جناب پرویز رشید پر پہلی بار ترس اُس وقت آیا تھا جب اُنہوں نے لندن کے اُس محلّے کی برائی کی جہاں بقول ان کے عمران خان کے بچے رہتے ہیں۔
”صرف اُس ایریا کا نام لے لیں جہاں خان صاحب کے بچے پل رہے ہیں۔ میں اُس ایریا کا نام نہیں لوں گا کیونکہ مسلمان کی زبان پر وہ نام آ جائے تو وضو کرنا پڑتا ہے۔ صرف اتنا بتاتا ہوں آپ کو‘ لیکن خان صاحب سے پوچھیے گا کہ اُس ایریے کا نام کیا ہے۔ خان صاحب اگر وہ نام بتا دیں تو انہیں بھی وضو کرنا پڑ جائے اگر وہ وضو کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
یہ ایریا مڈل سیکس کائونٹی ہے جو مغربی لندن میں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کائونٹی میں دو سے تین لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ مسجدیں بھی اسی تناسب سے ہیں۔
جناب پرویز رشید کا یہ بیان فوراً وائرل ہو گیا۔ لاکھوں آدمیوں نے یو ٹیوب پر دیکھا۔ دوسرے دن ایک صحافی نے مڈل سیکس کائونٹی کے رہنے والے مسلمانوں سے اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا : جناب پرویز رشید صاحب کے دیئے ہوئے فتویٰ پر ان لوگوں نے جو تبصرے کیے‘ وہ سوشل میڈیا پر موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے یہاں نقل نہیں کیے جا سکتے۔
ترس اس لیے آیا کہ ذہنی پستی کی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا ہے کہ آپ ایک بستی کے نام پر یہ فتویٰ دیں کہ اس کا نام لینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے یاد آیا کہ جناب پرویز رشید کے ”استعفیٰ‘‘ پر ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات اُن کی خدمات ان کے ایثار‘ ان کی قربانیوں‘ ان کی ذہانت اور ان کی قابلیت کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں!
ہنسی آتی ہے یہ سب کچھ سُن کراور دیکھ کرکیا ایک ایٹمی ملک کے وزیر اطلاعات کو یہ بھی معلوم نہیں کہ مڈل سیکس میں سیکس کا لفظ وہ نہیں جو جنسی معاملات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ وزیر اطلاعات کے پاس بے شمار محکمے ہوتے ہیں۔ ٹی وی‘ ریڈیو‘ پی آئی ڈی‘ انفارمیشن کے کئی ذیلی ادارے اور محکمے۔ ایک سے ایک لائق افسر موجود ہیں۔ کسی کو حکم دے دیتے کہ ذرا ریسرچ کر کے بتائو مڈل سیکس کا نام کیسے پڑا۔ مگر شاہ سے وفاداری اور عمران خان سے دشمنی میں اس قدر شدت اور تیزی اور بیتابی اور اضطراب اور تڑپ اور تپش اور کلبلاہٹ اور تلملاہٹ اور اختلاج اور جوش اور بے چینی اور اضطراب اور شوریدگی تھی کہ نتائج کی پروا کیے بغیر اور یہ سوچے بغیر کہ وہ ایک مشہور ملک کے وفاقی وزیر اور وہ بھی وزیر اطلاعات ہیں‘ پوری دنیا کے سامنے ایسا کمنٹ دے گئے جو بے بنیاد تھا اور جسے سُن کر ایک اوسط ذہانت والا شخص بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکا ہو گا!
