خبرنامہ پنجاب

حسین نقی سےمتعلق چیف جسٹس کےریمارکس سےدل دکھا، صحافی برادری

صحافیوں کے ایک وفد نے پوری صحافی برادری کی جانب سے سینئر صحافی حسین نقی سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے ریمارکس پر ان سے تحفظات کا اظہار کردیا۔

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مفاد عامہ کے مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران صحافی کمرہ عدالت میں روسٹرم پر پہنچے اور اعلیٰ ججز سے اپنے تحفظات کے اظہار کے لیے اجازت مانگی۔

اجازت ملنے پر لاہور پریس کلب کے سابق صدور شہباز میاں اور ارشد انصاری سمیت شفیق اعوان، ضیااللہ نیازی، گوہر بٹ اور شہزاد بٹ نے کہا کہ حسین نقی اصول پسند انسان ہیں اور وہ پوری صحافی برادری میں بڑی عزت رکھتے ہیں۔

شہباز میاں نے کہا کہ صحافی عدالتوں اور چیف جسٹس پاکستان کی بھی بہت عزت کرتے ہیں، تاہم اعلیٰ ترین جج کی جانب سے حسین نقی سے متعلق ریمارکس پر صحافی برادری کا دل دکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حسین نقی صحافیوں کی تقریباً 3 نسلوں کے استاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی پوری زندگی ملک میں ظالم اور آمرانہ حکومتوں کے خلاف جدوجہد میں گزاری۔

صحافیوں کے تحفظات پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ حسین نقی کی خدمات کا اعتراف کرنے میں عدالت کو کوئی انا نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے صحافیوں سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدالت حسین نقی کو بورڈ آف کمشنرز میں دوبارہ شامل کرے؟، تاہم شہباز میاں نے جواب دیا کہ حسین نقی کسی عہدے کی خواہش نہیں رکھتے۔

علاوہ ازیں عوامی حقوق کے لیے قائم جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے سپریم کورٹ میں حسین نقی کے ساتھ کیا جانے والے رویے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

اپنے ایک بیان میں جے اے سی نے کہا کہ حسین نقی قابل عزت ہیں اور وہ جمہوریت، قانون اور انصاف کی بالادستی کے لیے اپنی لازوال جدوجہد کے لیے جانے جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے محافظ اور صحافی ان کی خدمات کے معترف ہیں۔

کمیٹی کی جانب سے اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا کہ حسین نقی نے چیف جسٹس کے لیے عزت و احترام دکھایا اور غیرمشروط معافی مانگی لیکن اس کے باوجود انہیں مثبت جواب اورعدالت کی جانب سے وہ عزت نہیں دی گئی، جس کے وہ حقدار تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ہم معزز چیف جسٹس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ حسین نقی کا احترام کریں گے اور بڑے سطح پر عوام میں ایک مثبت پیغام کو فروغ دیں گے‘۔

خیال رہے کہ 17 نومبر کو بورڈ آف پنجاب ہیلتھ کمیشن سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سینئر صحافی حسین نقی کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ حسین نقی کہاں ہیں، اس پر حسین نقی پیش ہوئے تھے اور بتایا تھا کہ وہ اسلامیہ کالج میں یونین کا سیکریٹری رہا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ پھر آپ بورڈ چھوڑیں اور جا کر یونین چلائیں۔

اس پر حسین نقی نے کہا تھا کہ میں کیوں جاؤں، مجھے منتخب کیا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ بورڈ کو ہم نے ختم کردیا آپ آگے چلیں۔

دوران سماعت حسین نقی کی جانب سے اونچی آواز میں بات کرنے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ آپ کی جرات کیسے ہوئی ہم آپ کو توہین عدالت کا نوٹس دیں گے۔

اس پر حسین نقی نے کہا تھا کہ میں آپ سے 20 سال بڑا ہوں، میری بات پوری سنیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ’تم بدتمیز آدمی ہو، عدالت سے معافی مانگو، اس پر حسین نقی نے کہا میں عدالت سے معافی مانگتا ہوں۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے ہدایت کی تھی کہ حسین نقی کو عدالت سے باہر لے جائیں۔