قربانی کا بکرا اورکنٹینر پالیٹکس
قربانی کا بکرا تو مل گیا‘ وعدہ معاف گواہ کے بارے میں اللہ بہتر جانتا ہے۔
کنٹینر کا یہ استعمال بنانے والوں نے بھی نہ سوچا ہو گا۔ راستے بند کرنے اور سیاسی کارکنوں کی آمدورفت روکنے کے لیے کنٹینروں کا استعمال جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا‘ جنرل پرویز مشرف فوجی آمر تھے‘ قابل نفرت اور ناقابل قبول ٹھہرے مگر ہمارے جمہوریت پسندوں نے اس کی روایات‘ باقیات اور اقدامات کو گلے سے لگایا۔ طلال چوہدری‘ دانیال عزیز کے علاوہ مخالفین کی آمدروفت روکنے کے لیے کنٹینر پرویز مشرف کا وہ قابل قدر ورثہ ہے جس کی موجودہ حکومت امین ہے۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ نفرت جرم سے ہونی چاہیے مجرم سے نہیں مگر ہمارے جمہوری حکمران پرویز مشرف سے نفرت کرتے ‘ اس کے غیر جمہوری‘ غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات‘ رویوں اور پیروکار ساتھیوں کو چوم چاٹ کر سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی طویل حکمرانی کا راز یہی اقدامات اور بڑبولے مگر چاپلوس ساتھی تھے۔ آئین‘ قانون‘ جمہوریت اور اصولی سیاست جائے بھاڑ میں‘ طویل حکمرانی کے مزے لوٹنے ہیں تو وہی کرو جو ان فوجی آمروں نے کیا اور مشیر بھی وہی اچھے جو دور آمریت میں سیاسی اُفق پر اُبھرے۔
جنرل پرویز مشرف نے صرف کنٹینروں کا سیاسی استعمال نہ کیا بلکہ اُس نے بین الصوبائی رابطے منقطع کرنے کی روایت بھی ڈالی‘ ایک صوبے کے سیاستدان کا دوسرے صوبے میں داخلہ روکنے کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی میں ہوا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ
سردار شیر باز خان مزاری کے پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ سندھ اور کراچی میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی جس پر اس شریف النفس سیاستدان نے واویلا کیا کہ میں اب کہاں جائوں؟۔ میرا آبائی گھر پنجاب میں ہے اور رہائش کراچی میں‘ مگر دونوں جگہ جانے پر پابندی ہے۔ پرویز مشرف ایک قدم آگے بڑھے اور اُس نے عدلیہ تحریک کے دوران اہم شخصیات کے علاوہ سیاسی کارکنوں کے دوسرے صوبوں میں داخلے پر پابندی لگائی کہ وہ بذریعہ سڑک داخل نہ ہو سکیں۔تجربہ کار سیاسی کارکن تو کسی نہ کسی طرح پولیس کو جُل دے کر یا خفیہ راستوں سے نکل جاتے مگر عام مسافروں کی کم بختی آ جاتی۔ عدلیہ بحالی تحریک نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو آصف علی زرداری کی حکومت نے بھی چاروں صوبوں کے وکلا اور سیاسی کارکنوں کا اسلام آباد میں داخلہ روکنے کے لیے بین الصوبائی رابطہ سڑکیں بند کر دیں وکلا کے رہنما علی احمد کرد کے قافلے کو پنجاب میں داخل نہ ہونے دیا گیا اور رشید رضوی سمیت کراچی کے وکلا سے بھی یہی سلوک ہوا۔ میاں نوازشریف رکاوٹیں اور دفعہ 144 توڑ کر لاہور سے نکلے‘ تحریک نجات کی طرح لانگ مارچ کے دوران بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں نے شہر بند کرائے اسلام آباد کی بندش کا یہ عالم تھا کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جی ایچ کیو سے ایوان صدر آنے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرنا پڑا‘ کیونکہ دونوں شہروں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ کسی کو شہریوں کے حقوق اور تکالیف کا خیال رہا نہ عوام کی آزادانہ آمدروفت پر قدغن‘ غیر قانونی نظر آئی اور نہ یہ یاد رہا کہ وفاقی دارالحکومت کی سڑکوں‘ گلیوں‘ بازاروں اور کاروبار کی بندش سے پاکستان دنیا بھر میں مذاق بن جائیگا۔آج جو لوگ عمران خان کے لتّے لے رہے ہیں تب میاں نواز شریف کی کال اور حکومت کے حکم پر اسلام آباد کی بندش کو جمہوریت کی کامیابی قرار دے رہے تھے۔یہ رونا رویا جاتا ہے کہ فوجی مداخلتوں نے جمہوریت کو پروان نہیں چڑھنے دیا‘ مگر کوئی غور نہیں کرتا کہ جمہوریت کے فروغ و استحکام میں رکاوٹ فوجی مداخلت سے زیادہ منتخب سویلین حکمرانوں کا آمرانہ طرزعمل اور اپنے اپنے دور میں فوجی حکمرانوں کے غلط‘ غیر قانونی‘ غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات‘ فیصلوں اور انداز کار کی پیروی ہے اگر ضیاء الحق کے عہد میں سندھ اور خیبرپختونخوا کے کارکنوں اور لیڈروں کا پنجاب یا اسلام آباد میں داخلہ بند کرنا غلط ہے‘پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے دوران کنٹینر لگا کر سیاسی مخالفین کے اجتماعات اور ریلیوں کو ناکام بنانا غیر جمہوری عمل تو آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے دوراقتدار میں یہی کام سو فیصد درست اور قابل فخرکیسے؟۔ کسی جمہوریت پسند کو بُرا لگتا ہے‘ نہ قانون کی حکمرانی کے علمبردار کا ضمیر جاگتا ہے‘ یہ وہ تضادات ہیں جو جمہوریت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے نہیں دیتے۔ فوجی آمریت اور جمہوریت میں فرق کا پتہ بھی تو چلے۔ ایک فرق البتہ سب کو معلوم ہے کہ اعلیٰ سطح پر لوٹ مار نام نہادجمہوری ادوار میں بڑھ جاتی ہے اور اقرباء پروری اور خاندانی اقتدار کا تاثر بھی۔ صرف تاثر نہیں‘ عملاً صورتحال یہی ہے حکمران خاندان کے کم عمر بچے بھی اقتدار و اختیار اور قومی وسائل کے مالک ہوتے ہیں یہ ہمت فوجی حکمرانوں کو نہیں ہوتی۔ حکمرانی کا جواز تلاش کرتے ہوئے شاید انہیں اپنے بچوں‘ بھانجوں‘ بھتیجوں اور دور پرے کے رشتہ داروں کو دل کھول کر نوازنا یاد نہیں رہتا۔اگر ضیاء الحق اور پرویز مشرف یہ بے وقوفی نہ کرتے تو زرداری+ بھٹو خاندان اور شریف خاندان کے بجائے ضیاء الحق اور پرویز مشرف خاندان کی باریاں لگی ہوتیں۔
دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ عمران خان کی ساری جدوجہد 2018ء سے پہلے پہلے انتخابات کرانے کے لیے ہے کیونکہ اُسے اندازہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت 2018ء میں داخل ہو گئی تو پھر اگلا الیکشن بھی نوازشریف پارٹی جیتے گی۔ وجہ پاور پراجیکٹس اور موٹروے‘ میٹرو بس‘ اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبوں کی تکمیل ہے جس سے متاثر ہو کر عوام ”شیر‘ اک واری فیر‘‘ …کا نعرہ لگاتے ہوئے پولنگ سٹیشنوں کا رُخ کریں گے اور مسلم لیگ نون کی کامیابی کی راہ ہموار ہوگی۔ 2018ء میں انتخابات جیتنے کا یقین اور 2016ء میں ہیجان و اضطراب‘ اعصاب شکنی کا یہ عالم؟ یہ عالم ”خوف‘‘ کا دیکھا نہ جائے۔ پُراعتماد حکمران لاٹھی گولی کا سہارا لیتے ہیں نہ مخالفین کی جمہوری سرگرمیوں کو روک کر جگہ جگہ اپنے کارناموں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں‘ تشہیری مہم اور میاں صاحب کے جلسوں کے علاوہ اُن کے تلخ نوا ساتھیوں کی باتیں سُن کر تو لگتا ہے کہ انہیں اپنی بقیہ مدت پوری ہونے کا یقین نہیں‘ تبھی ہوا میں تیر چلا رہے ہیں ۔
1996ء میں بے نظیر بھٹو یہ نعرہ لگا کر انتخابی میدان میں اُتری تھی کہ اُس نے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر دی ہے۔ بات درست تھی مگر عوام نے ووٹ نہ دیئے کل سترہ نشستوں پر جیتی اور قائد حزب اختلاف بننے کے لیے بھی محترمہ کو میاں صاحب سے مفاہمت کرنا پڑی۔ 2008ء کے انتخابات سے پہلے وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو بھی یہی زعم تھا وہ قومی اسمبلی کی 117 نشتیں جیتنے کا دعویٰ کرتے تھے۔ ترقیاتی منصوبے اُن کے بے مثال تھے‘ ایک دو شہروں کے بجائے انہوں نے دیہی علاقوں پر توجہ دی جنوبی پنجاب میں جتنے زیادہ ترقیاتی کام پرویز الٰہی دور میں مکمل ہوئے باید و شاید مگر انتخابی نتائج برعکس نکلے۔
2018ء تک پہنچنے کے لیے تحمل‘ تدبر‘ دوراندیشی اور ٹیم ورک کی ضرورت ہے‘ جس کا فقدان نظر آتا ہے۔ حقیقی اپوزیشن سے تصادم‘ فوج سے محاذ آرائی‘ سفارتی سطح پر تنہائی‘ احتساب اور جوابدہی سے فرار اور میگا پراجیکٹس میں کرپشن کی کہانیاں۔ اس زاد سفر کے ساتھ حکومت کا مدت پوری کرنا مشکل ہے کجا کہ 2018ء کا سنگ میل طے ہو۔ فوج کے ساتھ محاذ آرائی کا شوق ہے‘ تاکہ ایک بار پھر سیاسی شہادت نصیب ہو مگر ہمت اور حوصلہ نہیں۔ ورنہ بے چارے پرویز رشید کو قربانی کا بکرا نہ بناتے۔ سقوط جاپان کے بعد فاتح امریکی جنرل میکارتھر نے شہنشاہ ہیرو ہیٹو کو فوجی اور سرکاری افسروں کے علاوہ وزراء کی ایک فہرست پیش کی جن پر وہ جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلانا چاہتا تھا۔ شہنشاہ نے فہرست پر خط تنسیخ کھینچا اور اوپر اپنا نام لکھا۔ کہا ”یہ میرے احکامات کے تحت سب کچھ کر رہے تھے جنگی مجرم میں ہوں‘ چلائو مقدمہ‘‘ ہمارے قسمت میں تو بڑبولے حکمران ہیں یر کالوجی کے فن میں طاق۔یرکائو‘ کوئی نہ یرکے تو خود یرک جائو اور قربانی کا بکرا آگے کر دو۔اصلی شہنشاہیت اور لنڈے کی بادشاہت میں یہی فرق ہے۔ حقیقی جمہوریت میں بھی لیڈر قربانی دیتا اور قوم کا مستقبل سنوارتا ہے مگرہمارے ہاں قربانی کے بکرے ‘ ڈھونڈے جاتے ہیں قربانی کا بکرا تو مل گیا وعدہ معاف گواہ کے بارے میں اللہ بہتر جانتا ہے۔