غالب نے کہا تھا ع
کام اچھا ہے وہ‘ جس کاکہ مآل اچھا
ہم کہ ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کے عادی ہیں‘ عمران خان کی طرف سے دھرنا ختم کرنے اور یوم تشکر منانے پر آزردہ ہیں۔ وہ لوگ سب سے زیادہ برہم ہیں جن کا خیال تھا کہ عمران خاں اپنے کارکنوں کے ساتھ پارلیمنٹ ہائوس‘پاک سیکرٹریٹ‘ عدالت عظمیٰ اور وزیر اعظم ہائوس پر حملہ کریں گے۔ نیا سانحہ ماڈل ٹائون برپا ہو گا اورفوج آئین‘پارلیمنٹ اور حکومت کی بساط لپیٹ دے گی۔ نواز شریف کی طرح عمران خان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا اور ان کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گا۔
تحریک انصاف اور عمران خان کی کمزوریوں خامیوں اور حکمت عملی کے نقائص سے پہلے بھی دنیا واقف تھی۔ اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کے اعلان کے بعد یہ مزید کھل گئے مثلاً حکومت کی طرف سے مظاہرین کو سختی سے روکنے کے واضح اعلان کے باوجود اپنے کارکنوں کی قابل ذکر تعداد کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے محفوظ مقامات تک قبل از وقت نہ پہنچانا ‘ اہم لیڈروں کا اپنے حلقہ انتخاب کو چھوڑ کر بنی گالہ کے محفوظ قلعے میں پناہ گزین ہونا‘ پنجاب کے اہم شہروں ملتان‘ فیصل آباد‘ لاہور‘ سیالکوٹ وغیرہ میں کسی بھی مقام پر کوئی سرگرمی نظر نہ آنا‘ عمران خان کا حکومتی دبائو یا اپنی کسی مصلحت کے تحت بنی گالہ سے باہر نکل کر اپنے پرعزم کارکنوں کے ساتھ کھڑا نہ ہونا‘ کارکنوں کو پنجاب کی خونخوار پولیس اور ایف سی کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا اورآخری مراحل میں اپنے حلیفوں سے مشورہ نہ کرنا ایسی سیاسی غلطیاں ہیں جو تحریک انصاف کی قیادت سے سرزد ہوئیں ۔پرویز خٹک اور اس کے کارکنوں کے علاوہ عندلیب عباس‘ ولید اقبال ‘ حماد اظہر جیسے انصافیوں نے کفارہ ادا کیا۔ عمران خان اگر دو چار لاٹھیاں کھا کر گرفتار ہو جاتے تو کارکنوں کے حوصلے اورجوش و خروش میں اضافہ ہوتا‘ حکومت پر دبائو بڑھتا اور کپتان کے سینئر ساتھیوں کو بھی شرم محسوس ہوتی کہ وہ بھی آگے بڑھیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کپتان نے اسلام آباد پر چڑھائی کے اعلان سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کیے اور حکومت نے تحریک انصاف کا راستہ روک کر کامیابی حاصل کی۔
ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ تحریک انصاف نے 30ستمبر کے جلسے میں وزیر اعظم نواز شریف کو تیس دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس عرصہ میں حکمران اپنے احتساب پر آمادہ نہ ہوئے ‘ پاناما لیکس پر کسی ادارے نے ٹھوس‘ قابل اعتماد اور موثر کارروائی شروع نہ کی تو وہ 2نومبر(پہلے یہ تاریخ30اکتوبر تھی)کو اسلام آباد میں داخل ہو کر شہر بند کر دیں گے۔ یہ ایک سیاسی اعلان تھا اور چھ ماہ تک احتساب سے بچنے کی حکومتی حکمت عملی سے ناراض سیاستدان کی طرف سے حکمرانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن سے مل کر کرپشن کے اس میگا سکینڈل سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں نہ عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب‘ عمران خان کا یہ کریڈٹ ہے کہ اس نے حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو پاناما سکینڈل پر مٹی ڈالنے کا موقع نہ دیا۔ عمران خان نے تیس ستمبر کے جلسہ میں بھی ”احتساب ورنہ استعفیٰ‘‘ کا نعرہ لگایا اور بعد میں بھی اس کی تکرار کی۔ احتساب کی جگہ تلاشی کا لفظ بھی استعمال ہوا۔ 3اپریل سے لے کر 31اکتوبر کی شام تک میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا موقف یہ تھا کہ (1)میاں نواز شریف کی کسی‘ آف شور کمپنی کا ذکر پاناما پیپرز میں نہیں‘ لہٰذا احتساب کے حوالے سے ان کا نام لینا گناہ ہے۔ (2)شریف خاندان کے جن لوگوں پر پاناما پیپرز میں فرد جرم عائد ہوئی وہ جوڈیشل کمشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ گزشتہ ستر سال کے دوران قرضے معاف کرانے‘ آف شورکمپنیاں بنانے اور ٹیکس چوری کرنے والوں کو بھی احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے۔(3) وزیر اعظم اس بات پر بھی مصر تھے کہ جوڈیشل کمشن 1956ء کے ایکٹ کے تحت اور حکومت کے فراہم کردہ ٹی او آرز کے مطابق تشکیل پائے گا جس کی فائنڈنگز کو تسلیم کرنا نہ کرنا اس کا صوابدیدی اختیار ہو گا اور رپورٹ کی اشاعت کا فیصلہ بھی حکومت کرے گی۔ ان ٹی او آرز کے تحت بارثبوت شریف خاندان کے مخالفین پر ہو گا اور کمشن‘ حکومت کے طے کردہ دائرہ کار سے باہر قدم رکھنے کا مجاز نہیں ہو گا۔
اب مگر طے یہ پایا ہے کہ کمشن سپریم کورٹ کے اختیارات سے لیس ہو گا۔ وزیر اعظم اور ان کے خاندان سے جواب طلبی کا مجاز اور دائرہ کار خود طے کرنے میں با اختیار۔ وزیر اعظم اور ان کا خاندان کمشن کا فیصلہ تسلیم کرنے کا پابند ہو گا اور غالباً کمشن مجرموں کو سزا دینے پر بھی قادر ہو گا۔ کیا یہ عمران خان کی کامیابی ہے یا حکومت اور وزیر اعظم کی؟ کیا اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی دے کر کوئی بڑا نقصان کرائے بغیر عمران خان نے وزیر اعظم کے احتساب کا مطالبہ منوا نہیں لیا؟ اور میاں نواز شریف کو نہ صرف اپنے احتساب کے لیے عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہونے بلکہ فیصلہ ماننے پر مجبور نہیں کر دیا؟ یہ احتجاج کا دبائو ہے جس کی وجہ سے سرکاری وکیلوں نے عدالت کے دائرہ سماعت کا سوال اٹھایا نہ عدالت نے غور کیا ورنہ کئی ہفتے تو ان موشگافیوں میں گزر جاتے۔ اب بھی اگر سماعت اور فیصلے میں تاخیر ہوئی تو ذمہ دار عمران خان نہیں وہ نظام اور ادارہ ہو گا جس پر احتساب کے خواہش مند احتجاجی کارکنوں نے اعتماد کیا۔ ویسے میرا خیال ہے کہ ضامن تاخیر ہونے نہیں دیں گے۔ یکم نومبر کو دوران سماعت وکیل سرکار کے علاوہ شریف خاندان کے وکلاء نے عدالت عظمیٰ کے سوالات کا دو ٹوک جواب دینے کے بجائے مہلت حاصل کرنے کی کوشش کی جو عدالت نے نہیں دی کیونکہ یہ معاملے کو لٹکانے کی سعی تھی ۔مہلت کس مقصد کے لیے حاصل کی جا رہی تھی اور کون کرتا ہے؟
