میاں نوازشریف کو مبارک ہو کہ ان کے دوراقتدار کا ایک اور دھرنا ختم ہوا۔ مجھے پتہ ہوتا کہ اس احتجاجی تحریک کے آخر میں‘ خواجہ سعد رفیق قدم رنجہ فرمائیں گے‘ تو میں پہلے ہی دن بتادیتا کہ نعرے بازی اور احتجاجی دھرنوں کا سپیشلسٹ میدان میں آ گیا ہے۔ دھرنے والے چھوٹے چھوٹے لڑکوں اور بڑے بڑے ملائوں کی کیا مجال ؟ کہ دائو گھات میں سعد رفیق کا مقابلہ کر سکیں۔جو کھیل سکول سے شروع ہوا‘ اس کے بارے میں استادوں نے پہلے سے کہہ رکھا ہے ع
کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا
کھیل سکول میں شروع ہوا۔ لیکن یہ بچوں کا نہیں تھا۔ یہ کھیل کسی گرائونڈ تک بھی محدود نہیں تھا‘ جسے ہم ایک بائونڈری لائن کے اندر ہوتا ہوا دیکھیں۔ یہ کھیل پورے جنوبی ایشیا کے کل پرزوں کو ہلانے کے لئے تھا۔ ہمارے ارباب اقتدار بہت سادہ لوح ہیں۔ جب ان کے خلاف کوئی کھیل شروع ہوتا ہے‘ تو وہ اپنی دیمک زدہ حکومت کے پایوں کی طرف نہیں دیکھتے۔ اردگرد اپنے ساتھیوں‘ خادموں اور درباریوں کی طرف دیکھ کر سوچتے ہیں کہ یہ ضرور کوئی سازش کر رہے ہوں گے۔ پھر وہ تصور کرتے ہیں کہ ان کا دشمن کون ہو سکتا ہے؟ اور وہ اپنے تصوراتی دشمنوں کو چوٹ لگانے کے لئے‘ لڑکے بالوں کو پتھر دے کر گلیوں میں بھیج دیتے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں کے مخالفین نے‘ بچوں کے ہاتھوں میں پتھر اور حکمرانوں کے خلاف نعرے دے کر‘ گلیوں میں کھلا چھوڑ دیا۔ برا نہ منائیں‘ اس وقت گلیوں میں صرف ناراض طلبہ اور ایک روایتی چیز چھوڑی جاتی ہے۔ حکومتوں کے خلاف نعرے بازی کرنے والے بڑے کام کے لوگ تھے۔ یہ جو پرویزرشید‘ نئے دور کے لڑکوں کو‘ گلیوں میںپتھر مارتے دیکھ کر مدبرانہ پریس کانفرنسیں کرتا ہے‘ ایک دن خود بھی ہاتھوں میں پتھر لے کر‘ گلیوں میں نکلتا تھا اور وہی نعرے لگاتا تھا‘ جو اس نے ایوب حکومت کے خلاف لگائے۔ اس کے بعد اس نے کافی دیر تک پرویزمشرف کا انتظار کیا۔ وہ اس کے جوش و خروش کو حرکت میں لانے کے لئے موزوں ترین شخص تھا۔ اس میں ساری خوبیاں موجود تھیں‘ جو ایک ڈکٹیٹر کے خلاف نعرے بازی کے لئے موزوں ہو سکتی ہیں۔ مشرف ایک ڈکٹیٹر تھا۔ جمہوری راستے سے اقتدار میں نہیں آیا تھا۔ اس نے ایک منتخب حکومت کے اقتدار پر قبضہ کر کے‘ حکومت سنبھالی تھی۔ پرویزرشید کے لئے‘ اس سے زیادہ اچھا سیاسی موسم کب آ سکتا تھا؟ میں یہ کالم پرویزرشید کی پروموشن کے لئے نہیں لکھ رہا۔ اسے ضرورت بھی نہیں۔ سارے انقلابی سڑکوں اور جیلوں کے دھکے کھانے کے بعد‘ جہاں پہنچنا چاہتے ہیں‘ پرویزوہاں پہنچ چکا ہے۔ میں تو تاریخ کے گھومتے ہوئے پہیے پر نظر ڈال رہا ہوں۔ ایوب خان کے خلاف ”ایان کے ڈالر واپس کرو ‘‘کے نعرے نہیں لگتے تھے۔ اس دور کے نعرے بہت معمولی تھے۔ جیسے ”جمہوریت بحال کرو۔آمریت ختم کرو۔ مادرملت کوووٹ دو۔‘‘ اپنے تعلیمی مسائل کے بارے میں یہ نوجوان متعدد نعرے لگاتے‘ جو بیشتر اوقات نیم سیاسی ہوتے تھے۔ لیکن ان کی اصل منزل سیاست کی بحالی ہی تھی اور سیاست کی بحالی کی جو کشتی‘ وہ نعروں کے ذریعے دھکیل رہے تھے‘ وہ اصل میں خود‘ ان کے اپنے اقتدار کی منزل کی طرف جاتی تھی۔ آپ ذرا اس دور کے احتجاجی لڑکے لپاڑوںکے اقتدار کی طرف سفر کے قصے سنیں‘ تو وہ بہت دلچسپ نکلتے ہیں۔ ایک معراج محمد خان تھے‘ جو پہلے وزیربنے اور پھر ان کا ”استاد‘‘پرویزرشید ‘کرسی وزارت پر جا بیٹھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ معراج محمد خان نے اقتدار کی چٹنی صرف‘ بھٹو صاحب کے دور تک کھائی اور پیٹ بھرنے سے پہلے ہی ‘واپس انقلاب کی گلیوں میں آ گیا۔ قبل از وقت اقتدار کو بچانے کے لئے جو ترکیب سوچی گئی‘ اس کے خالق ہماری ریاست کے بانیوں میں سے تھے۔ وسعت اللہ خان نے لکھا ہے :
”محمد علی جناح سے سکندر مرزا اور لیاقت علی خان سے فیروز خان نون تک کسی گورنر جنرل یا وزیرِاعظم کو‘ خیال نہ آیا کہ کراچی پاکستان کا وفاقی دارالحکومت ہونے کے لیے سخت ناموزوں ہے۔ آئے دن جلسے جلوس نکلتے ہیں، خود سر طلبا بہانے
بہانے ‘گورنر جنرل ہاؤس کا گھیراؤ کر لیتے ہیں اور سرکار تعمیرِ مملکت کے کام پر کماحقہ توجہ نہیں دے سکتی۔عام طور پر نئی بستیاں اور محلات بسانے کا وہی حکمران سوچتے ہیں‘ جنہیں عوامی جوابدہی کا خوف نہیں ہوتا۔ چنانچہ پاکستان کے پہلے فوجی آمر‘ جنرل ایوب خان کو یہ خیال آ ہی گیا۔انہوں نے اقتدار پر قابض ہوتے ہی‘ میجر جنرل یحییٰ خان کو نئے دارالحکومت کے لیے‘ ایسا موزوں علاقہ تلاش کرنے کا کام سونپا‘ جہاں کا موسم کراچی کی طرح مرطوب نہ ہو‘ لوگ کراچی کی طرح جذباتی اورجھگڑالو نہ ہوں بلکہ لوگ ہی نہ ہوں تو اور اچھا۔ تاکہ دور دراز کے سکون میں‘ امورِ مملکت کو جیسے چاہیں شکل دی جا سکے۔نئے دارلحکومت کی تعمیر کا ایک جواز یہ بنایا گیا کہ کراچی ایک کونے پر ہے لہٰذا پنجاب اور سرحد کے لوگوں کو یہاں پہنچنے میں دشواری ہوتی ہے۔اس مشکل کا حل ‘نیا دارالحکومت بالکل دوسرے کونے پر بنا کے نکالا گیا۔کراچی اگرچہ مشرقی پاکستان سے دور تھا مگر سمندری و بحری روٹ کے ذریعے جڑا ہوا تھا۔ لیکن اسلام آباد تو مشرقی پاکستان والوں کے لئے تقریباً مریخ پر تھا۔بس ایک خوبی تھی کہ جی ایچ کیو بھی ساتھ لگا ہوا تھا اور ایوب خان کا آبائی گاؤں ریحانہ‘ مارگلہ کے دوسری جانب تھا۔ چنانچہ ڈھاکہ میں پروپیگنڈہ شروع ہوگیا کہ ہمارا پٹ سن اسلام آباد کھا رہا ہے۔سنہ 66ء میں ماسٹر پلان کے مطابق اسلام آباد کے کنگرے تیزی سے ابھرنے لگے ‘تو اندازہ یہی تھا کہ اگلے50 برس تک یہ سرکاری بابوؤں کا شہر رہے گا اور اس ویرانے تک کوئی جلسہ جلوس پہنچنے کا تو خیر سوال ہی نہیں؟
جنرل ضیا الحق پہلے حکمران تھے جنھوں نے پنڈی کا ایوانِ صدر اور چیف آف آرمی سٹاف ہاؤس ‘چھوڑ کے سیاسی شور شرابے سے پاک اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں دفتر کرنا شروع کیا اور کبھی کبھار قیام بھی ہونے لگا۔پھر ایک دن وہ ہوگیا جس سے بچنے کے لئے‘ دارالحکومت کراچی سے اکھاڑ کر پوٹھوہاری سطح مرتفع پر پہنچایا گیا تھا۔ یعنی اسلام آباد‘ پاکستان سے 25 کلو میٹر کے فاصلے پر نہ رہا اور میلے کچیلے عوام کے پسینے کے محاصرے میں آ گیا۔