وکی لیکس کے بعد اب پانامہ لیکس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے خصوصاً پاکستان کی سیاست میں ایک بار بھی الزام تراشی اور د ھمکیوں کی سیاست نے ایک با پھر سر اٹھالیا۔ اپوزیشن پارٹیز ایک بار پھر اپنی تمام تر توانائیاں حکومت پر تنقید کرنے پر صرف کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی پر الزام لگانا کوئی مشکل عمل نہیں۔ خصوصاًآج کے دور میں جب میڈیا آزاد ہے۔ انٹرنیٹ، ای میل، سوشل میڈیا اور Whatsapp کی سہولت نے معلومات کی ترسیل کا کام آسان کردیا ہے۔ ایک بٹن دبانے سے ایک خبر پوری دنیا میں پھیلائی جاسکتی ہے۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر کوئی انسان ، تنظیم یا ملک کسی دوسرے کے بارے میں کوئی غلط بات پھیلانا چاہیے تو کوئی مشکل کام نہیں۔ یہ کاروائی جتنی آسان ہے اس کے اثرات اور نتائج اتنے ہی دوررس اور وسیع ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ اس معلومات کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہا۔ خاص کر جب کسی ا ہم شخصیت کے بارے میں کچھ غلط بات یا اچھی بات نشر کی جاتی ہے تو لوگ اس میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اور یقین بھی کر لیتے ہیں۔یعنی کسی بھی شخصیت یا قوم کے بارے میں رائے قائم کرنے میں موجود میڈیا اور انٹرنیٹ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ موجودہ حکومت کے ساتھ ہے، پانا مہ لیکس نے شریف فیملی کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر سیاسی جماعتوں نے آمین کہتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا حالانکہ اس رپورٹ میں وزیراعظم کانام کہیں بھی نہیں حقیقت میں پاکستان میں بہت سی اندرونی و بیرونی قوتیں برسر پیکار ہیں جو پاکستان کو جمہوری طور پر مضبوط ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔ ان کے مفاد میں نہیں کہ پاکستان معاشی طور پر پھلے پھولے اور ایک مضبوط قوم بن کر سامنے آئے ۔ اسی لیے حکومت کا جب کو ئی کمزور پہلو نظر آتا ہے تو بات صرف تنقیدتک نہیں رہتی، سیاست کے نئے طریقے
شروع ہوجاتے ہیں، دھرنے کی سیاست اور اپنی بات پر ڈھٹائی سے قائم رہنا پاکستان کے لیے انتہائی
خطر ناک ثابت ہوتاہے ۔
کوئی ایک سیاست دان ،تجزکار، ماہرمعاشیات بتا دے کہ عمران خان کے دھرنے کی سیاست سے ملک کو کسی بھی لحاظ سے فائدہ پہنچا ہو۔ حکومت بھی و ہی ہے، اپوزیشن پارٹیاں بھی وہی ہیں نقصان صرف ملک کا ہے۔ اس کے امیج کے بارے میں منفی باتیں پھیلنے کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی طور پر ملک کی ساکھ کو نا قابل تلافی حد تک نقصان پہنچا ہے کیونکہ دھرنے کی سیاست میں تعمیری پہلو نظرنہیں آتا ۔
اگر ہم پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کی بات کریں تو کئی ممالک کے سربراہان کے نام بھی پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ ساری کارستانی امریکہ کی ہے جس میں خاص طور پر روس کے صدر پیوٹن کو نقصان پہنچا نا مقصد ہے۔ یہی بات پیوٹن نے خود بھی کہ ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ موجودہ دور پرانے وقتوں سے بہت مختلف ہے پرانے وقتوں میں جب طا قتور ملک دوسرے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا تو اس پر حملہ کرتا تھا۔ جو ملک فوجی قوت میں آگے ہوتا وہ کمزورممالک پر قابض آجاتا اور اس پر حکمرانی کرتا۔ برطانوی سامراج نے بر صغیر کے علاوہ اور بہت سی colonies پر عرصہ دراز تک راج کیا۔ لیکن اب دوسرے ملکوں پر راج کرنے کا طریقہ ذرا مختلف اور advance ہے اب ممالکپر معاشی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں جسے economic sanctionsکہتے ہیں۔ یہ ایک بہت سی مہذب اور شائستہ طریقہ ہے۔ کسی شخصیت یا ادارہ کو اخلاقی لحاظ سے نقصان پہنچانا مقصود ہو تو ٹیکنالوجی نے یہ کام انہتائی آسان کر دیا ہے۔ ایک خبر پھیلائی اور سارہ کام خوِد بخود ہو جاتا ہے۔ مہذب قوموں میں جہاں اس بات کا شعور ہوتا ہے کہ غلط بات پر احتجاج کر نا ہے، وہاں ان میں حقائق کو چانچنے کی بھی صلاحیت ہوتی ہے۔
