ایسی بد ہضمی ، ایسی بد ہضمی کہ اس کا کوئی علاج بھی نہیں، پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی، اب کسی بات پہ نہیں آتی۔لیکس پر لیلس، اب ان میں کوئی چاشنی باقی ہی نہیں رہی۔نہ ان پر ہنسی آتی ہے، نہ ا ن پہ روناآتا ہے۔
تحریک انصاف کے جلسوں میں خواتین کے ساتھ بد تمیزی کا بھی ریکارڈ ٹوٹ گیا، اس سے پہلے جو بدتمیزی ہوتی رہی، اس کی سزا کسی کہ نہ ملی ، تو متوالوں پر جیسے جنون طاری ہو گیا۔یہ ہے وہ تحریک انصاف جو ملک بھر کے صحافیوں کو فون پہ فون کر رہی ہے کہ اس کے زیر حکومت صوبے کی سیر کو چلو، تبدیلی کو آنکھوں سے دیکھو، اور ساتھ ہی چیف منسٹر سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہو جائے گا۔پتہ نہیں یہ دعوت کسی صحافی نے قبول کی یا نہیں کی اور اگر کوئی پشاور گیاہے تو اس نے آنکھوں سے جو کچھ دیکھا ہے،ا س کے بعد اس نے اپنی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے بند کر لیا ہو گا۔
جو پارٹی اپنے جلسے میں خواتین کی عفت اور عصمت کی حفاظت نہیں کر سکتی،ا س نے صوبہ کیا چلانا ہے اور پانامہ لیکس پرا سکے شور وغوغا پر کون کان دھرے گا۔
لیکس کی بد ہضمی کا عالم یہ ہے کہ دولت والوں کو کوئی ترکیب نظر نہیں آتی کہ وہ اپنی دولت کو کہاں چھپا کر رکھیں۔ایک زمانے میں کوئی صاحب نامی گرامی اور بہت بڑے اسمگلر تھے ، ان کے قبضے سے ٹنوں سونا برآمد ہوا، یہ ایوب خاں کا دور تھا، کسی جادو سے یہ سارا سونا پیتل بن گیا۔میرے ایک دوست انکم ٹیکس کے بہت بڑے افسر تھے، ایک دن پورے خاندان کے ساتھ قتل ہو گئے، کہانی یہ سامنے آئی کہ وہ اپنے باورچی پر ظلم کرتے تھے جس کی وجہ سے میاں بیوی، بچوں اور ایک نوعمر خادمہ کو قتل کر دیا گیا اور لاشوں کو آگ بھی لگا دی گئی۔ یہ کہانی کتنی سچی تھی اور کتنی جھوٹی مگر سارا دن تھانہ جیل روڈ لاہور کی پولیس نے ناکہ لگا کر مقتولین کے گھر سے سونا، ڈالرا ور دنیا کی ہر قسم کی کرنسی کے ڈھیر تھیلیوں میں ڈالے اور مال مقدمہ قرار دے کر قبضے میں لے لئے، یہ سارا مال کدھر گیا، ایک کسٹم افسر کأگھر سے کروڑوں کی کرنسی برآمد ہوئی، نیب نے اسے پکڑا اور کچھ عرصہ بعد پلی بارگین کے قانون کے تحت چند کروڑ سرکاری خزانے میں چلے گئے، نیب کے افسروں کی جیب میں کیا گیا، اس کااندازہ کسی کونہیں اور باقی کروڑ ہا کی رقم حلا ل قرار دے دی گئی، اب بلوچستان کے ایک سیکرٹری کے گھر سے کروڑوں کی کرنسی اور سونا برآمد کیا گیا اور اس کے بعد اس نوع کے چھاپوں کا سلسلہ ہی چل نکلا ہے۔شریف لوگ پریشان ہیں کہ وہ نہ تو آف شور اکاؤنٹس میں رقم رکھ سکتے ہیں، وہاں رکھیں تو ایک بے نام ملک پانامہ سے لیکس سامنے آ جاتی ہیں اوراس پر شورو غوغا بلند ہو جاتا ہے۔گھر کی تجوری میں رکھیں تو چھاپہ!!
