پنجاب حکومت

لاہور اورینج لائن میٹرو ٹرین پروجیکٹ ۔۔۔ نمایاں حقائق

* یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں ٹرانسپورٹ سسٹم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جدید ذرائع آمدورفت نہ صرف قومی ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ یہ عوام کے مزاج اور سماجی میل جول کی بھی صورت گری کرتے ہیں۔
* صوبائی دارالحکومت لاہور کی آبادی اس وقت ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے ۔ روز انہ لاکھوں افراد اپنے کام کاج کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں ۔تا ہم حصول تعلیم ‘ تلاش روزگار اور دیگر معاملات زندگی نبٹانے کے لئے ایک سے دوسری جگہ جانے والے لاکھوں افراد کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔
* دھواں چھوڑتی خستہ حال بسیں ‘ ان کے دروازوں سے لٹکتے بے بس مسافر ‘ شدید دھوپ اور گرمی یا سردی میں چھتوں پر سفر کرتے معصوم طلبہ اور محنت کش ‘ گھنٹوں بس یا ویگن کا انتظار کرنے کے باوجود ناکام ر ہنے والی خواتین و طالبات اور اسی طرح کے لا تعداد مناظر بے کسی ہماری زبوں حالی کے عکاس ہیں۔
* یہ بات لائق تحسین ہے کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے ویژن اور وزیر اعلی محمد شہبازشریف کی شبانہ روز کوششوں سے روڈ انفرا سٹرکچر کی تعمیر اور پبلک ٹرانسپورٹ کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔لاہور اور اسلام آباد /راولپنڈی کے بعد اب ملتان میں جدید میٹرو بس سسٹم کے منصوبے پر عمل درآمدعوام کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے سلسلے میں حکومت کے عملی اقدامات کے مظہر ہیں۔
* صوبہ پنجاب میں ’میٹرو کلچر ‘ متعار ف کروانا وزیر اعلٰی شہباز شریف کے سچے جذبوں کا آئینہ داراور اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کی شہری سہولتیں مہیا کرکے اسے ترقی یافتہ بنانے اور شہریوں کی عزت نفس بحال کر کے ان کے شخصی وقار میں اضافے کے لئے کوشاں ہیں۔
* میٹرو ٹرین کا نام تو ہم سب نے سن رکھا ہے ،وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہم اسے لاہور شہر میں رواں دواں دیکھیں گے اور ملازمین ‘ طالب علم ‘ خواتین اور بچے محفوظ اور باوقارذریعہ سفر اختیار کر کے بروقت اپنی منزل کو پہنچ سکیں گے اور اس بات پر فخر کریں گے کہ لاہور ترقی یافتہ شہروں کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔
* اب شہری بھیڑ بکریوں کی طرح نہ تو ویگنوں اور چنگ چی رکشوں میں سفر کرنے پر مجبور ہوں گے ‘ نہ ہی انہیں رکشہ ڈرائیورں اور ویگن کنڈکٹروں سے کرایہ طے کرنے کے لئے بحث و تکرار کرنا ہو گا اور نہ ہی عید اور دیگر تہوارں پر ٹرانسپورٹ کا کرایہ ان کی دسترس سے با ہر ہوگا بلکہ بین الاقوامی معیا ر کی ائر کنڈیشنڈ میٹرو ٹرین میں سفر کر کے وہ خود کو بجا طور پر معزز شہری محسوس کریں گے۔
* لاہور میں پاکستان کے پہلے میٹرو ٹرین منصوبے کے لئے دوست ملک عوامی جمہوریہ چین ایگزم بینک آف چائنہ کے ذریعے آسان شرائط پر1626ملین ڈالر قرضہ مہیاکررہا ہے ۔اس مقصد کے لئے وزارت خزانہ حکومت پاکستان اور ایگزم بینک کے درمیان معاہدے پر دستخط کر دئیے گئے ہیں۔