Panama Leaksکے حوالے سے Icelandکے صدر کی مثال دی جاتی ہے کہ وہ مستعفی ہوگیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب کسی کی حقیقت آشکار ہوتی ہے تہ وہ خود بخود منظر سے ہٹ جاتا ہے لیکن جو سچا انسان ہو وہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیتا ہے۔ قانونی طور پر بھی جب تک جرم ثابت نہ ہو ملزم کو مجرم نہیں کہا جاتا ۔ عدالت حقائق اور ثبوتوں کی بنا پر فیصلہ کر تی ہے اور ملزم سے مجرم ثابت کرنے کے لیے حقائق اور ثبوت درکار
ہوتے ہیں۔ اس ضمن اگر ثبوت اور حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں تو وزیراعظم احتساب کے لیے تیار ہیں پھر اعتراض کیوں۔
جہاں تک غیر ملکی آڈٹ کا سوال ہے تویہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اپنے اداروں پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ تنقید کرنے والے ان اداروں کو عرصہ دارز تک چلاتے رہے ہیں۔ ان کو بھی چاہیے تھا کہ ان اداروں کو اس لیول تک لے کر آتے کہ ہر شہری ان پر اعتماد کر سکتا۔ اگر عام آدمی کے لیے ان اداروں کے فیصلوں کو مان لیا جاتا ہے تو خاص لوگوں کے لیے کیوں نہیں۔ اس ملک میں ہر ملزم کو غیر ملکی عدالت میں پیش ہو نا چاہیے کیونکہ ہمارے ادارے انصاف کے قابل نہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟؟؟
جہاں تک دوسرے ملکوں مین سرمایہ کاری کا سوال ہے تو اس ملک میں جس کو بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے بچوں کو باہر کے سکول ،کالج اور یونیورسٹیوں سے تعلیم دلواتا ہے ۔ جس کے پاس دولت ہے باہر کے ممالک میں سرمایہ کاری کرتا ہے کیونکہ ان کو پاکستان کے حالات پر یقین نہیں۔ یہاں ہر معاملے پر سیاست ہوتی ہے چاہے وہ خواتین کا حقوق کے بل ہو یا غیر ملکی سرمایہ کاری (CPEC) کا معاملہ ,دھرنے اور احتجاج کی سیاست ہوتی ہے۔ اس کا مقصد کرسی حاصل کرنا ہو یا دوسرے کو کرسی سے اتارنا ہو ویسے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر ہے جسیےoutsourcing کہا جاتا ہے۔ یہ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد120.88بلین ہے۔
یہ پاکستانی دوسرے ممالک میں محنت کرتے ہیں اور کما کر پیسہ پاکستان بجھواتے ہیں اس وقت پاکستان کے Forex reserves 20.5بلین ڈالر ہیں۔ اب کس پاکستانی کے پاس دوسرے ملک میں کتنا پیسہ ہے اس کا حساب کون کرے گا۔ ان پاکستانیوں نے وہاں پیسہ کیسے کمایا؟ اس کا آڈٹ کون کریں گا۔
کسی سیاست دان کے پاس کتنی دولت ہے اس کا حساب کسی کے پاس نہیں۔ آخر میں ایک چھوٹا سا واقعہ لکھوں گی کہ ایک دفعہ جب مجھے دبئی جانے کا اتفاق ہوا تو بنگالی ٹیکسی ڈرائیو ر ٹیکسی چلاتے کمنٹری کر رہا تھا اچانک کہنے لگا ” میڈم آپ کو پتہ ہے یہ ٹاور بے نظیر کا ہے، بے نظیر دنیا سے چلا گیا لیکن ٹاور ادھر ہی کھڑا ہے”. میں سوچتی ہی اور مجھے آ ج تک اس بات کا جواب نہیں ملا کہ ہم دولت کیوں اکٹھی کرتے ہیں۔ کسی کے پاس کتنی
دولت ہے؟عمران خان پر جب شوکت خانم کے فنڈز کھانے کا الزام لگایا گیا توپارٹی کے کارکن چونک پڑے۔ اپنے بارے میں کچھ غلط سن کر ایسا ہی ہوتا ہے۔ دوسروں کو غلط کہنے کا جواب کون دے گا؟ دوسروں کا احتساب کرنے والوں کا احتساب کون کرے گا۔؟؟؟