اسلام آباد: (ملت+آئی این پی) پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق اور فواد چوہدری نے کہا ہے کہ عدالت میں مسلم لیگ (ن) اوران کے وکلا کے دعووں کی قلعی کھل گئی، ثابت ہوگیا وزیر اعظم کے پاس اپنے دفاع کیلئے کچھ نہیں، وہ دودھ اور پانی کو الگ نہیں کرنا چاہتے، انہیں پتہ ہے کہ دودھ اور پانی الگ ہوگیا تو وہ وزیراعظم نہیں رہیں گے، (ن) لیگ کے وکیل مخدوم علی کوشش کررہے تھے کہ عدالت کی توجہ حقائق سے ہٹ جائے ، 9 ملین اور گلف اسٹیل کا ذکر ہم نے نہیں بلکہ ن لیگ نے کیا تھا،کل بھی جھوٹ بولا جا رہا تھا اور آج بھی جھوٹ بولا جا رہا ہے، وزیر اعظم بچوں کو پیسے دے سکتے ہیں تو ذرائع کیوں نہیں بتا سکتے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کی زندگی کی کتاب کے بہت سے صفحات بند ہیں،قطری شہزادے سے جعلی خط لکوایا گیا، ایوان میں جھوٹ بولنے پر پارلیمنٹ کو وزیراعظم کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ وہ جمعرات کو پانامہ کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت عظمیٰ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔اس موقع پر پانامہ کیس میں پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کے بیانات میں تضاد کے حوالے سے (ن) لیگ کے نئے وکیل نے موقف تبدیل کر لیا ہے، آج عدالت میں تین موضوعات پر بات ہوئی جن میں حسین نواز کی جانب سے نواز شریف کو دئیے جانے74کروڑ روپے پر ٹیکس ادا نہ کرنا ،مریم نواز کی کفالت اور وزیراعظم نواز شریف کی پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے خطابات میں تضاد شامل ہیں، سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل نے بیانات میں تضاد کے حوالے سے بتایا کہ وزیراعظم کی تقریر میں براڈ فیکٹس بیان کیے گئے جس پر ججز نے کہا کہ آپ سے پہلے وکیل سلمان بٹ نے کہا تھا کہ یہ ایک سیاسی بیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف اپنے والد اور بچوں کے پیسے کا حساب دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں، وزیراعظم اپنے بچوں کو تحفے میں پیسے دے سکتے ہیں ،والد کے پیسے استعمال کر سکتے ہیں لیکن نواز شریف ان کا جواب نہیں دے سکتے، ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یوں لگتا ہے جو فیکٹری لگائی اس کا ثبوت موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے پاس دبئی میں لگائی گئی فیکٹری کا کوئی ثبوت نہیں، 34 ملین ڈالر کہاں سے آئے اور رقم بھیجنے والا کون تھا؟،وزیراعظم کواس کا جواب بھی دینا ہے۔فواد چودھری نے کہا کہ مقدمہ چاہے کتنا ہی سنجیدہ یا پیچیدہ کیوں نہ ہو،وکیلکی حس مزاح مقدمے کی پیچیدگی کا احساس نہیں دلاتی،پاناما کیس میں بھی وکلا کے دلچسپ تبصرے ماحول میں بوریت کا احساس نہیں ہونے دے رہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے وزیراعظم کے بیانات میں تضاد کے حوالے سے سوال اٹھا یا اور کہا کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ میری زندگی کھلی کتاب ہے لیکن اس کے بہت سے صفحات بند ہیں۔