سیاسی محاذ پر عمران خان کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے ایک ماہ کے دوران موجودہ سیاسی‘ انتخابی‘ قانونی اور سماجی ڈھانچے کو بُری طرح ایکسپوز کیا‘ عوام کو شعور دیا کہ یہ ظالمانہ نظام تبدیل نہ ہوا تو تمہاری اگلی کئی نسلوں پر ذلت‘ رسوائی اور غلامی مسلط رہے گی؛ تاہم نظام سے متنفر کرنے کے بعد اس نے انارکی پھیلانے کے بجائے اصلاحات کا راستہ دکھایا۔ عوامی احتساب کے بجائے قانونی و عدالتی طریقے سے احتساب پر تیار ہو گیا۔ مخالفین شایَد یہ راستہ بند کر کے اس طرز کے احتساب کی خواہش رکھتے ہیں جو فرانس اور ایران میں ہوا۔ عمران خان نے اس حکومتی پروپیگنڈے کو غلط ثابت کیا کہ وہ موجودہ جمہوریت‘ عدلیہ اور حکومت کی بساط لپیٹ کر ملک میں مارشل لاء لگوانا چاہتا ہے۔ ماضی میں بطور اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعظم‘ میاں نواز شریف نے کبھی اس احتیاط ‘ لچک‘ فراخدلی اور ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیاجو گزشتہ روز اپوزیشن کے سر پھرے رہنما نے دکھائی۔ وفاقی اور پنجاب حکومت نے خیبر پختونخوا کے منتخب وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے قافلے کو روکنے کے لیے پنجاب پولیس اور ایف سی کو استعمال کر کے غیر آئینی اور غیر جمہوری مداخلت کی راہ ہموار کی‘ وفاق کے تصوّر کو پامال کیامگر عمران خان نے یہ سازش ناکام بنا دی۔27اکتوبر سے یکم نومبر کے دوران حکومت کی جمہوریت پسندی کا پردہ چاک ہوا ‘ چادر اور چار دیواری کی مٹی پلید ہوئی‘ خواتین پر تشدد ہوا جس کا ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نوٹس لیا۔ کیا یہ عمران خان کی کامیابی اور حکمران خاندان کی ناکامی و بدنامی نہیں؟ مسلم لیگیوں کی طرف سے عمران خان کو بزدلی کا طعنہ سجتا نہیں‘ ہر بحران میں میاں نواز شریف کا بیرون ملک سدھار جانا اور فوجی آمر پرویز مشرف سے دس سالہ معاہدہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ عمران خان تو بنی گالہ میں موجود رہا اور کبھی چھپا نہ بھاگا۔
پیپلز پارٹی تباہ کن ٹکرائو کے بجائے فریقین کے دانشمندانہ طرز عمل اور فوج کے بجائے عدالت عظمیٰ کی مداخلت پر سب سے زیادہ دکھی ہے۔ وہ دو سیاسی حریفوں کی لڑائی سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ‘ اسے دونوں کے لڑ کر کمزورہونے اور اپنا اُلّو سیدھا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ صدمہ قابل فہم ہے ع
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے
عمران خان کو جشن منانے کے بعد اپنے ان لیڈروں کو مرغا ضرور بنانا چاہیے جو اپنے حلقہ نیابت میں کارکنوں کو متحرک اور احتجاج پر آمادہ کرنے کے بجائے بنی گالہ میں بیٹھ کر چاپلوسی سے اپنی ناکامی چھپاتے رہے۔ شہاب الدین غوری ہوتے تو اُن کے منہ پر تو بڑے چڑھاتے۔فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔
پسِ تحریر: عمران خان پیچھے کیا ہٹے حکومت نے میڈیا پر تشہیری مہم بند کر دی۔ کھیل ختم‘ پیسہ ہضم۔