قومی دفاع

آپریشن ضرب عضب کامیابی کےساتھ جاری:ڈار

اسلام آباد:(اے پی پی) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک کی اقتصادی شرح نمو میں اضافہ، روزگارکی فراہمی کے مواقع بڑھانے ، غربت کے خاتمہ اور عام آدمی کی حالت کو بہتر بنانے کے اقدامات مستقبل کی حکومتی حکمت عملی کا حصہ ہونگے ۔ زراعت کی بحالی اورترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے ، یوریا کھاد کی قیمت 1400 روپے فی بوری جبکہ ڈی اے پی کھاد کی قیمت کو2500 روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، زرعی ادویات پرعائد ٹیکسز کو ختم کیا جارہا ہے ، زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی 5.35 روپے فی یونٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ صوبے بھی اس میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں، زرعی قرضوں کے اجراء کے ہدف میں 100 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، سول ملازمین کیلئے بہتر پیکج دیا ہے اور دو ایڈ ہا ک ریلیف تنخواہ میں ضم کرکے اس پر10فیصد ایڈ ہاک ریلیف دیا ہے جو مجموعی طور پرتقریباً13فیصد کے قریب بنتا ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو جی ڈی پی کے ایک فیصد تک کم کیا گیا ہے اور مزید کمی کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، 5 بڑے برآمدی شعبوں کیلئے ٹیکس کی شرح کو زیرو ریٹڈ کردیا ہے ، 30اپریل 2016ء تک کے ریفنڈز کے بقایا جات کی ادائیگی کو 31 اگست تک یقینی بنایا جائے گا، صنعتی شعبہ کیلئے مشینری اور خام مال کی درآمد پرعائد ڈیوٹی کو 3فیصد کم کیا جائے گا، گذشتہ تین سال کے دوران ٹیکس وصولیوں 60 فیصد اضافہ ہوا، رعایتی ایس آر اوز کو بتدریج واپس لیا جائے گا، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے تحت وفاق کے زیر انتظام 800 ارب جبکہ صوبائی پروگرام کے تحت 875 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا ہے، زرمبادلہ کے ملکی ذخائرکو2018 تک 30 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا،آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کی کامیابی کیلئے پاکستان کی افواج کی کوششیں قابل تعریف ہیں، امن وامان کی صورتحال میں مزید بہتری سے مقامی اورغیرملکی سرمایہ کاری بڑھے گی اور دہشت گردی کا خاتمہ شرح نمو میں اضافے کا باعث بنے گا،حکومت نے دفاع کیلئے بجٹ کا11فیصد حصہ مختص کیا ہے۔ ہفتہ کو یہاں بعد از بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دستیاب وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور آئندہ بجٹ میں ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کے حامل شعبہ زراعت کی بحالی اورترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے ، بجٹ تجاویز زرعی شعبہ سے منسلک تمام شراکت داروں کی مشاورت سے تیارکی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں پاکستانی معیشت کی حالت انتہائی ابتر تھی اورپاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اورڈیفالٹ سے نکالنے کا مشکل مرحلہ درپیش تھا جبکہ میکرو اکنامک استحکام کی واپسی بھی مشکل کام تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سفر کامیابی سے جاری ہے اور گذشتہ سال کے بجٹ میں حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ ہمارا فوکس شرح نمو میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کے جن شعبوں میں زیادہ سے زیادہ ترقی کی ضرورت ہے ان میں زراعت کا شعبہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ملک کی تقریباً70 فیصد آبادی شعبہ زراعت سے منسلک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سیکٹر کی مدد ہماری اولین ترجیح ہے اور اس کی ترقی کیلئے آئندہ میزانیہ میں متعدد اقدامات کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے گذشتہ چند ماہ کے دوران کھاد کی قیمت میں 250 روپے فی بوری کی کمی کی ہے اور اب یوریا کھاد کی قیمت کو 1800 روپے سے 1400 روپے فی بوری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح زراعت کے شعبہ کی دوسری طلب ڈی اے پی کی قیمتوں میں کمی کی جس کی قیمت 3200 روپے تک پہنچ چکی تھی، حکومت نے مداخلت کرکے اس کی قیمت کم کرائی۔ انہوں نے کہا کہ اب عالمی مارکیٹ میں ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں کمی ہوئی ہے اور حکومت نے گذشتہ سال کے زرعی پیکج میں ڈی اے پی کی قیمت میں 500 روپے فی بوری کم کرکے اس کی قیمت تقریباً2800 روپے کے قریب ہے جس میں مزید کمی کرکے ڈی اے پی کھاد کی قیمت کو2500 روپے تک کم کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تمام چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹریز، صوبائی حکومتوں اور دیگر شراکت داروں سے مشاورت کے بعد زرعی شعبہ کی شرح نمو میں اضافہ کیلئے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں تاکہ ملکی معیشت کا یہ اہم شعبہ جی ڈی پی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ کی کارکردگی میں اضافہ کیلئے زرعی ادویات پرعائد ٹیکسز کوبھی ختم کیا جارہا ہے جبکہ زراعت کا ایک بڑا خرچہ ٹیوب ویل ہے اور حکومت نے زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی کی قیمت میں 3روپے 50پیسے فی یونٹ کی کمی کرکے اس کو5.35 روپے فی یونٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ صوبے بھی اس میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں تاکہ شعبہ کو مزید ریلیف دیا جاسکے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت زرعی ٹیوب ویلوں پر عائد بجلی کا سیلز ٹیکس ادا کرے گی تاکہ کاشتکاروں کو بجلی 5.35 روپے فی یونٹ کی قیمت پر دستیاب ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پولٹری کے شعبہ کیلئے بھی شراکت داروں کی مشاورت سے متعدد اقدامات کئے ہیں تاکہ مرغی کے گوشت اور دیگر چکن مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوسکے، اسی طرح زرعی شعبہ کیلئے درکار مشینری ، مچھلی کی صنعت ، لائیو سٹاک اور دیگر منسلک صنعتوں کیلئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں تاکہ آئندہ سال زرعی شعبہ جی ڈی پی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال کپاس کی ملکی پیداوارمیں 28 فیصد کمی ہونے سے اس کی پیداوار 10ملین گانٹھوں تک کم ہوگئی جبکہ گذشتہ مالی سال کے دوران کپاس کی ملکی پیداوار 14ملین گانٹھوں سے تجاوز کرگئی تھی اور رواں مالی سال کیلئے اس کا ہدف 15ملین گانٹھیں مقررکیا گیا تھا۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کے باعث جی ڈی پی میں کمی واقع ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ ملکی آبادی کے 70 فیصد حصے سے منسلک شعبہ زراعت کو اس کی ضروریات کے مطابق معاونت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جی ڈی پی میں اہم کردار کا حامل دوسرا بڑا شعبہ برآمدات تھا جن میں رواں مالی سال کے دوران تقریباً11 فیصد کمی واقع ہوئی جس کے بہت سے عوامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارے کے باعث افراط زر ہوتا ہے جس سے مقامی مارکیٹوں میں قیمتیں بڑھتی ہیں اورعام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جن میں کامیابی حاصل ہوئی، اس کو جی ڈی پی کے ایک فیصد تک کم کیا گیا ہے اورآئندہ بھی اس میں مزید کمی کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی برآمدات میں ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 15فیصد ہوتی ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ پاکستان ایشیئن ٹائیگر بنے اور اس کی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبہ کی تجاویز پر ہم نے 5 بڑے برآمدی شعبوں کیلئے ٹیکس کی شرح کو زیرو ریٹڈ کردیا ہے اور 30اپریل 2016ء تک کے ریفنڈز کے بقایا جات کی ادائیگی کو 31 اگست 2016 ء تک یقینی بنایا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صنعتی شعبہ کی ترقی کیلئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر شعبوں کیلئے بھی متعدد اقدامات کئے گئے ہیں لیکن ہماری سب سے پہلی ترجیح زراعت تھی ۔ انہوں نے کہا کہ شرح نمو کیلئے کیپیٹل سرمایہ کاری کی بہت ضرورت ہوتی ہے جس میں اضافہ کیلئے جامع حکمت عملی مرتب کی گئی ہے اور اس وقت انوسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی تقریباً15.6 فیصد تک بڑھ چکی ہے جس کو اکیس،بائیس فیصد تک لے جائیں گے جس سے ملکی معیشت کی شرح نمو7 فیصد تک بڑھے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں اہم فیصلہ کیا گیا ہے کہ صنعتی شعبہ کیلئے مشینری اور خام مال کی درآمد پرعائد ڈیوٹی کو 3فیصد کم کیا جائے جو پاکستان کی تاریخ کاسب سے کم سلیب ریٹ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ سے حکومت کو18 تا 19ارب کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ خدمات کے شعبہ کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کی ترقی کیلئے بھی بجٹ میں متعدد اقدامات تجویزکئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران زرعی قرضوں کے اجراء کے ہدف میں 100 