ظہور احمد وفاقی سیکرٹری اطلاعات بنے تو کچھ صحافیوں نے پوچھا کہ ظہور احمد کون ہیں؟ میں نے بتایا کہ ظہور احمد بہت شاندار آدمی، سمجھدار اور خوش گفتار ہونے کے علاوہ عمدہ افسر ہیں۔ سابق آئی جی پولیس سردار محمد چوہدری، ظہور احمد کے ماموں تھے۔ میری ظہور احمد سے شناسائی تین دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ ظہور احمد گورنمنٹ کالج لاہور کے لٹریری سرکل میں مقبول تھے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں “سجادہ” کے ظہور احمد کا زمانہ طالبعلمی میں اتنا قد کاٹھ تھا کہ وہ راوی کے ایڈیٹر بن گئے۔ راوی وہی مجلہ ہے جس کے ایڈیٹر کبھی پطرس بخاری اور ن م راشد ہوا کرتے تھے۔ راوی کے ایڈیٹرز کی فہرست میں پریم ناتھ بھاٹیہ، گور بچن سنگھ، ارمیلا سوندھی، معین قریشی، کمال اظفر، شاہد جاوید برکی، پرویز مسعود، نگار احمد، ہریش چندر، سید محمد جعفری، ضیاء جالندھری، مظفر علی سید، شہزاد احمد، اسداللہ غالب، حنیف رامے، محمود شام، ڈاکٹر اجمل نیازی، اطہر وقار عظیم، سراج منیر، عباس تابش، عبداللہ خان سنبل، عبدالحمید بھٹہ، حسن رضا گوندل، فاطمہ ضیاء ڈار اور ڈاکٹر خالد سنجرانی سمیت بہت سے نام شامل ہیں۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہو گا کہ ظہور احمد اردو، پنجابی، فارسی کے شاعر اور انگریزی کے لکھاری ہیں۔ مدتوں بعد چند برس پہلے ثاقب سلطان کے گھر پر مشاعرہ ہوا جہاں میزبان کے علاوہ فیض علی اور خاکسار نے بھی اشعار سنائے مگر پھر راشد لنگڑیال اور ظہور احمد نے سماں باندھ دیا۔ ظہور احمد اپنے بارے میں ایک نظم میں خود بتاتے ہیں۔ نظم کچھ اس طرح سے ہے کہ آپ کس گریڈ میں ہیں آج کل آپ کس وزارت میں ہیں اور آپ کے پاس اندر کی خبر کیا ہے جن بھوتوں اور چڑیلوں کے شہر کے باسی مجھ سے پوچھتے ہیں میں انہیں کیا جواب دوں میرا نام ظہور احمد ہے اور مجھے چاندنی سے شام سے ہوا سے اور رات کی رانی سے پیار ہے اور پرندوں سے اور پہاڑوں کے نشیب میں پھیلے ہوئے جنگل سے اور گرتے ہوئے پتوں سے بھی کہ جن پر کبھی میں ایک نام لکھا کرتا تھا اور جو مجھے آج بھی اداس کر دیتے ہیں اے حکومتی محل کی غلام گردشوں میں رینگتی ہوئی مخلوق! اگر تجھے یہ عجیب لگے تو حیران مت ہونا کہ میں اس شہر میں نہیں رہتا میں اپنے شہر میں رہتا ہوں ظہور احمد کسی بھی لمحےاپنے گاؤں، اپنے کالج اور ان میں بکھری ہوئی یادوں کو خود سے جدا نہیں ہونے دیتا۔وہ بچپن کے ایک دوست کو یاد کرتے ہوئے یادوں کو شاعری کا لباس یوں پہناتے ہیں لگ گیا سینے سے میرے دوڑ کر،وہ رو پڑا آج آیا تھا تعلق توڑ کر، وہ رو پڑا گاؤں میں اب کون تھا جو عید پر ملتا اسے راستے میں سے ہی گاڑی موڑ کر، وہ رو پڑا بٹ گئی تھی دوستوں میں کام، میں اور عشق میں ذات کے ٹکڑوں کو اک دن جوڑ کر وہ رو پڑا سخت پتھر تھا ظہور احمد، ہمارا یار تھا کل سر محفل مگر منہ موڑ کر وہ رو پڑا ظہور احمد کا شعری مجموعہ “یہ دل کے سلسلے” مارکیٹ میں آچکا ہے۔ وہ اپنی ایک نظم “کیسے گزری ہے تم کو بتاتے چلیں” میں لکھتے ہیں۔ میرے سینتیس برسوں کا پوچھو ہوتم، سامنے ہے تمہارے یہ لو دیکھ لو، میں نے خوش ہو کے، گاتے ہوئے، رقص کرتے ہوئے زندگی کاٹ دی ہم نے قرآں پڑھا اور لہک کر پڑھاجھوم اٹھے بھی ہم شعر پر زور پر جب قوالی سنی تو دھمالیں پڑیں، گم ہوئے بانسری سنتے سنتے کبھی یونہی چلتے گئے، یونہی چلتے گئے، چلتے چلتے یونہی تیرا گھر آ گیا ہم نے سوچا چلو رک کے ملتے چلیں اتنے برسوں کے چلتے ہوئے آئے ہیں ہم محبت کے مارے ہوئے لوگ تھے، اب بہت دور لیکن نکل آئے ہیں سیر کرتے ہوئے پھر بھی فرصت ملی تو کبھی اس کے کوچے بھی ہو آئیں گے ۔
ظہور احمد کی ایک پنجابی نظم “حضرت بری امام سرکار دی خدمت وچ” بہت مشہور ہے۔ اس نظم کا تھوڑا سا حصہ پیش کرتا ہوں ایہناں رتیاں تے ساویاں جھنڈیاں دے نال تیرے میلے وچ آئی آں میں سنگیاں دے نال ایہناں پیراں وچ شہر وسا چھڈیا میرے جئیاں ایس شہر گوا چھڈیا تساں چور پور، نور پور کر چھڈیا اساں نور پور نشے نال بھر چھڈیا یہ ظہور احمد کی پنجابی شاعری کا رنگ ہے، اس سے پہلے آپ ان کی اردو شاعری پڑھ چکے ہیں، اب ذرا فارسی شاعری کا مزہ چکھ لیں۔ نمی دانم کہ چہ ہستی و چہ مستی نمی دانم و چہ اقبال می گوئی و چہ رومی نمی دانم منم غافل ز راہ عشق و کسب صوفیاں احمد کتاب فلسفہ خوانم مگر وہبی نمی دانم ظہور احمد گنہگارم کہ اندر بے حضوری ام گہے جہری نمی خوانم گہے قلبی نمی دانم ظہور احمد کی شاعری پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ وہ روایت سے جڑے ہوئے انسان ہیں اور ان کے سینے میں دھڑکتا ہوا حساس دل ہے۔ مشکل یہ ہے کہ انہیں مشکل ترین دور میں مشکل محاذ سونپا گیا ہے۔ وہ سمجھدار آدمی ہیں، دیکھیے کیسے راستہ نکالتے ہیں یا ٹیڑھی راہوں کے مسافر بن کر جہان حیرت میں گم ہو جاتے ہیں۔