پنجاب حکومت

پنجاب حکومت کا مال روڈ پر متحدہ اپوزیشن کو دھرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ

پنجاب حکومت کا مال روڈ پر متحدہ اپوزیشن کو دھرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ

لاہور: (ملت آن لائن) پنجاب حکومت نے مال روڈ پر دھرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ محکمہ داخلہ نے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کو مال روڑ پر احتجاجی مظاہرہ یا دھرنا کی اجازت نہ دینے کی سفارش کی ہے۔دھرنا یا احتجاجی مظاہرہ کسی نے زبردستی کرنا ہے تو ناصرباغ میں کر سکتے ہیں، انتشار کے بجائے آئینی راستہ اختیار کریں: ترجمان کی وارننگ،ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ دھرنا یا احتجاجی مظاہرہ کسی نے زبردستی کرنا ہے تو ناصرباغ میں کر سکتے ہیں، انتشار کی بجائے آئینی راستہ اختیار کریں یہ بہت بہتر ہے۔ ملک احمد خان نے مزید کہا کہ دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں سے بہت نقصان پہنچا، انصاف کے حصول کے لئے عدالتی راستہ اختیار کیا جائے، مال روڑ بند کر کے شہریوں کو تکلیف میں پہنچنا یہ کونسا طریقہ ہے۔

………………….

اس خبر کو بھی پڑھیے…زینب قتل کیس: پہلے واقعات پر سنجیدگی کیوں نہیں دکھائی؟: چیف جسٹس برہم

لاہور: (ملت آن لائن) لاہور ہائیکورٹ میں زینب قتل کیس میں آئی جی طلبی کے باوجود پیش نہ ہوئے۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا پہلے ہونیوالے واقعات پر سنجیدگی کیوں نہیں دکھائی؟۔ عدالت نے آئی جی پنجاب کو مکمل ریکارڈ کے ساتھ 17جنوری کو طلب کرلیا۔زینب سمیت قصور کی 6 بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا ایک ہی شخص ہے، جہاں زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ان علاقوں کے تمام مردوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کر رہے ہیں: پولیس رپورٹ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ اور جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل بینچ نے زینب قتل کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ڈی جی فرانزک نے عدالت کو بتایا کہ 200 افراڈ کا ڈی این اے آج مکمل کر لیں گے، ملزم بچ نہیں سکتا۔ سرکاری وکیل نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ جون 2015 میں قصور میں بچی سے زیادتی کا پہلا واقعہ ہوا، ملزم کی گرفتاری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پہلے آپ نے ملزم کو پکڑنے کے لیے اقدامات کیے ہوتے تو یہ واقعہ نہ ہوتا۔ سماعت کے دوران پولیس نے رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔ رپورٹ کے مطابق زینب سمیت قصور کی 6 بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا ایک ہی شخص ہے، جہاں زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ان علاقوں کے تمام مردوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کر رہے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ صرف ڈی این اے ٹیسٹ پر توجہ نہ رکھیں، انٹیلی جنس ذرائع کے باوجود مجرم گرفتار نہیں ہو رہے۔ عدالت نے آئی جی پنجاب اور جے آئی ٹی کے سربراہ کو 17 جنوری کو طلب کرلیا۔