کبھی کسی نے سوچا کہ آف شور اکاؤنٹ کیا ہوتا ہے، پاکستان کا قانون اس پر کیا حکم دیتا ہے، اگر نہیں دیتا تو پھر کونسا جرم سرزد ہو گیا اور اگر کوئی جرم ہوا تھا تو اب جن لوگوں کے نام آ رہے ہیںیا ان کے بیٹوں یا دوسرے اہل و عیال کے اکاؤنٹس طشت از بام ہو رہے ہیں تو وہ معصوم بننے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔
سنگا پور ایک چھوٹا ساجزیرہ تھا۔ آج دنیا کی ایک مضبوط تریں معیشت ہے۔اس ملک میں ربع صدی تک حکومت کرنے والے۔۔ لی کوان یو ۔۔نے ایک نسخہ آزمایا، ساری دنیا سے کہا کہ وہ جتنی مرضی دولت ان کے ملک میں لائیں اور جتنی مرضی دولت کما کر واپس چلے جائیں ،ا ن سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔اسوقت پانامہ لیکس والے صحافی کدھربے خبر سوتے رہے، نہ سنگا پور کی اپوزیشن نے کوئی مطالبہ کیا کہ ان کا وزیر اعظم اتنی بڑی کرپشن کی اجازت کیوں دے رہا ہے، نہ اسے کسی نے بد دیانت کہا ، وہ اس وقت بھی سنگاپور کا ہیرو تھا اور آج بھی ہے۔
عمران خان نے دھول بہت اڑائی، مگر لگتا یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی نہیں،خود اس کے ساتھی بھی اس پھندے میں آ رہے ہیں، تو عمران خاں کس برتے پر دھول اڑائے، پیپلز پارٹی اس کو ورغلا رہی ہے مگر ساتھ نبھانے کے لئے تیار نہیں، پنجابی میں اسے چیزا لینا کہا جاتا ہے۔
دنیا اپنے اپنے کام میں مصروف ہے اور ہم پانامہ پانامہ کھیل رہے ہیں۔وزیر اعظم نے اپوزیشن کے سارے مطالبات کو منظور کر لیا کہ چلئے خود ان کی ذات سے ا حتساب کا آغاز کر لیا جائے مگرا س کا اگلاحصہ کسی کو منظور نہیں کہ باقی کرپٹ لوگوں کا بھی ا حتساب ہو۔نہ جی نہ۔ اسکے لئے کوئی تیار نہیں، باقی سب فرشتے ا ور صرف وزی ار اعظم اور ان کے دو بیٹے مجرم۔ آخریہ کونسا اصول ہے ۔یہ کیسا انصاف ہے۔
وزیر اعظم ٹھیک کہتے ہیں کہ اپوزیشن کو اس ملک کی ترقی اور عوام کی خوش حالی کے منصوبے عزیز نہیں۔ یہ تو چھوٹی بات ہے، در اصل یہ گھناؤنی سازش ہے پاک چین اقتصادی کوریڈور کو ناکام بنانے کی ، یہ سازش بھارت میں تیار کی گئی، اسے پاکستان میں پھیلایا جا رہا ہے، عالمی طاقتیں بھی چین کو گوادر تک رسائی حاصل کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، اور یہی بیڑہ ہماری اپوزیشن نے اٹھا رکھا ہے۔
اور یہ سازش ہے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ناکام کر نے کی۔ ضرب عضب میں ہمارے بہادر فوجی افسروں اور جوانوں نے بیش قیمت قربانیاں دیں۔ دہشت گرد وں کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی اور ان کے سرپرستوں کے درو بام بھی لرز رہے ہیں، اس موقع پر ایک بے معنی ایکسر سائز میں الجھنے سے ہم اپنی منزل کھوٹی کر سکتے ہیں اور بارہ سالہ قربانیوں پر پانی پھیر سکتے ہیں۔
پانامہ لیکس اور کرپشن کا ایک ہی علاج باقی رہ گیا ہے کہ ہر پاکستانی کو ہتھکڑی لگا کر بنی گالہ کے دروازے سے باندھ دیا جائے اور خان اعظم کے سامنے جو بھی اپنی بے گناہی ثابت کر دے،اسے گھر جانے کی ا جازت دی جائے۔
لرپشن کا ایک علاج اسکاٹ لینڈ یارڈ جیسی مشہور زمانہ تفتشی ایجنسی سے بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ الطاف حسین کے گھر سے کرنسی کی برآمدگی پر کیسے مٹی ڈالی جاتی ہے، محترمہ بے نظیر ، اورآصف زرداری وغیرہ نے این آر او کے ذریعے اپنی کرپشن پر مٹی ڈالی۔ ہر چند سابق چیف جسٹس نے اسے وائڈ اب نیشو کہہ ڈالا مگر کسی کو سزا کیا ملی، بس شور ہی شور، مچا لو جتنا چاہے شور!
پانامہ لیکس
پانامہ لیکس کو بد ہضمی لاحق۔۔۔اسداللہ غالب