فواد چوہدر ی نے کہا کہ سماعت کے دوران ایک جج نے ریمارکس دیئے کہ حقائق کو دلائل نہیں بلکہ دستاویزی ثبوت کے ذریعے سامنے لایا جائے، عدالت نے وزیراعظم کے وکیل سے ثبوت مانگے ،وزیر اعظم کہتے تھے کہ جس مرضی فورم پر ٹرائل کر لو،اب ثبوت کیوں نہیں پیش کیے جا رہے، کل بھی جھوٹ بولا جا رہا تھا اور آج بھی جھوٹ بولا جا رہا ہے، ہر سماعت پرپیش کی جانیوالی دستاویزات بدل جاتی ہیں، وزیر اعظم کے وکیل نے دلائل دیے کہ ان کے موکل کی تقریر پر کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا جا سکتا، ایسا لگتا ہے وزیر اعظم کے پاس دبئی میں لگائی گئی فیکٹری کا کوئی ثبوت نہیں،9 ملین اور گلف اسٹیل کا ذکر ہم نے نہیں بلکہ ن لیگ نے کیا تھا،ایوان میں جھوٹ بولنے پر پارلیمنٹ کو وزیراعظم کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کی پارلیمنٹ کی تقریر وسیع النظر تھی،ن لیگ کی ٹیم سینہ تان کے آتے ہیں کہ جیسے چاہیں ٹرائل کریں ،مگر آج ن ٹیم کی کوشش ہے سپریم کورٹ کیس نہ سنے اور کیس کمیشن کے سامنے پیش ہو،سپریم کورٹ رسیدیں اور حقائق مانگ رہی ہے، وزیراعظم کہہ رہے ہیں میرے پاس کچھ نہیں ہے ،عدالت نے کہا کہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہوگا۔ ایک سوال کے جومیں انہوں نے کہا کہ اگر آرمی چیف باہر جا کر نوکری نہیں کر سکتے تو وزیر اعظم قطری شہزادوں سے گرانٹ کیوں لیتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان نعیم الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حدیبیہ ملز میں 34ملین ڈالر کہاں سے آئے ،15سال ہو گئے ،اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا، پاکستانی عوام چاہتے ہیں نوازشریف اربوں روپوں کی جائیداد کا حساب دیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں شریف نے جتنے بھی کاروبار کیے ،ان میں تمام بچوں کو حصہ دیا گیا لیکن نواز شریف چونکہ سیاست میں آچکے تھے اس لیے جان بوجھ کر ان کا نام باہر رکھا گیا، نواز شریف نے قطری خط سے پہلے کوشش کی کہ دبئی یا جدہ میں کچھ دستاویزات مل جائیں لیکن ایسا نہ ہو سکا جس کے بعد نواز شریف کے ایک نمائندے نے قطری شہزادے سے خط لکھا کر بھیج دیا۔نعیم الحق نے کہا کہ آج پھر عدالت میں نوازشریف اوران کے وکلا کی قلعی کھل گئی، جبکہ ثابت ہوگیا نوازشریف کے پاس اپنے دفاع کیلئے کچھ نہیں ہے، نوازشریف پارلیمنٹ میں تقریر لکھ کر لائے تھے، ان کے وکیل مخدوم علی خان نے وزیراعظم کی قومی اسمبلی کی تقریر سے نکلنے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم دودھ اور پانی کو الگ نہیں کرنا چاہتے،وزیراعظم کو پتہ ہے کہ دودھ اور پانی الگ ہوگیا تو وہ وزیراعظم نہیں رہیں گے، مخدوم علی خان کوشش کررہے تھے کہ عدالت کی توجہ حقائق سے ہٹ جائے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی اقتدار کی کشتی ڈوبتی نظر آ رہی ہے ، ن لیگ کیجانب سے قانونی ٹرمز کو اس طرح پیش کیا گیا کہ توجہ ہٹ جائے،جج صاحبان نے کہا کہ سلمان بٹ کچھ اور کہتے تھے اور آپ کہتے ہیں کہ براڈر انداز میں گفتگو کی، آج کی سماعت کے بعد لگتا ہے وزیر اعظم کے پاس نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔(ار)
پانامہ لیکس
مسلم لیگ (ن) اوران کے وکلا کے دعووں کی قلعی کھل گئی: نعیم