مہر سعید ظفر پڈھیارپہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے مالی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی اور ان کے حوالے سے میں نے ایک طویل بحث کو اپنے کالم میں سمیٹا تھا، یہ کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے۔
پچھلے منگل کو ان کا پھر فون آیا، میں نے کہا کہ اب کے بات فون پر نہیں ہو گی، ون ٹو ون ہو گی، اور آدھ گھنٹہ بعد میں جوہر ٹاؤن میں ا نکے گھر پہنچ چکاتھا۔
ظاہر ہے پانامہ لیکس ہی موضوع گفتگو تھا اور پڈھیار صاحب اس بات کا کریڈٹ لے رہے تھے کہ ا س ساری لوٹ مار کی طرف انہوں نے سب سے پہلے اشارہ کیا تھا بلکہ ا سے طالبان کی دہشت گردی سے زیادہ خطر ناک قرار دیا تھا۔
پڈھیار صاحب پچاسی کی اسمبلی میں آئے، میرے ساتھ چھ سال گورنمنٹ کالج میں گزار چکے تھے، میاں نواز شریف نے ان کے اندر کی صلاحیتوں کو پہچانتے ہوئے انہیں اپنا وزیر اطلاعات مقرر کیا ، ان کاسارا رعب مجھ پر ہی پڑتا تھا۔
اس مرتبہ ہماری بحث کا خلاصہ یہ تھا کہ انسان کو حلا ل یا حرام کمائی کی ایک حد مقرر کر لینی چاہئے، وہ جو کچھ فالتو کمائے گا،اس کے کسی کام نہ آئے گا، بے نظیر اپنا خزانہ ساتھ نہ لے جا سکیں ، مشرف کے اکاؤنٹ بھرے ہوئے ہیں مگرخدا کی زمیں پرا نہیں کہیں پناہ نہیں ملتی ، نہ کہیں سکون دستیاب ہے، غیب سے مدد نہ آتی تو غداری کیس ان کے گلے کا طوق ثابت ہوتا ۔
کمائی کی حد کیا ہوتی ہے، ہر انسان کو اپنی ضروریات کا اچھی طرح علم ہے اور یہ ضروریات خواہ مخواہ بڑھا نہیں لینی چاہیءں۔ ایک اعلی حکومتی عہدیدار نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ انسان کے پاس کتنے پیسے ہوں تو وہ اپنی تمام ضروریات پوری کر سکتا ہے، دوست نے کچھ حساب کتاب لگایا، اور کہا کہ پچاس کروڑ کافی رہیں گے۔ اس پر سوال کرنے والے کے منہ سے لمبی سی اونہہ نکلی، شاید اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اتنے پیسوں کے مالک ہیں۔
ویسے تو قارون کا خزانہ بھی انسانی حرص کے لئے کافی نہیں مگر ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ آپ سب کچھ قبر میں نہیں لے جا سکتے، اسکندر جب چلا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے ، اس ظالم کفن کی کوئی جیب تک نہیں ہوتی۔
ان دنوں ایک عجب تماشہ لگا ہے، آف شور پر شور محشر بپا ہے، جو حضرت زیادہ شور مچاتے تھے، ان کے بارے میں یہ عقدہ کھلا کہ وہ خودآف شور کے باواآدم ہیں، اب بغلیں جھانک رہے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ خورشید شاہ نے مک مکا کے تحت بائیکاٹ کیا کہ عمران کو تقریر کا موقع نہ ملے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خورشید شاہ نے عمران کی نسلوں پرپر احسان کیا کہ اسے بھرے ایوان کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا۔کئی لوگ ڈبل ایجنٹ بھی ہوتے ہیں جیسے دو دھاری تلوار۔
پتے کی بات وزیر اعظم کر گئے ہیں کہ ہر ایک کو ایک ہی ترازو سے تولا جائے گا، کسی کو احتساب کے چنگل سے بچنے نہیں دیا جائے گا۔
