دہشت گردوں کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں … محمد عبداللہ حمید گل
مملکت خداداد پر خدا تعالیٰ کی خصوصی عنایات ہیں کہ انتہائی اہم محل وقوع کے سب دنیاکے تمام ممالک کاہمیشہ سے اس کی طرف جھکاؤرہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن عناصر خصوصی طور پر ہنود و یہود گٹھ جوڑ کا مقصد صرف اور صرف ریاستِ پاکستان کونقصان پہنچانا رہا ہے۔ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں سمیت طالبان کی عبوری حکومت کی پاکستان کے حوالے سے سرد مہری ہماری قومی سلامتی اور خودمختاری کیلئے نئے چیلنجزکا باعث بن رہی ہے۔ نو مئی کو منظم طریقے سے ریاستی اداروں اور عسکری تنصیبات پر حملوں کے بعدسے عساکرِ پاکستان مسلسل دشمن کے ٹارگٹ پر ہیں۔ شمالی وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک میں ہونے والی ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے ڈانڈے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں ٹی ٹی پی کے سزایافتہ دہشت گردوں کو آزاد کردیاگیا اور ان40 ہزار افراد کو ملک میں بسانے کی بات بھی کی جاتی رہی۔
حالیہ دنوں میں ریاستی اداروں پر یکے بعد دیگرے حملے کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش کی بڑھتی قربتوں کا شاخسانہ ہے۔ جبکہ طالبان حکومت بھی دوحہ امن معاہدے کی پاسداری کرنے کے بجائے احسان فراموشی کی انتہا کرتے ہوئے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہے۔ افغان عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کوئی دہشت گرد نہیں ہیں‘ اگر پاکستان کے پاس ثبوت ہیں تو دکھائیں‘ ہم کارروائی کریں گے۔ ذبیح اللہ مجاہد شاید یہ بھول رہے ہیں کہ داسو بس حملے میں ملوث ٹی ٹی پی کمانڈر طارق سواتی عرف ”بٹن خراب ‘‘ افغانستان میں ہی مارا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ٹی ٹی پی کے متعدد دہشت گردوں کی افغان سرمین پرہلاکتیں ان کی وہاں موجودگی کے واضح ثبوت ہیں۔ 29 اگست2019ء کو کالعدم تحریک طالبان کی خودکش بریگیڈ کے کمانڈر قاری حسین اور قاری سیف اللہ محسود افغانستان کے شہر خوست میں مارے گئے۔ 3 جنوری2022ء کو مفتی خالد بلتی عرف محمد خراسانی مشرقی ننگر ہارمیں ہلاک ہوا۔ 31 جولائی 2022ء کو القاعدہ کے لیڈر ایمن الظواہری کی ہلاکت ایک امریکی ڈرون حملے میں ہوئی۔ اگست 2022ء میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث ٹی ٹی پی وزیرستان کا کمانڈر یاسرپراکے‘ جس کا تعلق صادق گروپ سے تھا اور جو سینکڑوں ٹی ٹی پی دہشت گردوں کو ٹریننگ دینے کے علاوہ طالبان کے ساتھ بھی رابطے میں تھا‘قندھار میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مارا گیا۔ 8 اگست 2022 ء کو ٹی ٹی پی انٹیلی جنس چیف عبد الرشید عرف عقابی کنہار میں مارا گیا۔ 8 اگست ہی کو عمر خالد خراسانی ماسٹر مائنڈ آف اے پی ایس‘ مفتی حسن اور حافظ دولت خان کے ساتھ مشرقی پکتیکا میں ایک بم حملے میں جہنم واصل ہوا۔ 29ستمبر2022ء کو ٹی ٹی پی لیڈر اختر خلیل ننگرہار میں مارا گیا۔ 27 اکتوبر 2022ء کو ٹی ٹی پی کمانڈر اسد اللہ پہلوان قندھار میں ہلاک ہوا۔ 26جون 2023ء کو سربکف محمد افغان سر زمین پر پراسرار طور پر مارا گیا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی اس وقت کئی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور اس کے کئی کمانڈرز اپنے اندرونی اختلافات کی بنا پر افغانستان میں ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردی کے بھارتی فنڈڈتربیتی کیمپ افغانستان میں اب بھی جاری ہیں جہاں دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کیلئے تربیت دی جاتی ہے۔ ٹی ٹی پی کا ایک کیمپ قندھار میں الفاروق ٹریننگ کیمپ کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ درجنوں دہشت گرد پکتیکا میں بھی رہائش پذیر ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد آزادانہ طور پر قندھار، کنہار اور کابل کی گلیوں میں فنڈز اکٹھے کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ پاک افغان سرحد پر ہوئے حملے کے بعد پاک فوج کی جوابی کارروائی میں 15 دہشت گرد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ زخمی دہشت گرد واپس افغانستان کی طرف بھاگ گئے۔
