منتخب کردہ کالم

ن لیگ اور بلاول ہاؤس کی دیوار گریہ .. رئوف طاہر

ن لیگ اور بلاول ہاؤس کی دیوار گریہ .. رئوف طاہر

نوازشریف کی نااہلی کا‘ 28 جولائی کا فیصلہ بھی مسلم لیگ نون کو پسند کرنے اور میاں صاحب کو لیڈر ماننے والے کروڑوں عوام کے لیے دکھ کا باعث تھا‘ چاہیں تو اسے سیاسی المیہ کہہ لیں لیکن ہم جیسوں کے لیے اس سے بھی بڑا المیہ وہ روّیہ ہے جو پیپلز پارٹی کی دل جوئی کے لیے‘ مسلم لیگ نون کے بعض جذباتی ترجمانوں نے اختیار کر لیا ہے۔ اپنی سیاسی غلطیوں کا اعتراف اپنی جگہ لیکن ”قومی اتفاق رائے‘‘ کی خواہش میں‘ ناکردہ گناہوں کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال لینا کیا کمال سیاسی حکمت عملی ہے!
اس سے کیسے اختلاف ہو گا کہ یہ ماضی کی تلخ یادوں کو دہرانے کی بجائے حال اور مستقبل کے تقاضوں کو سمجھنے اور اس کے مطابق لائحہ عمل تشکیل دینے کا وقت ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ آپ اپنے سیاسی حریفوں کے سیاسی جرائم کے وکیل صفائی بھی بن جائیں اور خود کو مذاق بنا لیں‘ اپنا مذاق آپ۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ جیسے مسلم لیگ نون فرقہ ملامتیہ بن چکی‘ اور بلاول ہائوس کی دیوار‘ دیوار گریہ جس سے لپٹ کر اپنے گناہوں کا اعتراف کیا جا رہا ہو۔ دو تین دن پہلے کی بات ہے‘ مسلم لیگ نون کے ایک ترجمان ”بھٹو شہید‘‘ کے ”عدالتی قتل‘‘ کا نوحہ پڑھ رہے تھے۔ مولا بخش چانڈیو کہاں چُوکنے والے تھے‘ انہیں تو ایسا موقع خدا دے‘ طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا‘ خدا کی قدرت ہے کہ مسلم لیگ والے بھی بھٹو صاحب کو ”شہید‘‘ اور ان کی پھانسی کو ”عدالتی قتل‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی صفوں میں خواجہ سعد رفیق پیپلز پارٹی کے خلاف ہارڈ لائنرز میں شمار ہوتے ہیں۔ استقامت اور استقلال جیسے اوصاف ورثے میں ملے‘ ایک ایسے خاندان کے چشم و چراغ جو کشمیری بھی تھا اور امرتسری بھی اور اس پر طرہ یہ کہ سعد نے اندرون شہر کے لوہاری گیٹ میں آنکھ کھولی‘ زندہ دلوں کے اس علاقے میں پلا بڑھا…باپ ساری عمر آمریت کے خلاف لڑتا رہا اور اسی جدوجہد میں بھٹو اقتدار کی پہلی سالگرہ پر‘ ایئرمارشل اصغر خاں کے شانہ بشانہ ایک احتجاجی ریلی کی قیادت کر رہا تھا کہ اس کے اختتام پر پنجاب اسمبلی کے زیرسایہ گولیوں کا نشانہ بن گیا ؎
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
1985ء کے عام انتخابات میں سعد رفیق کی والدہ اندرون شہر سے پنجاب اسمبلی کی امیدوار تھیں۔ گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے میاں صلاح الدین صلّی کے حق میں دستبرداری کے عوض خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے ایک پر (بلامقابلہ) منتخب کروانے کی پیشکش کی‘ بعض خیر خواہوں کے خیال میں یہ خاص ”پرکشش‘‘ پیشکش تھی۔ علامہ اقبال کے داماد اور میاں امیر الدین کے فرزند میاں صلّی سے جیتنے کا خواب ہی دیکھا جا سکتا تھا‘ قیام پاکستان کے پہلے سے جن کی اس علاقے میں اجارہ داری چلی آ رہی تھی۔ لیکن بیگم صاحبہ کا جواب تھا‘ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ شہر والوں نے میرے شہید شوہر کے خون کا کتنا مول ڈالا؟ پھر شہر والوں نے شہید کی بیوہ کو مایوس نہ کیا۔ رئیس شہر ہار گیا اور کم مایہ بیگم رفیق شہید جیت گئیں۔ ہم ان دنوں رپورٹنگ کے لیے پنجاب اسمبلی آتے جاتے رہتے اور دیکھتے کہ پنجاب اسمبلی کی خاتون رکن اپنے چھوٹے صاحبزادے سلمان کی موٹر سائیکل پر آتیں‘ اس وقار اور احترام کے ساتھ جو چمکتی دمکتی کاروں میں آنے والی بیگمات سے زیادہ ہی ہوتا۔
یہ میاں صاحب کی وزارتِ اعلیٰ کا پہلا دور تھا اور دلچسپ بات یہ کہ اُن دنوں اندرون شہر کی سیاست میں خواجہ فیملی کا شمار میاں صاحب کے مخالف دھڑے میں ہوتا تھا۔ پھر خواجہ سعد رفیق‘ نوازشریف کے کارواں کا حصہ بن گیا اور عہد وفا یوں نبھایا کہ مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف دسمبر کی ایک سرد رات ننگے جسم پر بید کھانے والوں میں سدا کے باغی جاوید ہاشمی کے ساتھ نوجوان سعد رفیق بھی تھا۔ تب لیڈروں میں سے چند دیوانے ہی تھے جنہوں نے میاں صاحب کی جلاوطنی کے باوجود وطن میں ان کا پرچم بلند اور سربلند رکھا۔