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ نجی شعبہ کیلئے رواں مالی سال کے دوران اب تک 341ارب روپے کے قرضہ جات جاری کئے جاچکے ہیں اور توقع ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک اس کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ، سٹاک مارکیٹ میں بھی نمایاں بہتری واقع ہوئی ہے جبکہ ریونیو اور ٹیکسز کے حوالے سے حکومت نے عوام پر بوجھ نہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فونز پر ٹیکس اس لئے بڑھایا گیا ہے کہ ڈیکلریشن کے غلط استعمال کو روکا جاسکے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پوری ٹیم نے دن رات کی بھرپورمحنت کے بعد فیصلے کئے ہیں تاکہ ملکی معیشت کی ترقی کے مطلوبہ اہداف حاصل ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسز کی وصولیوں میں گذشتہ تین سال کے دوران 60 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جاری مالی سال کے لئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا اور رعایتی ایس آر اوز کو بتدریج واپس لیا جائے گا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا اگلا ہدف اقتصادی ترقی ہے اور کسی بھی ملک میں اقتصادی ترقی سرمایہ کاری سے ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں حکومت نے سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے تحت وفاق کے زیر انتظام 800 ارب جبکہ صوبائی پروگرام کے تحت 875 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم 2018ء تک شرح نمو کو7فیصد تک بڑھائیں گے جتنی سرمایہ کاری حکومت کرے گی اس کا دو سے تین گنا نجی شعبہ سرمایہ کرتا ہے اسی لئے حکومت نے ترقیاتی پروگرام کے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آئندہ دو سال کے دوران ملک کے جی ڈی پی میں اضافہ کرے گی جس سے سرمایہ کاری، روزگار کی فراہمی کے مواقع اور شرح ترقی بڑھنے کے ساتھ ساتھ غربت کا خاتمہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح کو سنگل ڈیجٹ میں رکھا جائے گا جس کیلئے انتظامی اورمالیاتی اقدامات کئے جائیں گے۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ حکومت کا ایک ہدف سرمایہ کاری کی شرح جی ڈی پی کے حساب سے بڑھانے کا ہے اور زرمبادلہ کے ملکی ذخائرکو2018 تک 30 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں تاکہ باہمی مشاورت سے میثاق معیشت تیارکیا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کی ترقی کیلئے روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے ، عارضی طور پرنقل مکانی کرنے والے افراد اور سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امن وامان کی صورتحال میں بہتری حکومت کی اولین ترجیج ہے ، آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کامیابی سے جاری ہے جواپنے فائنل راؤنڈ میں داخل ہوچکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کی کامیابی کیلئے پاکستان کی افواج کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ کے باعث ملکی معیشت کو118 ارب ڈالرکا نقصان برداشت کرنا پڑا اورنائن الیون کے بعد کئے گئے بعض فیصلوں سے بھاری نقصان ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ضرب عضب پر سرمایہ کاری ہورہی ہے جس سے ملک کو خاطرخواہ کامیابی ملی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن وامان کی صورتحال میں بہتری کے باعث گذشتہ مالی سال کے دوران ملکی معیشت کو پہنچنے والے 10ارب ڈالر کا نقصان جاری مالی سال کے دوران 6 ارب ڈالر تک کم ہوچکا ہے اور امن وامان کی صورتحال میں مزید بہتری سے مقامی اورغیرملکی سرمایہ کاری بڑھے گی ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ شرح نمو میں اضافے کا باعث بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے دفاع کیلئے بجٹ کا11فیصد حصہ مختص کیا ہے ، اسی طرح سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے حوالے سے کمیٹی کی تجاویز سے کہیں بڑھ کر مراعات دینے کی کوشش کی ہے ، رواں سال افراط زر کی شرح تین فیصد سے کم تھی اورکمیٹی نے بھی تنخواہ اورپنشن میں اسی تناسب سے اضافے کی تجویز دی تھی لیکن حکومت نے سول ملازمین کیلئے بہتر پیکج دیا ہے اور دو ایڈ ہا ک ریلیف تنخواہ میں ضم کرکے اس پر10فیصد ایڈ ہاک ریلیف دیا ہے جو مجموعی طور پرتقریباً13فیصد کے قریب بنتا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت مستقبل میں شرح نمو، روزگار کی فراہمی میں اضافے اور غربت کے خاتمہ سے عام آدمی کی بہتری کیلئے اقدامات کرے گی ۔