کہا جاتا ہے کہ احسان فراموش سب سے پہلے اپنے محسن کو نشانہ بناتا ہے اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے اس مقولے کو سچ کر دکھایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب پوری دنیا نے ان سے منہ پھیر لیا تھا‘ تب بھی پاکستان نے افغانوں کو تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ 1979ء میں روسی فوج کی افغانستان میں مداخلت سے لے کر طالبان کے دسرے دور تک‘ 1951ء کے عالمی کنونشن اور 1967ء کے مہاجرین پروٹوکول پر دستخط کیے بغیر محض جذبۂ انسانی ہمدردی، بھائی چارے اور ہمسائیگی کے پیشِ نظر 60 لاکھ افغانوں کو اپنے ہاں پناہ د ی۔ پاکستان میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی تعداد محض 14 لاکھ تھی‘ آٹھ لاکھ 80 ہزار افغانوں کو سکونت کارڈ دیا گیا جبکہ چار سے پانچ لاکھ ایسے افغان تھے جن کی کسی قسم کی رجسٹریشن نہیں ہوئی تھی۔ متعدد مہاجرین کی دوسری‘ تیسری نسل بھی یہاں آباد ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی جانب سے افغانستان میں صحت عامہ کی سہولتوں کیلئے تین بڑے ہسپتال بھی قائم کیے گئے۔ جناح ہسپتال کابل، کڈنی سنٹر جلال آباد اور امین اللہ خان ہسپتال لوگر ۔ پاکستان نے بیشتر تعمیراتی منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں۔ پلوں، شاہراہوں کی تعمیر کے علاوہ بجلی اور ٹیلی کام کے شعبوں میں بھی بھرپور تعاون کیا۔ 4 ہزار افغان طالبعلموں کو سکالر شپس کی فراہمی، رحمان بابا سکول اور کابل میں بوائز ہاسٹل، علامہ اقبال فیکلٹی آف آرٹس کابل یونیورسٹی، سر سید سائنس بلاک ننگرہار یو نیورسٹی جلال آباد، لیاقت علی انجینئرنگ بلاک بلخ یونیورسٹی مزار شریف اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ زراعت، بینکنگ، ریلوے، عسکری و ڈپلومیسی شعبہ جات میں فنی و مالی معاونت فراہم کی۔ 2017ء میں 59 افغان میڈیکل پروفیشنلز سمیت ڈاکٹروں، نرسوں اور ٹیکنیشنز کو تربیت دی گئی۔
پاکستان افغانستان کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ افغان وزارتِ فنانس کے مطابق 22دسمبر 2017ء سے دسمبر 2018ء کے دوران پاک افغان تجارت 1437ملین امریکی ڈالر تھی۔ 8سے 10ہزار مریض ہر روز افغانستان سے پاکستان میں علاج کیلئے آتے ہیں۔ روزانہ 20 سے25ہزار افغان شہری طورخم، غلام خان، کار لا ی، چمن اور شمس الزئی کراسنگ پوائنٹس سے بارڈر پار کرتے ہیں۔ ماضی میں افغان عوام کی امداد کیلئے پاکستان نے ہزاروں میٹرک ٹن گندم افغانستان بھجوائی۔ بدلے میں انہوں نے کیا دیا؟دہشت گردی‘ پاکستانی چوکیوں پر حملے‘ بھارتی ایما پرافغان سرزمین پر پاکستان مخالف سازشیں‘ پاکستان کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی اور دہشت گردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان کی جانب سے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کم ہی دیکھنے میں آیا۔ آج بھی شر پسند عناصر سرحد پار کر کے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور پھر واپس افغانستان فرار ہوجاتے ہیں۔ بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہانے والوں کو وہاں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ پاکستان نے ”امن عمل ‘‘کیلئے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر طالبان حکومت کے ترجمان نے یہ باور کرایا کہ ان کا پاکستان سے نہیں‘ امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دوحہ امن معاہدے میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کی اس مثبت امن کاوش کو سراہا گیا۔ معاہدے سے قبل دوحہ میں مائیک پومپیو نے پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے خصوصی ملاقات کی تھی اور امن معاہدے کا لائحہ عمل طے کیا تھا۔ گلبدین حکمت یار نے بھی افغانستان میں امن کی بحالی میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا تھا۔
مغرب اور بھارت خطے کو غیر مستحکم کرنے کے اپنے مذموم منصوبوں میں ٹی ٹی پی کو استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کی چین اور ایران سے بڑھتی قربتوں نے ان کو بے چین کر رکھا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اقتصادی راہداری منصوبے اور گوادر بندرگاہ معاہدوں پر شدید تشویش کا شکار ہیں۔ اسی لیے بھارت نے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں اپنا گہرا جال پھیلا رکھا ہے۔ پاکستان مخالف افغان بیورو کریسی اور انٹیلی جنس آپریٹرز کے ذریعے خطے کے امن کو برباد کیا جا رہا ہے۔ طالبان حکومت پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کی افغانستان میں قیام امن کیلئے دی جانے والی قربانیوں کا ادراک کریں اور بھارت کے ہاتھو ں میں نہ کھیلیں۔