پانامہ لیکس

پاناما گیٹ بیماری کا علاج … ڈاکٹراکرام الحق

بیس جون 2016ء کو پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے لیے ٹرمز آف ریفرنس طے کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا، لیکن چونکہ فریقین اپنے اپنے مورچوں میں دھنسے ہوئے تھے، لہٰذا ان کے درمیان ڈیڈلاک ختم نہ ہوا۔ دوسری طرف پاکستانی عوام پر یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ یہ کھلاڑی اصل مسئلے سے توجہ ہٹا کر دراصل ٹیکس چوروں کو قانون کی گرفت سے بچار ہے ہیں۔ اُنہیں یقین ہوچلا ہے کہ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت بھی ”پاناما بیماری‘‘ سے محفوظ نہیں ہے۔ ان جماعتوں کی اپنی صفوں میں ٹیکس چور موجود ہیں اور اُنہیں اپنے رویے پر مطلق ندامت نہیں ہے، چنانچہ ایسے مں کوئی بھی سرجری نہیں چاہے گا۔ سب میٹھی گولیوں سے دل بہلاتے اور وقت گزارتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی جماعت ان کالی بھیڑوںکے خلاف ایکشن نہیں لے گی کیونکہ وہ ان کا مالیاتی بازو ہیں، نیز ان کے پاس ہر جماعت میں اعلیٰ عہدے ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز وضع کرنے کے لیے بے مقصد مذاکرات کا چکر چلا کر وقت ضائع کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ سید ھا سادا نیب کا کیس تھا۔ تاہم نیب خود بھی ملکی دولت لوٹنے والے بدعنوان سیاست دانوں سے اغماض برت رہی ہے۔ ٹیکس چوروں کا بھاری رقوم بیرونی ممالک منتقل کرنا اور چھپانا کھلا راز ہے، لیکن عوام حیرانی سے دیکھتے ہیں کہ آخر آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ بھی ایکشن کیوں نہیں لے رہی؟
ٹی اوآرز کے لیے ہونے والی حالیہ میٹنگ کے لیے متحدہ اپوزیشن نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ تحقیقات کے لیے سنجیدہ نہیں۔ فی الحال اپوزیشن ٹی او آرز کے لیے اپنے چھ مطالبا ت سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں کہ تحقیقات کا آغاز وزیر ِاعظم اور ان کے اہل ِ خانہ سے ہو۔ شاہ محمود قریشی، صاحبزادہ طارق اﷲ اورشیخ رشید کے ہمرا ہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا۔۔۔”حسین نوا ز نے خود ہی انکشاف کیا تھا کہ شریف خاندان لندن کے مے فیئر کے علاقے میں چار فلیٹس رکھتا ہے۔ ان فلیٹس کی مالیت اربوں روپے ہے، چنانچہ جن کا بھی نام پاناما لیکس میں آیا ہے، اُن سے تحقیقات ہونی چاہئیں‘‘۔ اتحاد میں شامل نو میں سے پانچ پارٹیوں کے نمائندے اس پریس کانفرنس میں موجود تھے جبکہ وہاں موجود نہ ہونے والوں میں ایم کیو ایم اور اے این پی اہم پارٹیاں تھیں۔
اپوزیشن کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے وزیر ِ ریلوے، خواجہ سعد رفیق نے الزام لگایا کہ ” پاناما پیپرزکی آڑمیں حکومت پر بے بنیاد الزامات لگا کر اس کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے ۔‘‘اُن کا کہنا تھا ۔۔۔”اپوزیشن کے پندرہ سوالات ٹرمز آف ریفرنس کے زمرے میں نہیں آتے، جبکہ حکومت ٹی او آرز کی تیاری کے لیے 1956ء کے قانون میں ترمیم کے لیے تیار ہے ۔‘‘سعد رفیق صاحب نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن نے من مانی کرتے ہوئے وزیر ِاعظم کا نام بلاجواز ٹی او آرز میں شامل کردیا، نیز جمہوریت میں کوئی بھی کسی پر حکم نہیں چلا سکتا۔ وزیر ِقانون ، زاہد حامدکا موقف تھا کہ جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کے تابع کام کرتا ہے، اس لیے پوچھے جانے والے سوالات کا تعین فاضل عدالت ہی کرے گی۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ پاناما لیکس پر حکومت کا موقف بالکل واضح ہے کہ ہر قدم آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اٹھایا جائے گا۔
