فوٹو کہانی

ملک برکت علی کی تقریر… نینسٹ منسٹری کی پالیسی

نینسٹ منسٹری کی پالیسی
9 مارچ 1938 کو سال 1938-39کے بجٹ پر بحث کر تے ہوئے ملک برکت علی نے یونینسٹ منسٹری کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا :

سر میں اپنی تقریر کے آغاز میں ہی عزت مآب فنانس منسٹر /وزیر خزانہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اسمبلی میں اتنا ناقابل فہم بجٹ پیش کر کے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ ٹریژی بینچوں کے لیے کسی سرمایہ سے کم نہیں ۔ ہمارے قابل عزت فنانس منسٹرایک جانے مانے ماہر اقتصادیات ہیں اور میں بالکل حیران نہیں ہو ا کہ انہوں نے ایسا بجٹ پیش کیا ہے جو ظاہری طور پر /کاغذوں میں بالکل متوازن اور محتاط نظر آتا ہے ۔ میں نے کاغذوں میں پیش کرنے کا جملہ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ اگر آپ بجٹ میں پیش کی گئی چیزوں کا بغور جائزہ لیں تو بہت کم چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے لوگوں یا قوم کو فائدہ دیں ۔ حالانکہ یہ بات سچ ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا لیکن میری شکایت جناب فنانس منسٹر سے یہ ہے کہ موجودہ بجٹ کو دیکھتے ہوئے عوا م پر ٹیکسوں کا بے جا بوجھ کم کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے جا سکتے تھے ۔ جیسا کہ انہوں نے خود ظاہر کیا ہے کہ انہوں نے 1937-38 میں 2 لاکھ کا اضافی بجٹ پیش کیا ۔ در حقیقت اسی دور میں وہ 61 لاکھ روپے اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے اور یہ سب ان طاقتوں (بیوروکریسی ) کی وجہ سے ممکن ہوا جن پر ان کا اپنا کنٹرول بھی نہیں ہے۔جناب فنانس منسٹراس بات پر مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اگر وہ اس اسمبلی میں آرام سے آنکھیں بند کرکے بھی بیٹھے رہتے، تب بھی یہ 61 لاکھ روپے خزانے میں اڑ کے چلے آتے۔ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ سال 1937-38 میں پراپرٹی ٹیکس ، جائیداد پر ٹیکس میں تخفیف کر کے اس مد میں 32 لاکھ روپے اکٹھے کئے گئے ہیں ۔ اگر قدرتی آفت نہ آتی جس کی وجہ سے یہ رعایت دی گئی ، تو عزت مآب جناب فنانس منسٹرکو مزید 32 لاکھ کا تحفہ مل جاتا ۔یہ32 لاکھ روپے اگر اضافی آمدن کے61 لاکھ میں شامل کئے جاتے تو اضافی آمدن93 لاکھ تک پہنچ جاتی۔ ان اعدادوشمار کی بنا پر میں ٹیکسوں میں کمی کا کیس پیش کرتا ہوں ۔ ہمارے عزت مآب فنانس منسٹرنے کہا ہے کہ55لاکھ روپے خاص ترقیاتی فنڈ میں ڈال دیئے گئے ہیں تاکہ دہی علاقوں میں ترقیاتی پروپیگینڈہ/ کام شروع کیا جا سکے ۔ فنانس منسٹر مجھ سے اتفاق کریں گے کہ وہ دیہاتی جن کے لیے اتنی لگن اور اضطراب دکھایا جا رہا ہے اگر ہمارے فنانس منسٹر اس اضافی آمدن کی بنا پر صوبے کے ان غریب کسانوں کو جن کے پاس ایک ایکڑ یا اس سے کم کا رقبہ ہے ان کو ٹیکس سے بری الزمہ قرار دینے کا اعلان کرتے تو دیہاتی علاقوں کے کسانوں کی طرف سے موجودہ یونینسٹ پارٹی کے اس اقدام کو خوش آمدید کہا جا تا ۔لیکن انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ ا ن دیہی کسانوں کواچھی سڑکیں اور صاف پانی دیں گے ۔ ان کو اچھی سڑکیں اور پانی ضرور دیں لیکن ایک بات ضرور یاد رکھیں کہ آپ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ آپ لوگوں کی عزت نفس اور ان کے وقار کو بھی بلند کریں ۔ آپ اس اسمبلی میں اس لیے موجود ہیں کہ آپ دیہی علاقوں کے لوگوں کی مادی اور اخلاقی حالات کو بھی بہتر بنائیں اور اسمبلی میں اس طرف موجود ہم لوگ آپ کی ان اس کوششوں میں آپ کے ساتھ ہیں کیونکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب تک آئین کی روشنی ، آپ کے قوانین کی خوبصورتی اور آپ کی اعلی طرز حکومت ان لوگوں کی صورت حال اور جذبات پر اثر انداز نہیں ہوتیں تو آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ کو ابھی حکو مت کرنے کی ذمہ داریوں کو سمجھنا باقی ہے اور یہ بھی کہ اس طرح آپ کسی بھی کاشتکار کو مطمیٗن کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

میں عزت مآب جناب فنانس منسٹرکویہ بتا نا چاہتا ہوں کہ نیا نظام گزشتہ سال ہی شروع ہوا ہے لیکن اس کے بعد بھی اگر کوئی تحصیل کا ادنی کانسٹیبل ، ایکسائز افسر یا چپڑاسی بھی دیہی علاقے کا دورہ کرتا ہے تو لوگ خوف سے کانپنے لگتے ہیں ۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے اس صورت حال کو بدلنے /بہتر کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھا ئے ہیں !آپ نے ایسے کیا اقدامات کئے ہیں جن سے ان دیہاتی لوگوں کو باور کروایا جا سکے کہ یہ عام کانسٹیبل ، ایکسائز ، ملازم اور تحصیل کے چپڑاسی ان کے آقا نہیں ہیں بلکہ ان کے ملازم ہیں؛اور یہ کہ دیہاتی کسان ان سے اوپر ہیں ؛اور یہ کہ اس نئے نظام کے تحت ان کا رول وہ نہیں ہے جو بیوروکریسی نے ان کو الاٹ کیا ہوا تھا ،یعنی غلاموں کا ،لکڑ ہارے کا یا ماشکی کا ۔ آپ نے ان کو یہ باور کرنے کے لیے کیا اقدام کیا کہ ایک غلام کے بجائے وہ آقا ہیں جن کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت منتخب یا تبدیل کر سکتے ہیں۔
میں یہاں پر چند ٹھوس معاملات کو زیر بحث لانا چاہوں گا ۔ میں عزت مآب وزرا سے یہ پوچھنا چاہوں گا انہوں نے جوڈیشنل اور ایگزیکٹو کے معاملات کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں ؟ جب اس اسمبلی کا گزشتہ اجلاس جو پچھلے سال ہواتھا تو ہماری جانب سے ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جس میں حکومت کو یہ سفارش کی گئی تھی کہ حکومت جوڈیشل کاموں کو ایگزیکٹو کاموں سے علیحدہ کرنے کے لیے اقدامات کرے ۔ اسمبلی نے روایتی پینترے استعما ل کئے جس کی وجہ سے اس قرارداد پر اسمبلی میں بحث نہیں کی جا سکی ۔یہاں پر بار کی قابل شخصیات پر مشتمل ایک کیبنٹ موجود ہے اور ان کا یہ خیال ہے کہ موجودہ عدلیہ کے انتظامی ڈھانچے میں سب سے زیادہ مایوس کن بات جوڈیشنل اور ایگزیکٹو معاملات کا ایک ہی انسا ن کے ہاتھ میں ہونا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ اس علیحدگی پر اٹھائے گئے سوالات پر بیوروکریسی نے کا فی مخالفت کی ۔1919 میں سرولیم ونسنٹ نے( جو اس وقت انڈین سٹیٹ کے ہوم ممبربھی تھے ) کہاکہ یہ صوبے پرمنحصر ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنے اپنے اقدامات کریں۔ 