خدا کے بندو! سیکس کا لفظ مڈل سیکس میں ”اینگلو سیکسن‘‘ سے آیا۔ اس کے اصل سپیلنگ Spelling یہ نہیں جو اب مستعمل ہیں یہ Middle Saxons تھا۔ قدیم انگریزی میں یہ Seaxe لکھا جاتا تھا۔ اس کا ماخذ اینگلو سیکسن ہے جو قبیلے کا نام تھا۔ Essex کا جو ایک الگ کائونٹی ہے‘ نام بھی اسی قبیلے کی مناسبت سے ہے۔ دلچسپ ترین حقیقت یہ ہے کہ مڈل سیکس صرف اُس ایک بستی کا نام نہیں جو لندن میں ہے اور جس کا ذکر سابق وزیر اطلاعات نے کیا‘ یہ دوسرے ملکوں میں بھی ہے۔ کینیڈا کے صوبے انٹاریو میں اسی نام کی کائونٹی ہے۔ جمیکا میں بھی ہے۔ امریکہ کی چار ریاستوں میں مڈل سیکس نام کی کائونٹی ہے۔ ورجینیا میں‘ نیو جرسی میں‘ میسا چوسٹس میں اور کنکٹی کٹ میں!
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وضو تو اُس جانور کا نام لینے سے بھی نہیں ٹوٹتا جو مسلمانوں کی ثقافت میں سب سے زیادہ ناپاک اور پلید سمجھا جاتا ہے۔ اس جانور کا نام قرآن پاک میں لیا گیا ہے اس حوالے سے کہ اس کا گوشت حرام ہے۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تراویح پڑھاتے وقت حافظ صاحب یہ آیت پڑھنے کے بعد وضو کرنے چلے گئے ہوں۔ چودہ سو سال میں یہ نہیں ہوا کہ کلام پاک کی تلاوت کرتے وقت اس لفظ کی وجہ سے کوئی اُٹھ کر دوبارہ وضو کرنے گیا ہو! چہ جائیکہ مڈل سیکس کے نام سے۔
دو تبصرے جناب پرویز رشید صاحب کے استعفیٰ پر دلچسپ ہوئے۔ ایک جناب ہارون الرشید صاحب کا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پرویز رشید صاحب اتھیسٹ ہیں۔ قائداعظم کا مذاق اڑاتے ہیں۔
خدا کو ماننا یا انکار کرنا یہ کسی بھی شخص کا ذاتی مسئلہ ہے مگر اس میں ایک فقہی موشگافی ضرور ہے اس کو وضو کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس لیے عمران خان کے وضو پر یقین کرنے کا مسئلہ ثانوی ہے۔ بنیادی مسئلہ اُن کا اپنا ہے۔ رہی قائداعظم کا مذاق اڑانے والی بات تو کم از کم وہ قائداعظم ثانی (جناب وزیراعظم) اور قائداعظم ثالث (جناب شہباز شریف) اور قائداعظم رابع (جناب حمزہ شہباز) کے تو عقیدت مند ہیں۔
اور ہاں! الحاد کے معاملے کو شاعروں نے تو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ حسن‘ الحاد اور ساتھ بے وفائی‘ معشوق میں یہ ساری صفات یکجا ہوں تو شاعر کی‘ جو عاشق بھی ہے‘ گویا عید ہو جاتی ہے۔ غالب نے تو جھگڑا ہی ختم کر دیا ؎
ہاں وہ نہیں خدا پرست! جائو وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز‘ اس کی گلی میں جائے کیوں
مگر مومن کے اعتراضات بھی کم نہیں ؎
کتنی ہی قضا ہوئیں نمازیں
پر سر کو نہ پائوں سے اٹھایا
آیا نہ کبھی خیال حج کا!
تلوا سو بار گر کھجایا
نیتّ ہی تھی توڑنے کی گویا
گر اس نے نماز میں ہنسایا
افسوس شکستِ صوم یک سو
صد شکر کہ اس نے ساتھ کھایا
دوسرا دلچسپ تبصرہ جناب سراج الحق کا ہے۔ خدا خدا کر کے سراج الحق صاحب نے حسِ مزاح کو بیدار کیا ہے ورنہ جناب منور حسن کے عہدِ ہمایونی میں تو یوں لگتا تھا کہ جماعت نے حس مزاح کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔ جیسے حشر میں حساب کتاب کے بعد موت کو مینڈھے کی شکل میں ذبح کر کے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جانا ہے۔ سراج الحق صاحب نے کہا کہ حکومت نے پرویز رشید کی قربانی تو دے دی مگر یہ نہیں سوچا کہ قربانی کے جانور کا بے عیب ہونا ضروری ہے!