1979ء میں کعبہ پر حملے کی خبر پہنچتے ہی سینکڑوں مشتعل مظاہرین‘ پنڈی سے اسلام آباد کی جانب دوڑ پڑے اور امریکی سفارتخانہ جلا دیا۔ایسا اسلام آباد میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔چار اور پانچ جولائی 1980ء کو ہزاروں شیعہ مظاہرین نے‘ زکوٰۃ و عشر آرڈیننس میں‘ ترمیم کے لئے اسلام آباد سیکرٹریٹ کے سامنے پرامن دھرنا دیا۔ کارِ سرکار مفلوج ہوگئی۔ حکومت نے زکوٰۃ کی کٹوتی نہ کرنے کا مطالبہ تسلیم کرلیا۔اسلام آباد اس طرح سے پہلے کبھی نہیں جھکا تھا۔17اگست 1989ء کو جنرل ضیا الحق کی پہلی برسی کے موقع پر‘ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت نے‘ وفاقی دارالحکومت کا امن برقرار رکھنے کے لئے ناکہ بندی کردی مگر آئی جے آئی کے ہزاروں حامیوں نے‘ نواز شریف کی قیادت میں دارلحکومت پر یلغار کردی۔وزیرِ داخلہ چوہدری اعتزاز احسن نے ‘راستہ دے دیا اور فاتحہ خواں پرامن انداز میں‘ ضیا الحق کی برسی منا کر منتشر ہوگئے۔بے نظیر بھٹو نے اسلام آباد پر اپنی حکومت کے دور میں اپوزیشن کی یلغار کو اگرچہ پسند نہیں کیا مگر جب خود اپوزیشن میں آئیں تو پسند کیا اور 16نومبر 1992ء کو شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ لے کر اسلام آباد میں داخل ہوئیں اور پھر 16 جولائی 1993ء کو دارلحکومت کا محاصرہ ‘تب تک رکھا جب تک جنرل وحید کاکڑ نے‘ غلام اسحاق خان اور نواز شریف نامی بے نظیر کے دونوں سیاسی حریفوں کو چلتا نہیں کردیا۔اور پھر مارچ 2007ء میں‘ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی کے بعد پہلی بار پاکستان کی کوئی بھی احتجاجی تحریک کراچی یا لاہور کے بجائے‘ اسلام آباد سے پھوٹی۔ اب تک‘ گولی پاکستان کے دیگر شہروں میں ہی چلتی آئی تھی مگر جولائی 2007 ء میں لال مسجد آپریشن نے پرامن اسلام آباد کی کلغی بھی اتار لی۔جب باقی پاکستان دھماکوں اور خودکش حملوں سے گونج رہا تھا۔ اسلام آباد میں تب بھی دہشت گردی کی چھٹ پھٹ گھٹنائیں ہی گھٹ رہی تھیں۔ لیکن پھر مصری سفارتخانے پر حملہ ، ڈینش سفارتخانے کا دھماکہ، میریٹ ہوٹل کا ٹرک بم سے اڑنا، گورنر سلمان تاثیر کا قتل، ایر بلیو اور بھوجا ائیر کے شہر کے اوپر فضائی حادثے، 14 جنوری 2013ء کا طاہر القادری کا پہلا چار روزہ محاصرہ، 14اگست 2014ء کو طاہر القادری کا دوسرا محاصرہ اور تحریکِ انصاف کی جانب سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے طویل 126 روزہ دھرنااور اب ممتاز قادری کے بدلے کے لئے‘ بے چین پرجوش سنی جوانوں کی جانب سے ڈی چوک پر ‘جملہ اقسام کی بازار سے بارعایت گالیوں سے بھرا دھرنا شو۔غرض اسلام آباد ایک کے بعد ایک امتحان سے گزرتا جا رہا ہے۔ جانے ایوب خان نے کیا سوچ کر اتنا خرچہ کیا؟ جس بے ادب جنتا سے دور رہنا مقصود تھا اس نے تو محلات کے سامنے بھی اجابتی رستے بنا لیے ؟ جائیں کہاں اب اور ؟یہاں تک تو آ گئے۔‘‘
دیکھا؟سکول میں کھیل کود کے ایک میدان سے نکلا جھگڑا‘ کہاں تک جاتا ہے؟ یہ کھیل کہاں تک جاتا ہے؟ اس کے انجام کا کسی بھی حکمران کو پتہ نہیں چلا۔ ایوب خان کو بھی نہیں چلا اور نوازشریف کو بھی نہیں چلے گا۔