پنجاب حکومت

محکمہ داخلہ پنجاب

کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کا قیام
* اس وقت پاکستان کو جن سنگین ترین مسائل کا سامناہے ان میں دہشت گردی سرفہرست ہے۔ حکومت پنجاب دہشت گردی کے اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحتیں استعمال کر رہی ہے۔پنجاب کو پاکستان کی تاریخ کی پہلی Counter Terrorism Force بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ ایک ہزار پانچ سو Corporals پر مشتمل اس فورس میں بھرتی کے لئے میرٹ اور اہلیت کے کڑے اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔وطن عزیز کودر پیش دہشتگردی کے خطرے سے موثر طریقے سے نبر دآزما ہونے کے لئے ایک ایسی فورس کا قیام انتہائی اہمیت کا حا مل تھا جو انٹیلی جنس معلومات کے حصول ، خصوصی آپریشنز اور انویسٹی گیشن کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کا قلع قمع کر سکیں۔وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف نے انسداد دہشت گردی فورس کے منصوبے کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اورانتہائی قلیل مد ت میں انسداد دہشت گردی کے پہلے بیچ کی پاسنگ آؤٹ کو ممکن بنایا۔کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی تنظیم نو کے بعد ایک اہم ادارے کے طو رپرکاؤنٹر ٹیر رازم ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔یہ ادارہ دہشت گردی کی تمام اقسام بشمول فرقہ واریت او رشدت پسندی کے خاتمے کے لئے کام کر رہاہے۔وزیراعلی پنجاب کے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے اس نئے ادارے کو ہر طرح کے وسائل فراہم کئے اور قومی ضرورت کے اس منصوبے کو وزیراعظم محمد نوازشریف کی ہدایات کے مطابق ذاتی دلچسپی لے کر پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں1182 کارپورلز بھرتی کر کے کاؤنٹر ٹیر رازم فورس قائم کی گئی، ان کارپورلز کو دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے خصوصی تربیت فراہم کی گئی۔برادر ملک ترکی نے ان کارپورلز کی انٹیلی جنس ، آپریشنز اور انویسٹی گیشن کے حوالے سے خصوصی تربیت کے لئے بھر پور تعاون کیا اور ترک نیشنل پولیس کے 45سینئر افسران بھجوائے۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت مقدمات اور گرفتاریاں
* نیشنل ایکشن پلان کے تحت وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف کی ہدایت پر حکومت پنجاب کی طرف سے دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف اٹھائے گئے فوری اقدامات کے نتیجے میں یکم مارچ 2016تک موثر اقدامات کرتے ہوئے 63ہزار 690مقدمات درج کئے گئے جبکہ نفرت انگیز تقاریر ، وال چاکنگ ، اسلحہ کی نمائش او ردیگر قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر 69ہزار 466 افر اد کو گرفتار کیاگیا۔
* کرایہ داری ایکٹ ،وال چاکنگ ( ترمیمی ایکٹ )2015 ،اسلحہ ایکٹ( ترمیمی ایکٹ )2015 ، پنجاب ساؤنڈ سسٹم ایکٹ 2015 ،پبلک آڈر ایکٹ 2015کی ترمیم شدہ بحالی قوانین نافذ عمل کئے جا چکے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی جارہی ہیں۔
* پنجاب ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن آرڈیننس کے تحت 6996 مقدمات درج کئے گئے جس کے نتیجے میں 7577 ملزمان کو گرفتار کر کے 6554 چالان عدالت میں پیش کئے گئے ۔2593 مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں اور 2274 مجرموں کو جرمانے اور قید کی سزا دی گئی ہے۔
* نفرت انگیز مواد کی نشر و اشاعت اور ابلاغ کے ایکٹ میں ترمیم کے بعد صوبہ بھر میں کارروائی کے دوران 879 مقدمات درج اور 1069 ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔عدالتوں میں 677چالان پیش کئے گئے۔446 مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں جبکہ 130افراد کو جرمانے اور قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
* پنجاب مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کی خلاف ورزی پر صوبہ بھر میں 154مقدمات درج کر کے249افراد کو گرفتار کیا گیا۔112افراد کے خلاف کورٹ میں چالان پیش کئے گئے۔ 14مقدمات کے فیصلے کے بعد جرمانے اور قید کی سزا سنائی گئی۔
* پنجاب انفارمیشن آف ٹمپریری ریذیڈنس آرڈیننس 2015 ء کی خلاف ورزی پر صوبہ بھر میں 9481مقدمات درج کر کے14637 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 5189مالکان‘6987کرائے دار‘ 77پراپرٹی ڈیلر ا ور2384 مینجروغیرہ شامل ہیں۔7330چالان عدالتوں میں پیش کئے گئے۔2462 مقدمات کے فیصلے کے بعد2273افراد کو جرمانے اور قید کی سزا سنائی گئی۔