ہم وفا کے اسی موڑ پر
پاک داماں کھڑے ہیں کہ جب
اپنے احباب گزریں ادھر سے کبھی
آئینہ دیکھ لیں
کشمکش کے میدان میں ڈٹ جانے والا سعد رفیق مذاکرات کی بیٹھک میں بھی بہت کارآمد ہوتا ہے۔ دور طالبِ علمی کے اوائل میں سعد کی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی رہی پھر ایسا دور بھی آیا کہ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے لیکن مسلم لیگ اور جماعت اسلامی میں مفاہمت کی ضرورت پڑی تو لیگ کے وفد میں خواجہ سعد رفیق بھی شامل تھے۔ جماعت کی قیادت میں لیاقت بلوچ اور سلمان بٹ جیسے لوگوں کے ساتھ سعد رفیق کے معاملات ہمیشہ کمفرٹیبل رہے۔
بات کسی اور طرف نکل گئی اور کچھ زیادہ ہی نکل گئی۔ ہم پیپلز پارٹی کی شہلا رضا (ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی) کی گزشتہ شب کی گفتگو کا ذکر کرنا چاہتے تھے‘ ایک ٹاک شو میں فرما رہی تھیں‘ اب خواجہ سعد رفیق بھی بھٹو صاحب کو شہید اور ان کی سزائے موت کو عدالتی قتل قرار دے رہا ہے (وہی بات جو مولا بخش چانڈیو نے کہی تھی) ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگیوں کی اس ”قلب ماہیت‘‘ پر پیپلز پارٹی والوں کا طنز اور تمسخر بنتا بھی ہے۔ کیا قائداعظم کی مسلم لیگ ہونے کی دعویدار جماعت کے لیے اب ”قائد عوام‘‘ کی عظمت کا اعتراف بھی ضروری ہے؟
پیپلز پارٹی آج عدلیہ کی عظمت اور احترام کی بات کر رہی ہے‘ تو اس کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن معاف کیجئے اس حوالے سے خود اس کا ریکارڈ قابلِ رشک نہیں رہا۔ یہ قائد اعوم ہی تھے جن کے دور اقتدار میں سانگھڑ کے سیشن جج اویس صدیقی کو عدالت کے اندر ہتھکڑیاں لگانے کا المناک واقعہ ہوا‘ اس خطا پر کہ انہوں نے سندھ اسمبلی میں پیر صاحب پگاڑا (مرحوم) کے وفادار میر محمد وسان کی ضمانت منظور کر لی تھی۔ پھر 1973ء کے متفقہ آئین میں سات میں سے پانچ ترامیم عدلیہ کو بے اختیار کرنے‘ اپنے ”ناپسندیدہ‘‘ چیف جسٹس حضرات سے نجات پانے اور اپنے پسندیدہ چیف جسٹس کو توسیع دینے کے لیے تھیں۔ بھٹو صاحب پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت رکھتے تھے۔ ننھی منی اپوزیشن کسی آئینی ترمیم کا راستہ روکنے کے قابل نہ تھی لیکن قائد عوام کو اپوزیشن کی مخالفانہ تقاریر بھی گوارا نہ تھیں‘ چنانچہ مفتی محمود سمیت اپوزیشن ارکان کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے اٹھوا کر ایوان کے باہر پھینک دیا گیا۔ (بھٹو صاحب کے دور میں جمہوریت اور جمہوریت پسندوں پر جو بیتی‘ وہ الگ داستان ہے)
عدلیہ کے فیصلوں کا احترام ہونا چاہیے‘ لیکن اس حوالے سے خود محترمہ کا رویہ کیا تھا؟ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی عدالت نے میاں صاحب کی پہلی حکومت کی برطرفی کے خلاف فیصلہ دیا‘ تو محترمہ کو اسے ”چمک‘‘ کا نتیجہ قرار دینے میں کوئی عار نہ تھی (اس کا مطلب اس کے سوا کیا تھا کہ جج بک گئے؟) انہوں نے اسے پنجابی اور سندھی کا مسئلہ بنانے کی کوشش بھی کی کہ اس سے پہلے ان کی برطرفی کو سپریم کورٹ نے جائز قرار دیا تھا۔ ان کے دوسرے دور حکومت میں وہاب الخیری کے الجہاد ٹرسٹ کے پٹیشن پر ان کے ”اپنے سندھی‘‘ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے فیصلے پر وزیراعظم صاحبہ نے قومی اسمبلی میں نہایت سخت تقریر کی۔ اعلی عدلیہ کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کا کہنا تھا‘ وہ چاہتیں تو جہانگیر بدر کو چیف جسٹس بنا دیتیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے لیے قواعد و ضوابط کے تعین کے ساتھ چیف جسٹس حضرات کے لیے سنیارٹی کا اصول طے کر دیا گیا تھا۔ یہی پیپلز پارٹی جسے عدالتوں کو کبنگرو کورٹس قرار دینے میں بھی عار نہ ہوتی۔
باقی رہی جناب زرداری کی ”اصولوں کی سیاست‘‘ تو وہ ایک الگ موضوع ہے‘ تیس دنوں میں ججوں کی بحالی والے معاہدہ بھوربن اور پھر مشرف کی سبکدوشی کے بعد 24 گھنٹوں میں عدلیہ کی بحالی والے معاہدہ اسلام آباد سے انحراف کے علاوہ پنجاب میں گورنر راج سمیت…یہ پوری کتاب کا موضوع ہے۔ لیکن ہمیں تو گلہ مسلم لیگ نون سے ہے‘ جو فرقہ ملامتیہ بن چکی اور جس نے بلاول ہائوس کی دیوار کو ”دیوار گریہ‘‘ بنا لیا ہے۔
اگلا کالم