فوٹو کہانی

ملک برکت علی کی تقریر……ادشاہی مسجد کی مرمت کی قرارداد

ؓٓبادشاہی مسجد کی مرمت کی قرارداد

میں حکومت کی اس قرارداد سے متفق ہوں اور حکومت کو اس شاندار اور قابل تعریف اقدام اٹھانے پر مبارکبادپیش کرتا ہوں ۔میرے خیال میں نہ صرف اس صوبے کی بلکہ انڈیاکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھی حکومت نے اس رضاکارانہ طریقے کا انتخاب کیا ہے ۔۔میں نے لفظ رضاکارانہ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔۔۔جو ایسی مسجد کی ازسر نو تعمیر اور تجدیدکے لیے فنڈاکٹھاکرنے کے لیے چنا گیا ہے جو ہمیں اس ملک کے مسلمانوں کی عظمت اور شان و شوکت کی یاد دلاتی ہے ۔ اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت نے اس معاملے میں مصلحت اور موزونیت کواپناتے ہوئے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ مسلمانوں پر اس بات کو اجاگر کیا جائے کہ وہ کس قدر صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔مجھے حیرانگی ہے کہ اپوزیشن ارکان اس معاملے کو سامنے رکھ کر کسی قسم کا تناؤپیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ شاید اپوزیشن میں موجود میرے دانا دوست مسلمانوں کی ذہنیت سے واقف نہیں ۔اپوزیشن جس غریب مسلمان کے ساتھ ہمدردی کی نمائش کر رہی ہے اس مسلمان کے نزدیک اس فنڈمیں حصہ ڈالنامذہبی استحقاق/فضیلت اور بہت نیکی کی بات ہو گی۔ یہ کہنا کہ ایسے لوگوں کو اس فنڈ میں اپنا عاجزانہ اور مختصر حصہ نہیں ڈالنا چاہئے جو دس روپے سے کم ٹیکس ادا کر رہے ہیں ، یہ بات ان مسلمانوں کے لئے بہت دکھ کاباعث بنے گی ۔ایسا بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کو تمام رقم قومی خزانے سے دینی چاہیے تھی ۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ اپوزیشن کے ایک لیڈر نے اس قرارداد کے حوالے سے ایک ترمیم پیش کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ حکومت کو قومی خزانے سے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے اس فنڈ میں ڈالنے چاہئیں ۔آئیں ، ہم پہلے موجودو حقائق کی جانچ کرتے ہیں ۔میرے لئے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ اس طریقے کو اپناتے ہوئے حکومت کو کن کن مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا۔ایسا کرنے کا مطلب اپنے آپ کوتنقیدی حملے کے لئے بالکل کھلا چھوڑنے کے مترادف ہو گا۔ایساکرنے کا مطلب ہو گا کہ ہر کوئی حکومت پر با آسانی تنقید کرسکے۔ حکومت کے خلاف یہ کہا جائے گا کہ موجودہ مسلمان حکومت مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے یہ اقدام اٹھا رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔مجھے خوشی ہے کہ حکومت ایسے فنڈ میں کسی طرح کی کوئی مدد نہیں کر رہی جوفنڈ بلاشرکت غیرمسلمان مسجد پر خرچ کرنے کے لیے ہے ۔میں دوبارہ یہ بات یاد دلا دو ں کہ حکومت کے پاس فنڈ محدود ہیں ۔ حکومت اپنا بجٹ پہلے ہی بنا چکی ہے اور اب یہ کام اس میں کیسے شامل ہو گا؟اس کے لئے رقم کہیں نہ کہیں سے تو آئے گی ۔اس کے لئے کسی طرح کا محصول/لگان لگانا پڑے گااور اگر یہ لگان غیر مسلم طبقوں پر لگایا گیاتو ا ن کے پاس حکومت سے ناراضگی کی ایک جائز وجہ ہو گی ۔ میں یہ نہیں جانتا کہ جب اس قرارداد پر یہ ترمیم پیش کی جائے گی کہ نا صرف مسلمان بلکہ ہندو اور سکھ زمینداربھی اس فنڈمیں حصہ ڈالیں گے تو تب اپوزیشن اس بات پر کسی بھی طرح کی ضمانت دینے کی پوزیشن میں ہو گی کہ کوئی بھی طبقہ اس پر کسی بھی طرح کا اعتراض نہیں کرے گا، اورنہ ہی کوئی ایسا لیڈر ہو گا ،جو اس معاملے پر مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ لگاسکتا ہے ،جو کسی اختلاف کے بغیر یہ بات کہہ سکے کہ محصول لگانے کی اس تجویز کاصوبے کے تمام مسلمان خیر مقدم کریں گے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری باتوں سے یہ اخذ کیا جائے کہ میں اس قرارداد کے منظور یا نا منظور ہونے کے حوالے سے ایک فریق کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں۔چونکہ میں نے اس قرارداد کے متن کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اس میں کسی بھی اصطلاح میں حکومت یا کسی اور کے ساتھ کسی بھی طرح کے معاہدے کی طرف اشارہ نہیں ملتا ۔ میرے دل میں اس جانب سے کوئی شک نہیں ہے اور مجھے یقین ہے کوئی بھی حکومت خواہ وہ انڈین حکومت ہو یا صوبائی ، ایسی اصلاحات کو زیر بحث لا کراس معاملے پر فریق بننے کی کوشش نہیں کرے گی جو نہ صر ف موجودہ صورت حال کے منافی ہوبلکہ محمڈن لاکی روح کو بھی مجروح کرتا ہو۔ لہذا میر ے خیال میں ’’دیہی لاہورکے ممبر‘‘ میرے قابل احترام دوست(میاں عبدالعزیز)کی پیش کردہ ترمیم غیر ضروری ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسجد کے انتظامی امور خالصتاً محمڈن لا کے مطابق ہونے چاہےءں اور اس میں حکومت کی قطعی یا غیر قطعی مداخلت با لکل نہیں ہونی چاہئے۔جہاں تک پیش کی گئی قرارداد کا تعلق ہے اُس میں اور بیان کی گئی ترمیم میں کسی بھی طرح کی کوئی مطابقت یا قربت نہیں ہے۔ اس وجہ سے میں اس ترمیم کی حمایت نہیں کر سکتا۔ یہ قرارداد کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ۔