پانامہ لیکس

پانامہ لیکس، وزیر اعظم اور آرمی چیف۔۔اسداللہ غالب

یہ کالم ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہے، میں نے ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس پر وزیرر اعظم اور آرمی چیف کے مابین ملاقات کی خبر پڑھی ہے،سبھی نے ٹیوہ لگایا ہے کہ آرمی چیف نے وزیر اعظم کو پانامہ لیکس کا معاملہ حل کرنے کے لئے کہا ہے تاکہ ضرب عضب پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں ۔ دوسری طرف وزیرا عظم ہاؤس سے جاری ہونیو الی پریس ریلیز میں کہاگیا ہے کہ ملاقات میں اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ سیکورٹی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔بس ، اس سے زیادہ نہیں، تو پھر پانامہ کا ذکر کہاں سے آ گیا اور اعتزاز احسن نے کیسے کہہ دیا کہ ہم آپس میں بات چیت کے لئے وفود ترتیب دے رہے ہیں ، ہمیں کسی تھانیدار کی مدد کی ضرورت نہیں۔میں ان الفاظ کو نقل کرتے ہوئے بھی تھر تھر کانپ رہا ہوں ۔مگر اعتزاز احسن کی زبان میں لکنت نظر نہیں آئی۔
اصولی بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس صرف پاکستان کا اشو نہیں اور جتنا ہے بھی وہ ایک دن، ایک ماہ یا ایک سال میں حل ہونے والا نہیں ہے، لیاقت علی خاں لوگوں کے سامنے شہید ہوئے، محترمہ بے نظیر بھٹو بھی عوام کی آنکھوں کے سامنے شہید ہوئیں، قائد اعظم کاملک لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ٹوٹ گیا، ایبٹ آباد میں امریکی فوجی اترے، اسامہ بن لادن کوشہید کر کے اس کی لاش بھی لے گئے،اوجڑی کیمپ اجڑ گیا، دن دیہاڑے پھٹ گیا، جنرل ضیا الحق کا طیارہ امریکی سفیرسمیت خاکستر ہو گیا، ان معاملات کا سراغ آج تک نہیں لگا، الطاف حسین کے گھر سے خود اسکاٹ لینڈٖ یارڈ نے نقد رقم بر آمد کی مگر کیا کاروائی ہوئی، ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کو کئی مہینے گزر گئے مگر ایک پائی بھی باز یاب نہیں ہوئی،ا یان علی ڈنکے کی چوٹ ڈالر اسمگل کرنے کی کوشش میں پکڑی گئی تو سوائے اس کے کیا کاروائی ہوئی کہ اس کے تفتیشی افسر کو قتل کر دیاگیا، لیاقت علی خان کے قاتل کو بھی قتل کر دیا گیا تھا، محترمہ کے باڈی گارڈ کو بھی قتل کر دی گیا تھا۔
اس مایوس کن صورت حال کے باوجود پانامہ کی تحقیقات ہونی چاہئے مگر یہ کیسے کہ صرف وزیرا عظم کے خلاف ، اگرچہ وہ خود کہتے ہیں کہ مجھ سے آغاز کر لو، اگلی بات کوئی نہیں مانتا کہ باقی چار سو لوگوں کو بھی پھندے میں لایا جائے۔قرضے خوروں کے پیٹ بھی چاک کئے جائیں۔
آرمی چیف کو ملکی صورت حال پر ضرور تشویش لاحق ہو گی اور ہونی بھی چاہئے، وہ آئینی طور پر ملکی سیکورٹی کے ذمے دار ہیں اور اگر ملک میں انتشار برپا ہے تو وہ اپنا فریضہ انجام دینے سے قاصر رہیں گے۔مگر کیا انہوں نے واقعی وزیرا عظم سے اس معاملے کا ذکر کیا ہے۔ اس کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی۔آج ہی کے اخبارات میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر کا خط شائع ہوا ہے کہ میڈیا بغیر تصدیق کے خبریں شائع نہ کرے، میں نے ان کی ہدائت کے مطابق انہیں ایک پیغام بھیجا ہے مگر کوئی جواب نہیں ملا، آئی ا یس پی آر کے تین چار افسرو ں کو بھی یہ پیغام بھیجا مگر جواب ندارد، ڈپٹی پی آئی او نے صرف اس حد تک تصدیق کی کہ ملاقات میں بہتر سیکورٹی صورت حال پر اطمینان کااظہار کیا گیاہے، ان کا شکریہ اور باقی اصحاب سے توقع رکھتا ہوں کہ جب ہر طرف چہ میگوئیاں جاری ہوں تو وہ اپنا موقف ضرور دیں ، یہ ان کا فرض منصبی ہے۔ کسی پر احسان نہیں۔وزیراعظم ہاؤس کی جس ملاقات پر چہ میگوئیاں ہوئیں، ان پر بھی بر وقت کسی نے روک ٹوک نہیں کی، جبکہ میں نے دیکھا کہ ادھر ٹی وی پر علیم خان کا نام آیا ،ا دھر وہ اپنا موقف دینے کے لئے چینلز پر آگئے، آج کی دنیا میں خبر وہ نہیں جو صرف اخبار میں چھپے، یہ ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر بھی آ سکتی ہے ا ور چینلز کے ذریعے بھی پھیلتی ہے۔
یہ کوئی معمولی ڈھمکیری نہیں ہے کہ آرمی چیف ملک کے وزیر اعظم سے کہے کہ پانامہ کا معاملہ حل کیا جائے۔ نواز شریف کے ساتھ پہلے بھی ایک بار یہ ہوا کہ جنرل کاکڑ نے انہیں صدر اسحق سے معاملات طے کرنے کے لئے کہا،ا س پر وزیر اعظم نے ڈکٹیشن قبول نہیں کروں گا والی مشہور زمانہ تقریر کی۔ڈکٹیشن نے دباؤ بڑھایا تو نواز شریف نے جوابی ڈکٹیشن دی کہ وہ جائیں گے تو صدر بھی جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
عمران خان اور ڈاکٹر قادری نے دھرنا دیا تو انہوں نے کمپنی کی مشہوری کے لئے امپائر کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا اور ان کی ملاقات آرمی چیف سے ہو بھی گئی، وہ تو شکر ہے کہ فوج نے اپنا دامن بچا لیا۔
دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن کے نتیجے میں آرمی چیف کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہواا ور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ راحیل شریف قدم بڑھاؤ ، ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر راحیل شریف آرمی چیف کے طور پر اپنے فرائض سے بخوبی آگاہ تھے، انہوں نے قدم تو بڑھائے مگر دہشت گردوں کے خلاف ا ور ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے خلاف۔ کراچی میں امن قائم کر دکھایا اور فاٹا کے مہاجرین کی واپسی کی راہ ہموار کر دی۔یہ سب ا یسے کارنامے ہیں جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے۔
وزیر اعظم اپنی جگہ پر متحرک اور سرگرم دکھائی دیئے۔ملک میں بجلی نہیں تھی،ا سکے لئے درجنوں نئے منصوبے بنے، سڑکوں، شاہراہوں ا ور موٹرویز کا جال بچھانے کی منصوبہ بندی ہوئی۔ اورنج ٹرین کا زمانہ قریب آیا،فوج کو ضرب عضب کے لئے عوامی ا ونر شپ اور حمائت مہیا کی۔ ملک کے ارد گرد تنازعات میں پاکستان کے کردار کو متعین کرنے میں کردار ادا کیا اور آرمی چیف کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لیا۔
پاکستان میں جمہوریت ابھی مستحکم نہیں ہوئی، دنیا بھر میں مستحکم جمہوریت بھی فوج کے اعتماد کے ساتھ کام کرتی ہے، امریکی صدر پینٹگان اور سی آئی اے سے مشاورت قبول کرتا ہے۔ اور تو اور اب بھارت میں بھی فوج کے سربراہ بولنے لگے ہیں۔یہ ملک تو سوا ارب آبادی والا ملک ہے اور ایک لمحے کے لئے بھی مارشل لا کے زیر سایہ نہیں رہا۔
پاکستان کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ صرف حکومت اور فوج ہی نہیں ، حکومت ا ور سول بیورو کریسی، حکومت اور میڈیا ، حکومت ا ور سول سوسائٹی، حکومت اور عدلیہ مل جل کر کام کریں،غرضیکہ ایک وسیع تر اتحاد اور اشتراک عمل کا مظاہرہ ضروری ہے۔