1921 جب دو حاکموں(Diarchy) کی عملداری تھی توکیا آپ کو معلوم ہے کہ انہوں نے کیا کیا؟ جناب شاہنواز جو ہماری ایک رکن اسمبلی کے شریک حیات بھی ہیں ،نے ایک قرارد اد سنائی جس میں یہ سفارش کی گئی کہ اس مسئلے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ چنانچہ ایک کمیٹی تشکیلی دی گئی اور اس کمیٹی نے اپنی سفارشات بھی پیش کیں جن میں سے چند ایک کو نافذ بھی کیا گیا ۔سول جوڈیشری کو مکمل طور پر ہائی کورٹ کے کنٹر ول میں دے دیا گیا لیکن کریمنل مجسٹریٹ کے نظام کو جوں کا توں چھوڑدیا گیا ۔ آپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس وقت بیوروکریسی قانون کے نفاذ اور امن وامان کی صورت حال کی ذمہ دار ہوتی تھی جو مخصوص لوگوں کے اختیار میں تھا ۔ لیکن آج قانون کے نفاذ کا معاملہ اب ان مخصوص لوگوں کے اختیار میں نہیں رہا ۔ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مجسٹریٹ کاکام جوڈیشل کا م نہیں ہے اور سول کا م ہی جوڈیشل کا م ہیں ۔ اس لیے مجسٹریٹ کے کاموں کو ایسے ہی چلنے دیا جائے؟

میں اس حوالے سے اپنے تمام قابل عزت ممبران کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں کہ سارا ملک پر زور طریقے سے اس ناقص اور قابل مذمت اعزازی مجسٹریٹ کی تعیناتی کے نظام کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جو کہ بیوروکریسی نے اپنے فائدے کے لیے اس ملک میں متعارف کرایا ۔ اس معاملے میں ہمارے ہمسائے یعنی سرحدی علاقوں والے ہم سے کہیں آگے چلے گئے ہیں جبکہ پنجاب میں اس معاملے پر کچھ بھی نہیں کیا گیا ۔پچھلے دنوں ہمارے چیف جسٹس نے ہمیں یہ بتایا کہ پولیس اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لیے جھوٹے اور من گھڑت شواہد کی بنا پر بنائے گئے مقدموں کو عدالتوں میں بھیج رہی ہے جنہیں’’عدالتی منتقلی‘‘ کہنا زیادہ موزوں ہو گا ۔ معصوم لوگوں سے تشدد کے ذریعے جھوٹے اعتراف نامے بھی پیش کئے جا رہے ہیں ۔ ان تمام معاملات کا آپ نے کس حد تک جائزہ لیا ہے ؟ آپ نے ایسا بالکل نہیں کہا، انتظامیہ کی بھگی ، یعنی چکر ناتھ کی گاڑی پہلے کی طرح رواں دواں ہے۔ اس میں تبدیلی صرف یہ ہوئی ہے کہ پہلے اس کو چلانے والے گورے بیوروکریٹس تھے جبکہ اب اس کی جگہ حقانی بیوروکریٹس نے لے لی ہے ۔ اور ان افسوس ناک حالات کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارا صوبہ انڈیا کا واحد صوبہ ہے جس میں ابھی تک بیوروکریسی کے قلعہ کو مسمار نہیں کیا گیا۔
(تالیاں )
میں عزت مآب وزیراعظم کی توجہ ان تلخ حقائق کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں ۔میں ان کی تشریف آوری کا شکر گزار ہوں جس کا انہوں نے مجھے حقدار سمجھا اور ان سے گزارش کرتا ہوں کہ ان مشوروں پر عمل کروایا جائے اورصوبے میں یہ باور کرایا جائے کہ موجودہ گورنمنٹ ایک مختلف حکومت ہے جو کہ پرانی بیوروکریٹک حکومت جیسی حکومت نہیں ہے۔ میں اب لوکل گورنمنٹ کے معاملے پر بحث کرنا چاہوں گا اس معاملے میں موجودہ حکومت کا ریکارڈ یقیناًقابل تعریف نہیں ہے ۔جب یہ حکومت اقتدارمیں آئی تو اس وقت 7 میونسپلٹی تھیں جن کو ختم کر دیا گیا ۔ جب میں نے سوال کیا تو مجھے اس معاملے کے انچارج منسٹر نے یہ جواب دیا کہ میونسپلٹی (جو کہ ایک چھوٹی میو نسپلٹی ہے ) کو 31 اگست 1932 کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ اس بات کو چھ سال گزر گئے لیکن اس چھوٹی میونسپل کمیٹی کے سرکاری امور اسی طرح چل رہے ہیں ۔گورنمنٹ کی پا لیسی کے لیے اس سے زیادہ ملامت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک چھوٹی میونسپل کمیٹی منسوخ ہونے کے باوجود اتنے عرصے تک سرکاری انتظامات رواں دواں ہیں اور اس علاقے کے منتخب نمائندے اپنے علاقے کے انتظامات کو چلانے کے بنیادی حق سے محروم ہیں ۔بریا(Buria) دوسری میونسپل کمیٹی تھی جس کو 1 2آگست 1933 کو ختم کیا گیا۔جب میں نے گورنمنٹ سے یہ پوچھا کہ وہ اس منسوخی کو کب تک جاری رکھیں گے تو مجھے یہ بتایا گیا کہ جیسے ہی لوکل کمیٹیوں کی معاشی صورت حال میں بہتری آتی ہے تو ان کمیٹیوں کو دوبارہ بحال کر دیا جائے گا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ جس قابل عزت منسٹر نے مجھے یہ جواب دیا انہوں نے خود بھی اس بات کو سمجھا یا نہیں ؛یا پھر انہوں نے محض وہ جواب پڑھ کر سنا دیا جو ان کے ملازموں نے انہیں دیا تھا ۔ میں جناب منسٹر کے سامنے یہ سوال رکھتا ہوں کہ کیا عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ساتھ ایسا سلوک رواں رکھنا جائز ہے ؟اوپر بیان کی گئی دومیونسپل کمیٹیوں کے علاوہ 5 میونسپل کمیٹیاں ایسی ہیں جن کو منسوخ /معطل کیا جا چکا ہے ۔گوہاناکو10 نومبر کو، 1933 کو سیالکوٹ کی میونسپل کمیٹی کو ، 19فروری 1936 باغبانپورہ، بھوگی وال کو 19مئی1936 ؛اور صوبے کی سب سے ممتاز میونسپل کمیٹی لاہور کو 27اکتوبر 1936 کو منسوخ کیا گیا۔ سب سے آخر میں مٹھن کو ٹ میونسپل کمیٹی کو 3مئی1937 کو معطل کیا گیا ۔ آپ نے لاہور میونسپل کمیٹی کے معاملے پر کیا کیا ہے ؟ اس کا انتظام ایک آئی ۔سی ۔ایس آفسر نے سنبھالا ہوا ہے ۔ یہ افسر کب تک اس کا انتظام چلائے گا( اس کے ارادوں سے تو نظر آتا ہے کہ وہ وہاں پر ہمیشہ رہے گا)؟اگر چھ سال کے مختصر عرصے میں کرور جیسی چھوٹی میونسپل کمیٹی کو دوبارہ بحال نہیں کیا گیا تو مجھے نہیں معلوم کہ منسٹری لاہور کی میونسپل کمیٹی کو دوبارہ بحال کروانے میں کتنا عرصہ لگائے گی۔
پچھلے دنوں کی بات ہے کہ وزارتی بنچوں میں سے ایک ممبر نے یہ قرارداد پیش کی کہ وہ کم از کم پانچ ڈسٹرکٹ میں تجرباتی طور پر پروبیشن کی پالیسی اپنائے ۔ ہمیں ریوینو منسٹر نے یہ بتایا ہے کہ ایکسائز ریوینو کی وجہ سے ایک کروڑ روپے اکٹھے ہوتے ہیں ۔ ہم اتنی بڑی قربانی کیسے دے سکتے ہیں ؟لگتاہے کہ ہمارے منسٹر کے سامنے لوگوں کی اخلاقی قدروں کی کوئی قدر نہیں۔ عزت مآب وزیراعظم نے ایک موقع پر مدراس حکومت کا ایک “کمیونیکے ” پڑھ کر سنایا۔ ہم نے وزیر اعظم کے اس اقدام سے یہ اخذ کیا کہ وزیراعظم ’’پروبیشن‘‘کے معاملے پر کوئی قدم اٹھائیں گے لیکن ان کی تقریر کا کیا نتیجہ نکلا ؟ انہوں نے یہ’ کمیونکے ‘اسمبلی کو یہ سمجھانے کے لیے پڑھا کہ مدارس حکومت نے تواس سکیم کا اجراء کیا ہے لیکن وہ اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ انہوں نے بس کچھ موقعوں پر کچھ رعایت دی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مدراس کے وزیراعظم کی اس اچھی پالیسی کا مذاق اڑا رہے ہوں۔

