پنجاب میں خواتین پر جنسی تشدد، 17 فیصد اضافہ
لاہور: (ملت آن لائن) پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2016ء میں صوبہ پنجاب کی خواتین کے خلاف تشدد میں پچھلے چار برسوں کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2016ء میں خواتین پر تشدد کے 7317 واقعات رپورٹ ہوئے۔ 2015ء میں یہ تعداد 6505 اور 2014ء میں 5967 تھی۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے اصل واقعات کی تعداد اس رپورٹ ہوئی تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر تشدد میں 12.4 فی صد جب کہ جنسی تشدد کے واقعات میں 17 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں حقوقِ نسواں کے تحفظ سے متعلق ملک میں مؤثر قانون سازی کی گئی ہے لیکن ان قوانین کے باوجود بھی خواتین کے خلاف تشدد کی واقعات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن اور قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبۂ صنفی علوم کی سربراہ ڈاکٹر فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بنائے گئے قوانین تو بہت اچھے اور جامع ہیں لیکن معاشرہ مجموعی طور پر فرسودہ ہے جس کی وجہ سے قوانین کے خاطر خواہ نتائج فی الوقت سامنے نہیں آ رہے۔
“جس معاشرے میں آپ نے ان قوانین کو نافذ کرنا ہے وہاں کا سماجی ڈھانچہ، نظریات اور جو عورت کو اپنی ملکیت تصور کرنے کی سوچ ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے۔ ان میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آ سکی کیونکہ آپ نے تعلیم کو عام کیا اور نہ ہی ان قوانین کی معلومات و آگاہی نچلی سطح تک پہنچائی اور یہی مسئلہ ہے۔” ڈاکٹر فرزانہ باری نے مزید کہا کہ ماضی کے مقابلے میں خواتین کی زیادہ تعداد اپنے حقوق سے آگاہی رکھتی ہے اور اپنے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھا رہی ہے۔ بہت سی کواتین اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی کوشش بھی کر رہی ہیں جو کہ اس پدرسری معاشرے میں قبول نہیں کیا جا رہا۔ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات شائد انہی خواتین کے ردِعمل میں بڑھ رہے ہیں۔ “کیونکہ خواتین اپنے حقوق چاہتی ہیں تو اس کا ایک ردعمل یہ ہو رہا ہے کہ سماج میں اس طرح کے ظلم عورتوں پر بڑھ رہے ہیں، کیونکہ مردوں سے یہ برداشت نہیں ہوتا وہ عورتوں کو اپنی مرضی سے جینے کا اختیار دینا نہیں چاہتے۔”
پنجاب حکومت
پنجاب میں خواتین پر جنسی تشدد، 17 فیصد اضافہ
