خبرنامہ پنجاب

بحریہ ٹاؤن میں اعلیٰ پائے کے لوگ ہیں، یہاں کھوکھا نہیں ملتا وہاں 100 کینال کےگھرہیں

اسلام آباد:(ملت آن لائن) چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن میں بڑے اعلیٰ پائے کے لوگ ہیں، لوگوں کو کھوکھا نہیں ملتا اور وہاں 100 کینال کے گھر ہیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے فیصلے پر دائر نظرثانی اپیل پر سماعت کی۔

خیال رہے کہ موضع تخت پڑی اور موضع ملکھیتر میں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے ناجائز قبضے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل کی تھی۔

آج ہونے والی سماعت پر عدالت کے طلب کیے جانے پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی اور چودہدری شجاعت حسین سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ موضع کا لٹھا منگوالیا ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ جی منگوالیا ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کہاں ہے وہ ریکارڈ ہمارے اسٹاف کو دیں، اتنی دیر میں چوہدری پرویز الٰہی کو بھی بتا دیں کہ ان کو زحمت کیوں دی ہے۔

اس دوران چیف جسٹس نے چوہدری پرویز الٰہی کو روسٹرم پر بلایا اور پوچھا آپ نے حد بندی کی منظوری دی اور کچھ زمین اپنے خاندان کے نام کروالی، آپ کو اس اقدام کی وضاحت دینا پڑے گی۔

جس پر چوہدری پرویز الٰہی نے بتایا کہ یہ 13 سال قبل کا واقعہ ہے، میرے پاس کوئی ریکارڈ بھی نہیں، اس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ پرویز الہٰی کو عدالت حکم نامےکی نقل دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے حد بندی میں ملک ریاض کو زیادہ زمین دی جبکہ انہوں نے چودہدری شجاعت، ان کی اہلیہ کو جائیدادیں دیں جبکہ چودہدری سالک اور آپ کے ملازم چوہدری منیر کو بھی جائیداد دی گئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کی وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، اینٹی کرپشن سے تحقیق کرواسکتے ہیں جبکہ اس معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی بنائی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2 ہزار 2سو10 ایکڑ زمین منتقل ہوئی ہے جبکہ ملک ریاض کہتے ہیں کہ مجھے ایک ہزار 7سو 14 ایکڑاراضی ملی، آپ نے زمین زیادہ دی اور ظاہر کم کی، ملک ریاض نے آپ کی خاندان کے ساتھ اراضی کا تبادلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جواب دینا پڑے گا، جس پر پرویز الٰہی نے کہا کہ میں ضرور جواب دوں گا، میرے پاس حقائق موجود نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نیب، ایف آئی اے یا پھر جے آئی ٹی بنا کر تحقیقات کرا لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو حد بندی کا اختیار نہیں تھا، حکومت پنجاب نے بھی کہا کہ اختیارات سے تجاوز کیا گیا ہے، اس پر پرویز الٰہی نے بتایا کہ میں 5 سال وزیر اعلیٰ رہا اور میرے بعد 10 سال میرے مخالفین کی حکومت رہی،

انہوں نے کہا کہ میری ہر فائل کو کھنگالا گیا، مگر کوئی کیس نہیں ڈھونڈ سکے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر ہم تحقیقات کروا لیتے ہیں یہ آپ کے لیے بہتر ہے، آپ کے خلاف عدالتی فیصلہ آچکا ہے اب عملدرآمد لازمی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تیسرے فریق کے مطلق بھی عدالتی فیصلے میں کہا گیا اس لیے ہم معاملے کو دیکھ رہے ہیں، اس پر پرویز الٰہی نے کہا کہ مجھے اجازت دیں میں وکیل کر لوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جی وکیل کر لیں مگر زیادہ وقت نہ لیں۔

دوران سماعت وکیل اعتزاز احسن سے چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ وہ دستاویزات دکھائیں جس پر تین ممبر بینچ نے انحصار کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بتائیں کون سی دستاویزات کو ٹھیک طریقے سے نہیں پڑھا، 2 ہزار 2سو 10 ایکڑ زمین کو ایک ہزار 7سو41 ایکڑ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے استفسار کیا کہ یہ لٹھا 4 سے 5 سال پرانا لگتا ہے، آپ کہیں تو میں تجزیہ کروا لیتا ہوں۔

اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تمام ریکارڈ کی بنیاد پر جنگلات کا رقبہ 2210 ایکڑ ہے، آپ صرف محکمہ مال کی ایک مساوی پر انحصار کر رہے ہیں۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ اس مساوی کی کوئی حثیت نہیں، پرانے گریٹیز میں سارا ریکارڈ ہے، ساتھ ہی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس مساوی کی شہادت قابل قبول نہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے حد بندی کی منظوری دی، بینیفشری وزیر اعلیٰ کے رشتہ دار تھے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم کوئی الزام نہیں لگا رہے، عدالت فیصلہ دے چکی ہے، آپ نے اس الزام کو چیلنج بھی نہیں کیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کوئی دستاویزات بتائیں کہ رقبہ 2210 نہیں 1741 ایکڑ ہے، جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ڈی سی او کی رپورٹ ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اربن انسپکٹر کی رپورٹ ہے، اس کو بھی پلاٹ مل گیا ہو گا، سیٹیلائٹ کی تصاویر بتاتی ہیں کہ کیسے جنگلات کی زمین پر گھر بن گئے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن نے مانا کہ 10 ہزار درخت کاٹے، اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ان کے پیسے ادا کیے گئے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن میں بڑے اعلی پائے کے لوگ بیٹھے ہیں، بڑے بڑے عہدوں سے ریٹائرڈ لوگ ہیں، وہاں 100 کینال کا گھر بھی بنا ہوا ہے جبکہ لوگوں کو کھوکھا نہیں ملتا اور یہاں 100 کینال کے گھر ہیں۔

بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کیس
خیال رہے کہ 04 مئی 2018 کو عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں اسلام آباد کے قریب تخت پڑی میں جنگلات کی زمین کی از سر نو حد بندی کا حکم دیا اور کہا کہ تخت پڑی کا علاقہ 2210 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے، لہٰذا فاریسٹ ریونیو اور سروے آف پاکستان دوبارہ اس کی نشاندہی کرے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کو جنگلات کی زمین پر قبضے کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور مری میں جنگلات اور شاملات کی زمین پر تعمیرات غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مری میں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں مزید تعمیرات کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کو مزید ہدایت دی گئی تھی کہ وہ راولپنڈی میں غیر قانونی الاٹمنٹ کے معاملے کو دیکھے۔