عزت مآب ڈاکٹر سر سندر سنگھ مجیتھیا : بالکل نہیں :
ملک برکت علی : تو پھر میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کمیونیکے پڑھنا اور یہ کہنا کہ وزیر اعظم اس معاملے پر اقدام اٹھایں گے، ان سب باتوں کا کیا مقصد تھا ۔ پھریہاں پر کم بخت پریس قوانین بھی ہیں ۔ آپ نے ’پریس لا ‘کی تنسیخ کے بارے میں کیا اقدام اٹھائے ہیں؟ آپ کیوں یہ اختیا ر اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں کہ اخبا ر والوں سے سکیورٹی وصول کی جائے اور پھران غریب پریس والوں کی سکیورٹی ضبط کر لی جائے اور سکیورٹی ضبط کرنے کے بعد پریس والوں کو ایک بے کار اور معمولی سا طریقہ اختیا ر کرنے کو کہا جائے کہ وہ سیکورٹی کی واپسی کے لیے ہائی کو رٹ میں درخواست دائر کریں۔ آپ نے متنازعہ پینل اور کریمنل لا کی ترمیم کے معاملے پر کیا کیا ؟ ان فتنہ انگیز کیسوں/ مقدموں اور کریمنل پر وسیجر کوڈ کے سیکشن 44 کا کیا بنا؟اور ان ہنگا می اختیارات کے بارے میں آپ نے کیا کیا جس کی ایما پر آپ لوگوں کو جیل بھیجتے ہیں اور ان پابندی لگاتے ہیں ؟اور ان باتوں کے باوجود آپ اپنی حکومت کو ایک مقبول حکومت کہتے ہیں ؛ ایک ایسی حکومت جو صوبے کے عوام کی نمائندگی کرنے والی اور منتخب حکومت ہے ۔ میں موجودہ حکومت کی تباہ کاریاں بہت دیر تک گنوا سکتا ہوں جس سے آپ کو معلوم ہو سکے کہ1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے دائرہ کار میں کیا گیا مقبول حکومت قائم کرنے کا تجربہ پنجاب کے صوبے کے لیے خاطر خواہ مثبت نتائج لانے میں کامیا ب نہیں ہوا جس کی بڑی وجہ ہماری موجودہ منسٹری ہے جس نے دیدہ دلیری سے بیوروکریسی کی برُی روایات کے ساتھ اپنی وفاداری اور پاسداری کرتے ہوئے اپنے بیوروکریٹ آقاؤں کے حکموں کو بجا لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ اس صوبے کو بیہودہ بیوروکریسی کے نظام کو توڑنے اور ختم کرنے کے لیے کرشمہ انگیز کوششیں کرنا ہوگی یہ نظام تکنیکی طور پر تو ختم ہوتا نظرنہیں آتا۔ حقیقت میںیہ ہماری ان تمام تر کوششوں پر ایک گہرے سائے کی طرح چھایا ہوا ہے جو کوششیں ہم اس صوبے کو ما ضی کی ان فرسودہ روایات سے بچانے کے لیے کر رہے ہیں جس نے اس کو اپنی گرفت میں لیا ہو ا ہے۔
وزیراعظم: اس کا مطلب ہے کہ جن اب بوتل سے باہر آگیا ہے ۔

ملک برکت علی: ہمیں بتایا گیا ہے کہ جن بوتل سے باہر آگیا ہے تو میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ جن کیو ں بوتل سے باہر آ یا ہے۔ ہمارے صوبے میں بہت رجعت پسندانہ قانون/رول ہے جسے ہر حال میں ختم ہو جانا چاہیے تا کہ صوبہ جس تکلیف دہ صو رت حال سے گزر رہا ہے اسے ختم کیا جا سکے اور اس کی تاریخ کے افسوس ناک اور غمگین /بد قسمت باب کو جتنی جلدی ہو سکے بند کیا جا سکے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیں بیوروکریسی کی نمائندگی کرنے والے حکومتی امراٗ،آاعزازی مجسٹریٹ ، ذیلدار اور کئی دوسرے افراد کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جو بیوروکریسی کی پیداوار ہیں ۔ لیکن ہمارے ان دوستوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بیوروکریسی کے برعکس وہ لوگ اسمبلی سے باہر بیٹھے ان کے مالک( عوام)کے سامنے اپنے اپنے کاموں کے جواب دہ ہیں اور ان کے حساب کا دن آج نہیں تو کل ضرور آئے گا ۔ اپنی ذمہ داریوں کو یا د رکھیں ۔اپنے وعدوں کو یاد رکھیں اور اس رجعت پسندی اور دباؤ والے دور کو یا د رکھیں جس سے یہ صوبہ گزر رہا ہے ۔اس سے پہلے کہ میں اپنی تقریر کا اختتام کروں میں شہید گنج کے مسئلے پر ایک حوالہ دینا چاہوں گا ۔ عز ت مآب وزیر اعظم نے گزشتہ دن اس اسمبلی میں کھڑے ہو کر بڑی خوشی سے یہ بیا ن دیا تھا کہ اس اسمبلی کے کچھ ممبران بددیانتی کی نیت سے شہید گنج کے مسئلے کو اپنے الیکشن پلیٹ فارم کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔میں جناب وزیر اعظم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس معاملے کے بارے میں ان کا اندازہ اور نقطہ نظر سراسرغلط ہے ۔ ان کو یہ سوچنا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ اس وقت ملک میں کا فی اشتعال انگیزی پائی جا رہی ہے اور اگر آپ ووٹ مانگنے جائیں اور آپ کا ووٹر آپ کے سامنے اس بات کی ضمانت مانگے کے آپ ان کو شہید گنج والے معاملے کی حمایت کرتے ہوئے ان کو شہید گنج مسجد دلوائیں گیا تو اگر وہ ممبر ان کو اس بات کی ضمانت دیتا ہے تو وہ یقیناًاپنے حق پر ہے اور بالکل ایماندار ہے۔میرے قابل عزت دوست ڈاکٹر محمد عالم جناب حئی(Haye) اور مسٹر شاہ نواز نے بالکل ایمانداری کا مظاہرہ کیا جب انہوں نے اپنے ووٹروں سے یہ کہا کہ وہ شہید گنج مسجد واپس لیں گے ۔ عزت مآب وزیراعظم نے کانگرس بنچوں سے اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں ثالثی کا کردار ادا کریں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ عزت مآب وزیر اعظم کے اس بیان کی کیا حقیقت ہے۔ میرا مطلب دائیں جا نب کے بنچوں کی تذلیل کرنا نہیں ہے ۔ لیکن میرا یہ فرض بنتا ہے کہ میں کھلے عام اور سخت الفاظ میں یہ کہوں کہ کوئی بھی مسلمان کانگرس کی ثالثی لینے پر رضامند نہیں ہو گا ۔میرے خیال سے عزت مآب وزیراعظم کے علاوہ اور کوئی بھی ثالث قابل قبول نہ ہو گا۔ میں اپنے قابل عزت دوست سے یہی کہوں گا کہ وہ اس جھوٹی تعریف کی وجہ سے گمراہ نہ ہوں ۔ایسی بات نہیں ہے کہ میں کسی کی بے عزتی کر رہا ہوں یا اس مسئلے میں کانگرس کے کردار سے انکا ر کر رہا ہوں ۔ جس طرح سب کا یہ فرض ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں اسی طرح کانگرس کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپناکردار ادا کرے ۔ اس مسئلے کو ہر حال میں حل ہونا چاہیے ۔ اس معاملے میں کسی بھی طرح کی تاخیر یا تعطل آپ کے لیے مشکلات کھڑی کر دے گا ۔ اس صورت حال کو ذمہ داری کے ساتھ نمٹتے ہوئے اس کو حل کریں۔ لیکن اگر آپ ایسا نہ کرسکے تو میں آپ کو یہ بات بتا دوں کہ آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا اور یہ مسئلہ آپ کو تبا ہی میں گھیرلے