتا کہ اللہ سے مدد مانگو اور اگلے الیکشن میں اسے ڈھیر کردو۔اس وقت تو ا سے ایک ہی فن آتا ہے اور وہ ہے چیخ و پکار۔ اور وہ دن رات بول رہا ہے۔ بولتا چلا جا رہا ہے۔اب دیکھئے وزیرا عظم بھی اس کے سامنے بولنے لگے ہیں اور ٹھوس باتیں کر رہے ہیں، عمران کی طرح صرف شور نہیں مچاتے، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہیں۔
ایک طرف شور کا جنون ہے، دوسری طرف خدمت کا جنون ہے، نتیجہ صاف ظاہر ہے۔اللہ بھی بھلائی کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ عمران خان گھرمیں بھی اکیلا ہے ا ور سیاست میں بھی اکیلا ۔