پنجاب حکومت

سرکاری یونیورسٹیز میں اساتذہ کی کمی تشویشناک ہے: رجوانہ

فیصل آباد۔10 نومبر(ملت + اے پی پی) گورنر پنجاب و چانسلر جامعہ زرعیہ ملک محمد رفیق رجوانہ نے کہا ہے کہ صوبہ کے پرائیویٹ سیکٹر میں نئی جامعات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث سرکاری یونیورسٹیز میں اساتذہ کی کمی تشویشناک ہے اس لئے سرکاری یونیورسٹیوں کو عالمی معیار کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا ہم پلہ بنانے کیلئے بھر پور اقدامات کرنا ہوں گے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں ،سکڑتے زرعی رقبوں،کم ہوتے آبی وسائل کے باعث غذائی ضروریات پوری کرنا اہم چیلنج ہے نیز کپاس کی پیداوار میں اضافہ کیلئے بہترین بیج کی فراہمی بھی یقینی بنانا ہوگی علاوہ ازیں فیصل آباد میں لائلپور سائنس سٹی یا نالج پارک کے قیام کیلئے بھی تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ جمعرات کے روز جامعہ زرعیہ فیصل آباد کی سینٹ کے 43 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ بڑی جامعات میں پی ایچ ڈی پروفیسر ڈاکٹرز سمیت دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی کم ہوتی ہوئی تعداد ایک بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کیلئے فوری کاوشیں کرنا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ میں بڑھتی ہوئی نئی پرائیویٹ بغیر سرکاری جامعات کی پرکشش مراعات اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 3 درجن سے زائد ملکی و غیر ملکی یونیورسٹی کے قیام سے اکثر نوجوان و تجربہ کاراساتذہ بہتر پیکج کی وجہ سے وہاں جانے کو ترجیح دے رہے ہیں جس سے سرکاری یونیورسٹیز میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اپنا مؤثر کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے فیصل آباد میں لائلپور سائنس سٹی یا نالج پارک کے قیام کی تجویز کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے حکومتی سطح پر اس کی منظوری کیلئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لانے کا یقین دلایا۔ رفیق رجوانہ نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کے تمام شعبے زراعت کے گرد گھومتے ہیں اس لئے حکومت شعبہ زراعت کی ترقی کو اولین ترجیح دے رہی ہے جبکہ اس ضمن میں کاشتکاروں کیلئے بھی اربوں روپے کے پیکجز کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح کاشتکاروں میں شعور و آگاہی پیدا کرنے سمیت ان کی زرعی تعلیم و تربیت کیلئے بھی کسان پیکج کے تحت موبائل فون سروس کے ذریعے معلومات و رہنمائی کے فریضہ کی سر انجام دہی کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں ، سکڑتے ہوئے زرعی رقبوں اور کم ہوتے ہوئے آبی وسائل کے تناظر میں پیداوار کو بڑھتی ہوئی ملکی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے قابل بنانا سائنس دانوں، پالیسی ساز اداروں اور حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ کپاس ملک کیلئے زرمبادلہ کمانے کی اہم بنیاد ہے اس لئے کپاس کی پیداوار میں اضافہ کیلئے ہر قسم کی بیماریوں ، شدید موسمی حالات اور پانی کی کمی کے باوجود بھر پور قوت مدافعت و قوت مزاحمت کی حامل نئی ورائٹیز کیلئے بہترین بیج کی تیاری بھی یقینی بنانا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ نئے سیڈ ایکٹ کی منظوری سے یہ عمل آسان ہوجائے گا جس سے مستقبل میں کسانوں کیلئے اچھے اور معیاری بیج دستیاب ہوں گے جس سے کپاس سمیت دیگر زرعی اجناس کی بمپر کراپس حاصل ہوں گی اور زراعت کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی استحکام حاصل ہو گا۔ انہوں نے زرعی سائنسدانوں اور ماہرین زراعت کو زرعی تحقیق کے ضمن میں اپنے ہر ممکن تعاون کا بھی یقین دلایا۔ اس موقع پر خطبہ استقبالیہ کے دوران زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان نے یونیورسٹی کی تعلیمی ، تدریسی ، تحقیقی کامیابیوں پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت یونیورسٹی کے زرعی سائنسدان اور ماہرین اڑھائی ارب روپے سے زائد کے تحقیقی منصوبوں پر پیش رفت کر رہے ہیں اس طرح جامعہ زرعیہ کو سب سے زیادہ تحقیقی منصوبے شروع کرنے پر ملک کی واحد یونیورسٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی ماہرین نے شبانہ روز جدوجہد اور طویل تحقیق کے بعد کپاس کی چھوٹے قد ، بہتر پیداواری صلاحیت ،زیادہ قوت مدافعت اور کم دورانیہ کی نئی ورائٹی متعارف کروائی ہے جس کے ذریعے نہ صرف کم وقت میں کپاس کی زیادہ پیداوار حاصل ہوگی بلکہ ہاتھوں سے کپاس کی چنائی کی بجائے اس کی برداشت مشین کے ذریعے بھی کی جاسکے گی جس سے اس کی کوالٹی میں نمایاں بہتری آئے گی اور پاکستان اپنی کاٹن کی ضروریات پوری کرنے میں کسی حد تک خود کفیل ہوسکے گا۔ اس موقع پر انہوں نے بعض مسائل کی بھی نشاندہی کی جس پر گورنر پنجاب نے اپنے تمام ممکن تعاون کا یقین دلایا۔