* انسداد وال چاکنگ ترمیمی آرڈیننس 2015ء کے تحت 1450مقدمات درج کر کے1459 افراد کو گرفتار کیا گیا۔1330ملزمان کے چالان عدالت میں پیش کر دیئے گئے جبکہ448مقدمات کے فیصلے بھی ہو چکے ہیں ۔345ملزموں کو جرمانے اور قید کی سزا دی جا چکی ہے ۔
* پنجاب آرمز آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے پر43343مقدمات درج کئے گئے جبکہ43231افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔37771چالان عدالت میں داخل کئے گئے ۔1716مقدمات کے فیصلے سنا دیئے گئے۔1466افراد کو جرم ثابت ہونے پر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی جبکہ34913مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
* پنجاب سکیورٹی(Vulnerable Establishments) آرڈیننس 2015ء کی خلاف ورزی پر1387مقدمات درج کر کے1244افراد کو گرفتار کر لیا گیا ۔عدالتوں میں918چالان پیش کئے گئے ۔184کے فیصلے سنا دیئے گئے ۔129مجرموں کو جرمانے اور قید کی سزا سنائی گئی جبکہ728مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
* نیشنل ایکشن پلان کو موثر بنانے کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب باقاعدگی سے اپیکس کمیٹی کی میٹنگ میں لااینڈ آرڈر کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ امن و امان قائم رکھنے کے لئے موثر اقدامات کی وجہ سے محرم الحرام اور دیگر تہوار بخیروعافیت اختتام پذیر ہوئے۔
* 17دہشت گردوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے جبکہ 7مقدمات سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہیں۔ فوری کارروائی کے لئے مقدمات فو جی عدالتوں کو بھی بھجوائے گئے ہیں۔
* ابتدائی مرحلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کرتے ہوئے خطرناک درجے کے 826افراد کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ تیسرے درجے کے 193شرپسند عناصر بھی زیرحراست ہیں۔
* فرقہ ورانہ اور نفرت انگیز تحریری مواد چھاپنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 205کتابیں اور 295سی ڈیز 295میگزین اور 1778پمفلٹ ضبط کر لئے گئے ہیں۔
* نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں اور دہشت گردی میں مالی امداد لینے یا دینے یا سہولت کار بننے پر بھی سختی سے نظر رکھی جا رہی ہے۔41پولیس افسروں کو اینٹی منی لانڈرنگ لا ء کے بارے میں مخصوص تربیت دی گئی ہے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 73مقدمات درج کئے گئے اور 93افراد کو حراست میں لیاگیا، 7 افراد کو سزا سنا دی گئی ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت نام بدل کر کام کرنے والی 8 تنظیموں کی کڑی نگرانی کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔
* دہشت گردی کے خاتمے کیلئے انسداد دہشت گردی فورس میں2818افسران تعینات کئے گئے جن میں 56فیصدانٹیلی جنس،20فیصدآپریشنز اور 24فیصدکا تعلق تحقیقاتی ونگ سے ہے۔
* دہشت گردی میں استعمال ہونے والے 125سے زائد ویب لنکس بلاک کئے جاچکے ہیں اور پی ٹی اے کے زیراہتمام نگرانی کے ذریعے نفرت انگیز مواد کی سوشل میڈیا کے ذریعے نشرواشاعت کی کڑی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔
* الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر روزانہ عوام کی آگاہی کیلئے اشتہاری مہم بھی جاری ہے اور دہشت گردی کے خلاف عوامی شعور و آگاہی کے لئے محکمہ تعلقات عامہ کے زیراہتمام 130 سے زائد خصوصی مضامین‘ فیچرز اور کلرایڈیشنز کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا۔
* 2 0 مارچ2016ء تک75797افغان مہاجرین کی بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے تصدیق کی جاچکی ہے اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے 4مقدمات عدالتوں میں سماعت کیلئے بھجوائے جاچکے ہیں ۔
* 13782مدارس کی جیو ٹیگنگ کی جاچکی ہے۔ اتحاد تنظیمات المدارس (ITM)کی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے مخصوص فارم پر باہمی رضامندی کیلئے اتفاق رائے ہو چکا ہے۔
* دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کو ختم کرنے کیلئے پولیس اور انٹیلی جنس کی طرف سے مل کر کارروائیاں کی گئی ہیں جس سے خاص طور پر سنگین جرائم کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ 714 بائیومیٹرک مشینیں پولیس جبکہ 226 مشینیں CTD،CIAاور SBکے حوالے کی جاچکی ہیں جوکہ جانچ پڑتال میں مددگار ثابت ہوں گے۔
