گزشتہ اتوار کی شام کو جب میں یہ سطریں لکھ رہا تھا تو لاہور کی لاڈلی اور محترم سڑک پر اس وقت ایک سیاسی جماعت کے جلسے کی تیاری ہو رہی تھی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے لاہور کی تاریخ کے ہزاروں جلسوں میں یہ پہلا جلسہ ہے جس کے حاضرین کا میدان اور جلسہ گاہ مال روڈ ہے اور جس کی اسٹیج بھی مال روڈ پر تیار کی گئی ہے، اس سے قبل دینی مزاج کی سیاسی جماعتیں مسجد نیلا گنبد میں جمعہ کی نماز کے بعد جلسہ شروع کرتی تھیں اور پھر یہ جلسہ ایک شریفانہ جلوس بن کر مال روڈ پر نکل آتا تھا اور اس سڑک کے کسی مقام مثلاً ریگل چوک یا اسمبلی کے باہر منتشر ہو جاتا تھا لیکن یہ جلوس مال روڈ پر سے گزرتا ضرور لیکن یہ سڑک کسی بھی جلوس کی محض گزر گاہ ہوتی تھی اس کا مرکز اور جلسہ گاہ نہیں۔ لاہور کے اصل سیاسی جلوس پرانے لاہور کی کسی دوسری جگہ سے شروع ہوتے تھے البتہ مال روڈ سے گزرتے ضرور تھے۔
موچی دروازے جیسے پرانے لاہور کے یہ جلوس نئے لاہور کی مال روڈ سے گزر کر یا اس کے کسی مقام پر ختم ہو کر ماڈرن اور جدید بن جاتے تھے۔ میں نے موچی دروازے سے شروع ہونے والے کئی جلوس پیدل چل کر رپورٹ کیے اور آہستہ چلنے کی وجہ سے شدید تکان بھی برداشت کی لیکن اخبار کی رپورٹنگ میرا پیشہ تھا اور کسی جلوس میں شریک لیڈر موقع پا کر جلوس کے دوران مجھے ملنے بھی آ جاتے۔ کوئی جلسہ ہو یا جلوس سیاستدانوں سے رابطہ ضرور ہوتا۔ میں آجکل اخباری کالموں اور بعض مضامین میں کالم نگاروں کی خود ستائی کے نمونے دیکھتا ہوں اور افسوس کرتا ہوں کہ ان کے ایڈیٹر کیا اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ان مضامین وغیرہ پر نظرثانی نہیں کرتے یا پھر اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ اگر کسی تحریر میں خود ستائی کا کوئی پہلو نکلتا تو ایڈیٹر اس تحریر کو نظرثانی کے لیے بھجوا دیتا کہ ذرا اسے خود ہی دوبارہ دیکھ لیں اور دوبارہ دیکھنے سے صاف پتہ چل جاتا کہ اس میں جو اپنی تعریف کی گئی ہے وہ آداب تحریر کے خلاف ہے یہ محسوس کر کے اپنے آپ سے شرمندگی ہوتی۔ یکم مئی مزدوروں کا دن ہے، اخباروں نے ضعیف العمر مزدوروں کی تصویر خاص طور پر چھاپی ہیں یا بچوں کی مگر افسوس کہ اس بوڑھے کی تصویر کسی نے نہیں چھاپی جو اپنے ٹوٹے پھوٹے جسمانی اجزاء کو جوڑ جاڑ کر کالم لکھتا ہے اور کسی صاحب ہوش و حواس کو دکھا لیتا ہے کہ خیالات کا سلسلہ درست ہے یا نہیں کہیں بکھر تو نہیں گیا ٹوٹ پھوٹ تو نہیں گیا۔ رپورٹ درست ہو تو پھر دوسرے کالم کی تیاری کی جاتی ہے۔
آج موقع ملا ہے تو جدید کالم نویسی اور سیاست کا ذکر کر دیا جائے۔ سیاست دان اپنی کسی تقریر کو اس وقت ہی مکمل اور عوام کے لیے قابل قبول سمجھتے ہیں جس کو کسی کالم نویس نے اہمیت دی ہو اور اپنے تبصرے کے ساتھ عوام کی خدمت میں پیش کیا ہو۔ اگر کوئی تقریر بغیر نوٹس کے گزر جائے اور کوئی کالم نویس یا اخبار کے کسی مستقل کالم کا لکھنے والا اسے اہمیت نہ دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تقریر عوام کے سر پر سے بھی گزر گئی۔ لاہور پبلک جلسوں کا شہر رہا ہے جو عام طور پر کھلی جگہوں پر ہوا کرتے تھے اور کسی جلسہ کے حاضرین یہ فیصلہ دیتے تھے کہ جلسہ کامیاب رہا یا ناکام اور کسی جلسہ کی حاضری کیسی رہی۔ مثلاً موچی دروازے کے جلسے کی حاضری کی وجہ سے اگر قریب کی سرکلر روڈ پر ٹریفک بند ہو جائے تو ایسے جلسے کی کامیابی میں کوئی شک نہیں رہتا۔
