قومی دفاع

امریکہ اور بھارت کے درمیان پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر مذاکرات

واشنگٹن:(اے پی پی)امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے ملاقات کی جس میں انہوں نے بھارت کے جوہری پروگرام، ہتھیاروں کے انتظام اور اس حوالے سے اس کے ذمہ دارانہ رویہ کو سراہا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ امریکہ اور بھارت نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر بات چیت شروع کر دی ہے، اس حوالے سے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی سکیورٹی اور انکی تنصیب کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔ کیری نے کہا کہ بھارت کا ذمہ دار ہونے کے بارے میں طویل ریکارڈ موجود ہے جو موجودہ صورتحال کے تناظر میں بہت اہم ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کیری نے اس بات کا واضح عندیہ دیا کہ اجیت دوول سے بات چیت میں پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام زیربحث آیا ہے۔ امریکہ نے علاقے میں بعض چوائسز کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھائے جن کے باعث اسلحہ کی دوڑ تیز ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا ہم نے ان کے سامنے علاقے کے بہت سے پارٹنرز کا معاملہ اٹھایا۔ بھارت کا کردار، ایٹمی پروگرام اور ہتھیاروں کے حوالے سے بہت زیادہ اہم قائدانہ ہے۔ کیری طارق فاطمی سے بھی ملاقات کرینگے۔ دریں اثناء امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا نے شمالی کوریا پر سخت پابندیاں لگانے پر اتفاق کیا ہے۔ دریں اثناء صدر اوباما نے جنوبی کوریا اور جاپان کے رہنمائوں سے ملاقات میں جوہری ہتھیاروں میں شمالی کوریا پر دبائو قائم رکھنے پر زور دیا ہے سہ طرفہ ملاقات میں انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا پر عائد پابندیوں کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرآمد کی نگرانی کی جانی چاہئے۔ ادھر دو روزہ جوہری کانفرنس میں شرکت کیلئے عالمی رہنما امریکہ پہنچ گئے ہیں۔ چین کے صدر شی جن پنگ چوتھی ایٹمی سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کیلئے امریکہ پہنچ گئے ہیں ، توقع ہے کہ وہ آج ایٹمی سکیورٹی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کریں گے، چینی صدر اپنے خطاب میں علاقے میں ہونے والی کامیابیوں اور اس سلسلے میں ایٹمی سکیورٹی کیلئے کئے گئے اقدامات کے بارے میں بیجنگ کی پالیسی پر روشنی ڈالیں گے ، چینی صدر اس سلسلے میں عالمی سطح پر ایٹمی سکیورٹی کیلئے تجاویز بھی پیش کریں گے۔ پاکستان کے خارجہ سیکرٹری اعزاز احمد چودھری اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی واشنگٹن پہنچ چکے ہیں جو وزیراعظم نواز شریف کی جگہ پاکستان کی نمائندگی کرینگے۔ امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ جوہری سلامتی کی سربراہ کانفرنس میں پاکستان پر خصوصی توجہ نہیں دی جا رہی بلکہ دنیا بھر میں جوہری مواد کے تحفظ کے لیے اقدامات پر بحث ہو رہی ہے۔ دنیا کے 52 ممالک کے وفود اس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں جس کے لئے سکیورٹی اور ٹریفک کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔ اس سربراہ کانفرنس کا آغاز صدر بارک اوباما نے 2010 میں کیا تھا اور اس کا مقصد دنیا کو جوہری مواد کے ممکنہ خطرات سے محفوظ بنانا ہے۔ اس کا پہلا اجلاس واشنگٹن ڈی سی، دوسرا 2012 میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول اور تیسرا 2014میں دی ہیگ میں منعقد ہوا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی واشنگٹن پہنچ چکے ہیں۔ جوہری کانفرنس کی سائیڈلائن پر چینی صدر شی جن سے ملاقات کے بعد صدر اوباما نے کہا کہ وہ اور چینی صدر کوریا کو ایٹمی اسلحہ سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملاقات میں بعض امور پر عدم اتفاق بھی ہوا، آئندہ کے لئے تعاون کا عزم ظاہر کیا گیا۔ اس حوالے سے جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق امریکہ اور چین نے نیوکلیئر سلامتی کے حوالے سے سالانہ مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ امریکی اور چینی صدور کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے ملکر کام کرینگے