* اورنج لائن میٹرو ٹرین اہل لاہور کے لئے دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کا شاندارتحفہ ہے جو پبلک ٹرانسپورٹ کو نئی جہت عطا کرے گا‘یہ نہ صرف لاہور بلکہ پورے پاکستان کی ترقی کے لئے گیم چینجر ثابت ہو گا ۔یہ چین کی طرف سے پاکستان میں سو فیصد لاگت کے ساتھ مکمل کیا جانے والا جدید انفراسٹرکچر اور ماس ٹرانزٹ کا پہلا منصوبہ ہے جوشفاف طور پر ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی کوششوں کا کھلااعتراف ہے۔ اس بات کا کریڈٹ شہباز شریف کو جاتا ہے کہ انہوں نے جان لڑا کر لاہور اورنج لائن ٹرین منصوبے کے لئے چین کا تعاون حاصل کیا اور اس کی لاگت کا ایک ،ا یک پیسہ کم کروانے کیلئے انتھک جدو جہد کی ۔
* اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ ایک کھرب 65ارب روپے کی مجموعی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا ۔یہ منصوبہ لاہور کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے باقاعدہ ریسرچ وپلاننگ کے بعد ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ میٹروٹرین کار وٹ اس طر یقے سے وضع کیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ سفر کر سکیں۔
* ٹرین کا روٹ علی ٹاؤن رائے ونڈ روڈ سے شروع ہو کر براستہ ٹھوکر نیاز بیگ ملتان روڈ ‘ کینال ویو ‘ ہنجر وال ‘ وحدت روڈ، اعوان ٹاؤن‘سبزہ زار ‘ شاہ نورسٹوڈیو‘صلاح الدین روڈ‘بند روڈ ‘ سمن آباد ‘ گلشن راوی ‘ چوبرجی ‘ لیک روڈ ‘ جی پی او‘ لکشمی چوک میکلوڈ روڈ ‘ ریلوے سٹیشن ‘ سلطان پورہ ‘ یو ای ٹی ‘باغبان پورہ‘ شالا مار باغ‘پاکستان منٹ ‘ محمود بوٹی ‘ سلامت پورہ ‘ اسلام پارک اور ڈیرہ گجراں نزد قائد اعظم انٹر چینج رنگ روڈ تک ہو گا ۔
* یہ ٹریک شہر کے گنجان آباد اور مصروف کاروباری علاقوں سے گزرتا ہے ‘ شروع میں روزانہ اڑھائی لاکھ افراد استفادہ کریں گے۔ بعد ازاں یہ تعداد پانچ لاکھ افراد یومیہ تک بڑھ جائے گی ۔عام حالات میں اڑھائی گھنٹے میں طے ہونے والا یہ 27کلو میٹر فاصلہ اورنج ٹرین کے ذریعے صرف 45منٹ میں طے ہو گا ۔اس طرح یہ ضلع لاہور کے جنوبی ‘ وسطی اور مشرقی حصوں کے درمیان تیز رفتار سفر کی سہولت مہیا کرے گا ۔
* اس منصوبے کی ڈیزائنگ کے دوران اس بات کاخاص خیال رکھا گیا ہے کہ کم سے کم اراضی ایکوائر کرنا پڑے تاکہ کم سے کم لوگ متاثر ہوں۔ اس ٹرین کے ٹریک کا 25.4کلومیٹر حصہ زمین سے 12 میٹر بلندی پر تعمیر کیا جائے گا جبکہ 1.7کلومیٹر حصہ زیر زمین ہو گا ۔ اس میں 26سٹیشن ‘ ایک ڈپو اور ایک سٹیبلنگ یارڈ بھی تعمیر کیا جائے گا ۔ ٹرین کے 24سٹیشنزایلیویٹڈاور 2انڈ ر گراؤنڈ تعمیر کئے جائیں گے جبکہ یہ منصوبہ 27ماہ میں مکمل ہو گا۔
* میٹرو ٹرین کو پہلے پانچ سال تک چین کا عملہ آپریٹ کرے گا ‘بعد ازاں اس کو پاکستانی عملہ چلائے گا ۔کل 27ٹرینیں ہوں گی اور ہر ٹرین کی پانچ بوگیاں ہوں گی۔