اس جلسہ کے مقرر حضرات اس کا تذکرہ مسلسل کرتے رہتے تھے اور یہ ان کا حق تھا کہ لاہور شہر کی کلاسیکی جلسہ گاہ موچی دروازہ اگر کسی جلسے سے بھر جائے بلکہ کناروں سے باہر نکل جائے تو اس جلسے کو کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے اور لاہور کے جلسہ باز اسے تسلیم کر لیتے تھے اور یہی کسی جلسے کی کامیابی کی بہت بڑی سند ہوتی تھی۔ لاہور سیاست کا مرکز اور سیاسی جلسے جلوسوں کا گھر رہا۔ مشہور ہے کہ کسی حکیم کی علاج گاہ یا چائے خانہ والے کا ہوٹل لاہور میں نہیں چل سکا وہ کوئی اور کام کر لے۔ بداحتیاطی اہل لاہور کا شیوہ ہے۔ کھانے پینے میں یہ کسی احتیاط کے قائل نہیں ہوتے اور کسی دوا خانے میں آتے جاتے دیکھے جاتے ہیں اور محفل آرائی کے لیے انھیں کوئی چائے خانہ درکار ہوتا ہے جہاں چائے کی ایک پیالی پر محفل آراستہ کی جا سکے۔ چائے آتی رہے اورگپ شپ چلتی رہے۔
بات سیاسی جلسوں کی ہو رہی تھی جب یہ جلسے عوام کے لیے ہوا کرتے تھے اور کسی کھلی جگہ پر منعقد ہوتے تھے۔ مثلاً موچی دروازہ عام جلسوں کے لیے اور دلی دروازہ مجلس احرار کے جلسوں کے لیے مخصوص تھے۔ حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری رات کو تیز چائے کی آخری پیالی پی کر جلسہ گاہ میں داخل ہوتے اور پھر وقت سحر تک اپنی شہرہ آفاق تقریر کا رنگ جماتے تھے اور حاضرین میں سے کسی گروہ کی مجال نہ ہوتی کہ وہ بھرے جلسے سے اٹھ کر چلے جاتے۔ بخاری صاحب کے پاس تقریر کے کئی رنگ تھے اور حاضرین کی پسند کو بھی خوب پہچانتے تھے۔ اقبال و غالب کے شعروں سے لے کر ہیر وارث شاہ تک شاہ صاحب کے وہ ہتھیار تھے جو حاضرین کے قدم پکڑ لیتے تھے اور وہ کسی ایسی جلسہ گاہ سے باہر نکل نہیں سکتے تھے۔
جلسہ خراب کرنے کے لیے مجلس احرار کے کسی مخالف نے جلسہ گاہ میں بھینس چھوڑ دی جو اتنے سارے لوگ اور لاؤڈ اسپیکر پر تقریر کے شور کی وجہ سے گھبرا کر ادھر ادھر بھاگنے لگی لیکن شاہ صاحب کے اس جلسے میں بھینس شناس بھی تھے جنہوں نے بھینس کو ہانک کر باہر نکال دیا اور عطاء اللہ شاہ بخاری کا جلسہ تھوڑی گڑ بڑ کے بعد پھر سے جم گیا اور شاہ صاحب کی تقریر نے کوئی نیا رنگ باندھ دیا۔ آج کے لوگوں نے بخاری صاحب کی تقریر نہیں سنی وہ اپنی خوبصورت تقریر میں معجزے دکھاتے تھے۔ قدرت نے شاہ صاحب کو آواز بھیبلا کی دی تھی اور تقریر کے تمام گر شاہ صاحب کو ازبر تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کی تقریر سننے پہنچ جاتے تھے۔
میں ٹی وی پر عمران خان کا جلسہ دیکھتا سنتا رہا اور مال روڈ کا حال بد حال ہوتا دیکھتا رہا۔ یہ جدید دور کا ایک جلسہ تھا آراستہ پیراستہ خواتین جینز میں نوجوان اور جلسہ گاہ کی اسٹیج پر عمران خان۔ ایسے جلسے کو ناکام کون کہہ سکتا ہے سوائے ہمارے جیسے پرانے زمانے کے جلسہ بازوں کے جن کے جلسے حالات اور زمانے کی نذر ہو چکے ہیں۔ اب تو یہی جلسے ہیں ان میں سے کچھ تو کسی ہال میں بھی منعقد ہوتے ہیں اور ادب و آداب کے ساتھ حاضرین ایسا جلسہ سنتے ہیں۔ موچی دروازے میں جناب ملک غلام مصطفے کھر نے پختہ اسٹیج بنوا دی تھی جو میرا خیال ہے کہ آباد نہیں ہو سکی اور وہ جلسے ختم ہو گئے جن سے ایسے کوئی اسٹیج آباد ہوتی تھی۔