وزیر اعظم نے اپنی کتھا سنا دی، خورشید شاہ ہزار بار کہتے رہیں کہ سات سوالوں کی جگہ ستر سوالوں نے جنم لے لیا ہے۔ پارلیمنٹ کا فلور کسی عدالت کا بدل نہیں ہو سکتا، جب وزیراعظم کو یا ان کے بیٹوں کو کوئی عدالت میں بلائے گا تو وہ ستر نہیں ستر سو سوالوں کا جواب بھی دے سکتے ہیں۔ مگر یہ حضرت صاحب عدالت کو کیا منہ دکھائیں گے کہ پرویز رشید کے بقول جب لوگوں کو آف شور کے اسپیلنگ بھی نہیں آتے تھے تو انہوں نے پاکستان سے پہلی آف شور کمپنی بنائی، فلیٹ خریدنا تو ایک بہانہ تھا، اصل مقصد تو دھن کو سفید کرنا تھا اوراسے پاکستان منتقل کرنا تھا، وہ بھی اگر منتقل ہوئی ہو، یا ہو سکتا ہے کہ صدقے خیرات ہی سے بنی گالہ کھڑا کیا گیا ہو، بہر حال اس کے لئے وزیر ا عظم کے بقول ترازو میں تلنے کا انتظار کیا جانا چاہئے یہ ترازو نصب نہیں ہوتا تو یوم حشر کو تو حشر نشر ہو جائے گا، سب کچھ الم نشرح ہو جائے گا اور وہ بھی پوری انسانیت کے سامنے۔
وزرا کا یہ موقف بھی دل کو لگتا ہے کہ کپتان کو رن آؤٹ یا ناک آؤٹ کر دیا۔وہ راہ فرار اختیار کر گیا، ویسے بھی ا سکے پاس بولنے کو جو کچھ بھی تھا ،ا س نے اسمبلی میں جانے سے پہلے ہی کیمروں کے سامنے اگل دیا اور اسمبلی سے فرار کے بعد بھی اس کی جگالی کر دی۔دوسروں پر الزام تراشی کرنے والا اب اپنی صفائی دیتے ہوئے ہانپ رہا ہے۔
مگر مالی دہشت گردی کا قصہ یہیں تک محدو نہیں، کئی سو لوگ اس میں ملوث ہیں اور اگر قرض خوروں کو شامل کر لیں تو تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے گی،ا ن لوگوں نے عوامی سرمائے کو شیر مادر سمجھ کر چٹ کیا۔
آف شور والوں ا ور قرض خوروں نے مالی دہشت گردی کا ارتکاب کیا، ان سے وہی سلوک ہونا چاہئے جو فوج دہشت گردوں سے کر رہی ہے، ایک اے پی سی اور بلائی جائے اور دہشت گردی کے مالی سرپرستوں ا ور سہولت کاروں کے ساتھ مالی دہشت گردوں اور قرض خوروں کو بھی ا س فہرست میں شامل کر لیا جائے اور ان کے کیس فوجی عدالتوں میں منتقل کر دیئے جائیں۔اب تک ریٹائرڈ اور حاضر جج آف شور کی تحقیقات کے لئے تیار نہیں ہوئے ، تو پھر فوجی عدالتیں ہی لگنی چاہیءں اور چوکوں میں لگنی چاہیءں تاکہ ہر ایک کو انصاف ہوتا نظر بھی آئے۔
سن دو ہزار کی بات ہے کہ جنرل مشرف پہلی مرتبہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے، انہوں نے اپنی تقریر میں امریکہ ا ور یور پ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ ہمیں مطعون کرتے ہو کہ ہم نے آپ کے دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے مگر یہ بھی سن لو کہ آپ لوگوں نے ہمارے مالی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے، مشرف کی بات پر کسی نے دھیان نہیں دیا،ا سلئے کہ عالمی میڈیا امریکہ ا ور یورپ کے زیر اثر ہے اورآج وہی میڈیا ہماری آف شور کمپنیوں کا ڈھول پیٹ رہا ہے ا ور ہم بھی ا س تماشے میں شریک ہیں۔
سعید پڈھیار کے ساتھ دو گھنٹے کی طویل بحث و تمحیص کے بعد نتیجہ یہی سامنے آیا کہ مالی دہشت گردوں کو چھوڑنا نہیں چاہئے، اب تو وزیر اعظم بھی کہہ چکے کہ کسی کو بھاگنے نہیں دیں گے تو ہو جائے نا بسم اللہ !!ترازو ہو اور سبھی ملزم اپنی صفائی پیش کریں۔
پانامہ لیکس
مالی دہشت گردی کے لئے ترازو۔۔اسداللہ غالب