* یہ ٹرین رائے ونڈ روڈ پر تعمیر ہونے والی نئی رہائشی سکیموں کے مکینوں ،ملتان روڈ ‘ سبزہ زار‘ علامہ اقبال ٹاؤن ‘ سمن آباد ‘ گلشن راوی ‘ چوبرجی ‘ لیک روڈ‘ میکلوڈ روڈ ‘ لکشمی چوک ‘ نکلسن روڈ‘ جی ٹی روڈاور ملحقہ علاقوں کے لاکھوں شہریوں کے لئے روزانہ شہر کے مصروف کاروباری علاقوں میں جانے اورواپس آنے اور شالا مار باغ ‘ محمو د بوٹی اور ڈیرہ گوجراں سے ہزاروں شہریوں کو لاہور ریلوے اسٹیشن اور دیگر علاقوں میں آنے جانے کی باعزت و آرام دہ سہولت مہیا کرے گی ۔
* میٹرو ٹرین برقی توانائی سے چلے گی ، اسطرح یہ سروس گاڑیوں کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی خطر ناک آلودگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی ۔ میٹرو ٹرین کو بجلی فراہمی کیلئے 12ارب روپے کی لاگت سے دو گرڈ سٹیشن بھی بنائے جائیں گے ۔ایک گرڈ سٹیشن شاہ نوراسٹوڈیو اور دوسرا انجینئرنگ یونیو رسٹی کے قریب بنایا جائے گا۔ ان گرڈ سٹیشنوں کوسبزہ زار‘ اقبال ٹاؤن ‘ سید پور‘ بند روڈ‘ شالامار ون اینڈ ٹو‘ فتح گڑھ اور شالامار گرڈ سٹیشن سے فیڈ کیا جائے گا۔
* وزیر اعلیٰ پنجاب نے اورنج لائن منصوبے کیلئے درکار اراضی کے حصول کے لئے اعلیٰ سطحی لینڈا یکوزیشن کمیٹی قائم کر دی ہے ۔ وزیر اعلیٰ کے مشیر خواجہ احمدحسان لینڈ ایکوزیشن کمیٹی کے کنونیئر جبکہ چیف سیکرٹری خضر حیات گوند ل وائس کنونیئر ہیں ۔یہ کمیٹی اورنج لائن منصوبے کیلئے اراضی کے حصول کے نظام کو شفاف بنا ئیگی اور اراضی مالکان کے تحفظات دور کر کے انہیں بہتر سے بہتر معاوضہ دلوائے گی تا کہ کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
* لاہور کی تاریخی عمارتیں ہماری عظمت کی پہچان ہیں‘ ان کی حفاظت ہمارے لئے باعث اعزاز ہے ۔صوبائی حکومت لاہور کے اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے لئے اپنے فرائض پوری ذمہ داری سے اد ا کر رہی ہے ۔ میٹرو ٹرین کے راستے کے اطراف میں واقع تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے لئے ماہرین آثار قدیمہ کی رہنمائی میں تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ بہترین تکنیکی مہارت بھی استعمال کی گئی ہے اور ان تاریخی عمارتوں کامکمل تحفظ ہر لحاظ سے یقینی بنا یا گیا ہے ۔
* بعض حلقوں کی طرف سے میٹرو ٹرین کے روٹ کے اطراف میں واقع تاریخی عمارتوں کے تعمیراتی حسن اور تحفظ کے حوالے سے ظاہر کئے جانے وا لے بے جاخدشات کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ۔ لکشمی بلڈنگ‘ جی پی او‘ سپریم کورٹ رجسٹری‘ ایوان شاہ چراغ ، موج دریا دربار اور مسجد کے ساتھ ساتھ سینٹ اینڈ ریوز چرچ کی تاریخی عمارتو ں کو بچانے کیلئے اس علاقے سے ٹرین کو زیر زمین گزار ا جائے گا جس سے یہاں کی تعمیراتی لاگت میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ٹرین کے ٹریک کی چوڑائی زیادہ نہیں ہو گی اور یہ زمین سے 12 میٹر یا 40 فٹ بلند ہو گا۔ ٹرین کی رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم ہو گی جس کے نتیجے میں کسی تاریخی عمارت کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
* لاہور زلزلے کی فالٹ لائن کے قریب واقع ہے یہاں مکمل انڈرگراؤنڈ ٹرین ٹریک کی ڈیزائننگ کے دوران بہت زیادہ پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اس کے باوجود حکومت نے تاریخی ورثہ کی حفاظت کو اہمیت دی ہے۔