جماعت اسلامی کی جو وابستگی شریعت کے ساتھ ہے‘ اس کے پیش نظر یہ فقہی مسئلہ کھڑا کر کے اس نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اب فقہا یہ بحث کریں کہ جانور کتنا بے عیب تھا اور کیا اس مشکل کا کوئی اجتہادی حل بھی نکل سکتا ہے؟ یہ مشکل اپنی جگہ مگر دوسری طرف کچھ اور سیاپے آن پڑے ہیں! مسلسل دگرگوں ہوتے حالات کے پیش نظر ایاز امیر صاحب نے مسئلے کے حل کی طرف ایک خفیف سا اور لطیف سا اشارہ کر دیا کہ جنرل وحید کاکڑ کا فارمولا آزمایا جا سکتا ہے۔ اس پر ایک باسی کڑھی کو اُبال آ گیا۔ پہلے تو باسی کڑھی نے یہ تذکرہ کرنا ضروری سمجھا کہ ایاز امیر لبرل ازم کے چیمپئن ہیں۔ گویا ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ! تجویز کا لبرل ازم کے مسئلے سے کوئی تعلق نہ تھا مگر اس کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ عناد کو کچھ افاقہ ہو جائے! مذہب کے ان خود ساختہ ٹھیکیداروں کو کون بتائے کہ اسلام نے جب خواتین کے حقوق کی آواز بلند کی تو تب بھی لبرل ازم کا طعنہ دیا گیا۔ ایک عورت آ کر عرض کرتی ہے کہ یارسول اللہ ﷺ! میں طلاق لینا چاہتی ہوں۔ پوچھا‘ کیا وجہ ہے‘ عرض کیا مجھے وہ پسند نہیں! اس پر آپ نے اور کوئی استفسار نہ فرمایا : کیا یہ روشن خیالی نہ تھی؟ بدّو مسجد نبوی کے صحن میں پیشاب کرتا ہے۔ لوگ اسے روکنے کے لیے دوڑتے ہیں مگر بے مثال برداشت کے مالک پیغمبر آخر الزمانﷺ فرماتے ہیں کہ رُکو۔ اسے پیشاب کرنے دو۔ جب وہ کر چکا تو فرمایا پانی بہا دو۔ اگر آج کوئی جاہل یا فاتر العقل اس طرح کرے تو خودساختہ ٹھیکیدار اسے مار ہی ڈالیں!
لبرل ازم کا کوسنا دینے کے بعد دلیل یہ دی گئی کہ اس قسم کی مداخلت جمہوری اصولوں کے خلاف ہو گی اور آئین سے متصادم ہو گی! ان بزرجمہروں سے کوئی پوچھے کہ جب ایک ایم این اے صوبے کا عملاً ڈپٹی چیف منسٹر بنتا ہے اور جب کئی ماہ کی غیر حاضری کے دوران حکومت کی سربراہی‘ شہزادی کے ہاتھ میں آ جاتی ہے جو صرف اور صرف بادشاہت میں ہوتا ہے تو اس وقت جمہوری اصول کہاں جاتے ہیں اور اُس وقت آئین کیوں نہیں یاد آتا؟ کیا ایک صوبائی حکمران کا وزیر خارجہ اور وفاقی وزیر توانائی کے فرائض سرانجام دینا آئین کی روح سے مطابقت رکھتا ہے؟
جناب ارشاد عارف نے کل یہی بات لکھی…”صورتحال پھر 1993ء سے مشابہ ہے مگر وحید کاکڑ فارمولا کی بات کرو تو جمہوریت دشمنی کا طعنہ ملتا ہے‘ حالات کا رُخ کوئی نہیں دیکھتا۔‘‘
ارشاد عارف صاحب سے گزارش ہے کہ کوئی ڈھال میسّر ہے تو آگے رکھ لیں کیونکہ خاندانی ”جمہوریت‘‘ کے محافظوں کے تیر اور بھالے اب اُن پر بھی نشانہ بازی کریں گے!!۔