اس سے قبل چھ نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پہلا پوائنٹ یہ ہے کہ سمندر پار کمپنی قائم کرنا ایک مالیاتی جرم ہے اور یہ کہ لُوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے خصوصی قانون سازی کی ضرورت ہو گی۔ دوسرایہ کہ اگر کسی شخص کانام پاناما پیپرزمیں آیا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ اُس نے رقم کس طرح بیرون ِ ملک منتقل کی۔ تیسرا یہ کہ اگر وہ واقعی لوٹی ہوئی رقم وطن واپس لانے کے لیے تیار ہیں تو وہ جن کا نام بھی پاناما پیپرز میں آیا ہے وہ اپنی جائیداد کے حوالے سے پاور آف اٹارنی اور حلف دے دیں۔ چوتھا یہ کہ اگر کسی کا نام پاناما لیکس میں ہے تو اُسے ثابت کرنا ہوگا کہ اُس نے وہ جائیداد قانونی ذرائع سے خریدی ہے۔ پانچواں یہ کہ اس کے لیے وسائل کہاں سے آئے ، اس کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ اعتزاز احسن صاحب نے دعویٰ کیا کہ حکومت پاناما لیکس کی تحقیقات سرے سے چاہتی ہی نہیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ اپوزیشن حکومت کے پیش کردہ چار میں سے تین ٹی او آرز پر متفق ہے۔ چھٹا پوائنٹ یہ ہے کہ جس کا نام بھی پاناما پیپرز میں آیا ہے ، اس کا احتساب ہو، لیکن احتساب کا آغاز وزیر ِاعظم اور ان کی فیملی سے ہو۔
اعتزاز احسن صاحب نے ایسی قانون سازی پر زور دیا جو ہر کسی سے برابری کی سطح پر احتساب کرے، اور اس کی نگاہ میں وزیر ِاعظم کو کوئی استثنیٰ حاصل نہ ہو۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ قوانین صرف مالیاتی جرائم تک ہی محدود ہونے چاہئیں، لیکن حکومت ایسی قانون سازی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اسے صرف ایسے قوانین ہی بھاتے ہیں جو اس کے مقاصد پورے کریں۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز تین اپریل 2016 ء کو منظر ِعام پر آئے ۔ ان کے چند دن بعد وزیرِاعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنے اہل ِ خانہ کو احتساب کے لیے پیش کر دیا۔ چوبیس اپریل کو اُنھوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے ایک خط بھی لکھا۔ اعتزاز احسن کے بقول اُنھوں نے تین مئی کو پندر ہ ٹی او آرز پیش کردیے جو سارے معاملے کا فرداً فرداً احاطہ کرتے تھے ۔ اُنھوں نے وزیر ِاعظم پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ تحقیقات اور قانون سازی کے عمل سے جان بوجھ کر پہلوتہی کررہے ہیں۔ فی الحال حکومت اپوزیشن کے پیش کردہ ٹی او آرز پر مثبت رد ِعمل ظاہر کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ اُنھوں نے خبردار کیا اگر حکومت نے اپنا طرز ِعمل تبدیل نہ کیا تو پی پی پی اور عمران خان عید کے بعد کنٹینرر پر اکٹھے کھڑے دکھائی دیں گے۔ اُن کا کہنا تھا ۔۔۔۔”حکومت کے پاس ابھی بھی ہمارے ٹی او آرز پر مثبت طرز ِعمل اختیار کرنے کا وقت ہے۔ یہ جمہوری تسلسل اور خود وزیر ِاعظم کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو احتساب کے لیے پیش کریں۔اگر اُنھوں نے کچھ نہیں کیا تو وہ اپنا نام کلیئر کرائیں۔‘‘سینیٹر اعتزاز احسن نے سمندر پار کمپنیوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کو اجاگر کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جن افراد پر الزام ہے اُنھوں نے یہ ثابت کرنا ہے کہ کیا ان کی کمائی گئی دولت کے ذرائع جائز ہیں؟ پاکستان تحریک ِ انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی حکومت پرکڑے لفظو ں میں تنقید کرتے ہوئے کہا: ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے حکومت نے اپوزیشن کے تمام نکات تسلیم کر لیے ہیں، صرف ایک پوائنٹ پر ڈیڈلاک باقی ہے ۔ قریشی صاحب کا کہنا تھا۔۔۔”اگر حکومت مثبت رویہ اختیار نہیں کرتی تو پھر مزید اجلاس بے سود ہوںگے ۔ ‘‘
فی الحال پاکستا ن میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ٹیکس چوری، ملک سے سرمائے کے فرار اور غیر ملکی آمدنی اور سرمائے کو چھپانے کے مسئلے پر رسہ کشی جاری ہے اورٹیکس چوروں اور کالا دھن رکھنے والوں اوربیرونی ممالک میں بھاری وسائل چھپانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دیتی، انڈیا نے ان مسائل کی روک تھام کے لیے 2015ء میں ایک قانون منظور کر لیا تھا اوراب وہ دنیا کے اُن چالیس ممالک کے گروہ، جس کی قیادت یورپی ممالک کے ہاتھ ہے، میں شامل ہے جوٹیکس چوری اور بدعنوانی کے سد ّباب کے لیے بنائے گئے ایک میکینزم کا حصہ ہیں۔ انڈیا کے علاوہ افغانستان، نائیجریا، میکسیکو اورمتحدہ عرب امارات بھی اس گروہ میں شامل ہیں۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بے معنی مذاکرات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے جامع اقدامات کرے اورجو افرادسمندر پار یا اندرون ِملک اپنے وسائل ظاہر نہ کریں، اُن سے جبری طور پر بھاری ٹیکس وصول کیا جائے ۔