* امن و امان کی بحالی کیلئے پولیس، استغاثہ اور فارنزک کی جانچ پڑتال کے نظام میں اصلاحات کی گئی ہیں جس میں انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کی تنظیم نو کرتے ہوئے تحقیقات کو مزید بہتر بنانے پر زور دیاگیا ہے۔ سب انسپکٹر کی تربیت، مزید بھرتیاں اور تعیناتیاں کی گئی ہیں۔پولیس اور پراسیکیوشن کے درمیان تعاون پر مزید زور دیاگیا ہے۔ صوبائی سپیشل برانچ کو مزید بہتر اور فعال بنانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ پولیس کے معلومات اور تجزیاتی سکولوں کی اپ گریڈیشن کی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کے خطرے کے باعث انٹیلی جنس کے اداروں کو مضبوط اور فعال بنایاجا رہا ہے جس کیلئے صوبائی محکمہ داخلہ میں انٹیلی جنس سینٹر قائم کیاگیا ہے۔
* ایلیٹ پولیس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کیلئے تعیناتی کے نئے انتظامات متعارف کرائے گئے ہیں۔ ایلیٹ پولیس سکول میں توسیع ، سپیشل پروٹیکشن یونٹ قائم کیا گیا ہے اور ترکی کے تعاون سے ڈولفن پولیس پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ جدیدٹیکنالوجی کے استعمال سے کرائم میپنگ اور ہاٹ سپاٹ پولیسنگ جیسے اقدام سے جرائم کے خاتمے اور مجرموں کی نشاندہی کے عمل میں مدد ملے گی۔
* وزیراعلیٰ کی ہدایت پر 5بڑے شہروں میں سیف سٹی اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے جوپانچ بڑے شہروں میں سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے نگرانی اور انتظامات سنبھالے گی۔
* استغاثہ کے قانونی فیصلوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے نئے کوڈ آف کنڈکٹ ، پراسیکیوشن کے مقدمات کا انتظام اور انسداد دہشت گردی کی تربیت اور سزاؤں کی شرح میں بہتری لائی گئی ہے۔ یہ اصلاحات پراسیکیوشن کے مسائل حل کرنے میں ہرممکن مدد دیں گے۔
* پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کا قیام کیا گیا ہے جوکہ برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں تربیت یافتہ عملہ اور ایم فل ، پی ایچ ڈی رکھنے والے انتہائی تعلیم یافتہ سائنسدانوں کی موجودگی میں14شعبہ جات میں تجزیے کرچکا ہے۔
* 8ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں سیٹلائٹ سٹیشن کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے جن میں کئی غیرملکی اہم اداروں کی طرف سے دیئے گئے مقدمات بھی حل کئے جاچکے ہیں۔جیمرز کی تنصیب اور بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے مشکوک افراد کی ڈیٹابیس تک رسائی ممکن ہوچکی ہے۔
* نیشنل ایکشن پلان کے تحت جیل کے قوانین میں اصلاحات کرتے ہوئے مجرموں کی بحالی پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ جیلوں میں معلومات کا انتظام متعارف کرایاگیا ہے جوکہ تمام قیدیوں کا ان کے جرم کی درجہ کے حوالے سے ایک ڈیٹا بیس فراہم کرے گا۔ مختلف شہروں کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عملی اقدامات کئے جاتے ہیں لہٰذا بڑھتے ہوئے جرم کو دیکھتے ہوئے ساہیوال میں ہائی سکیورٹی جیل قائم کی گئی ہے۔
* 2سے 12سال کے بچوں کیلئے نصاب میں نئے موضوعات متعارف کرائے گئے ہیں جن میں امن، اشتراک اور رواداری جیسے غالب موضوعات شامل ہیں۔ جیلوں میں مجرموں کیلئے پیشہ وارانہ مہارت اور تربیتی کورس کا آغاز کیاگیا ہے۔ انتہاپسندانہ عناصر کیلئے بنیاد پرستی کے خاتمے کیلئے ’’امید‘‘نامی پروگرام متعارف کرایاجا رہا ہے جس میں غیرنصابی تربیت، نفسیاتی مانیٹرنگ/تھراپی اور تربیتی کورس کے بعد نرم شرائط پر قرضوں کا حصول ممکن بنایاگیا ہے۔
* دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے پنجاب آرمز لائسنس مینجمنٹ سسٹم (PALMS)نے نادرا کے اشتراک سے روایتی کارڈز کو سمارٹ کارڈ میں تبدیل کرنے کے لئے 189سائٹس متعارف کرائی ہیں ۔یہ ایس ایم ایس سروس کے بنیاد پر لائسنس کی توثیق کر سکے گا ۔
حکومت نے بڑے شہروں میں Safe city پروگرام کے اجراء کا فیصلہ کیاہے۔جس کا آغاز صوبائی دارالحکومت سے کیا جا رہاہے اور اس کے لئے اگلے مالی سال کے دوران چار ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔اس پروگرام کے تحت جدید آلات اور کیمروں کے ذریعے نگرانی اور قانون شکن اور شرپسند عناصر کی نشاندہی او رانہیں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر قانون کی گرفت میں لانے کا ایک مربوط نظام تیار کیا جا رہاہے۔عوام کو روایتی تھانہ کلچر سے نجات دلانے اور ایک خوشگوار ماحول میں ان کی شکایات کے فوری ازالے کے لئے صوبے بھر میں مختلف مقامات پر 80 پولیس سروس سنٹرز قائم کئے جا رہے ہیں۔2015-16 کے لئے محکمہ پولیس کے بجٹ میں مجموعی طور پر 94ارب 67 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ یہ رقم دوسرے اخراجات کے علاوہ جدید خطوط پر تربیت ، جدید سازو سامان کی فراہمی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر صرف کی جا رہی ہے ۔