پکی سڑک
درویش سے پوچھاگیا:فلاں ‘فلاں اور فلاں درود آپ پڑھتے ہیں؟جواب ملا : فقط ابراہیمی درود پڑھتے ہیں‘ ہم پکّی سڑک پر چلتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ اخبار نویس کو خبر کبھی نہیں روکنی چاہیے۔ بات نکل جاتی ہے۔ تازہ تجربے سے ادراک ہوا کہ تجزیے کو بھی تھام کر نہ رکھنا چاہیے ۔
سرحدوں پر کشیدگی کے ہنگام‘ غالباً اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں‘ ایک پیغام عمران خان کو بھیجا۔ اسد عمر سمیت تحریک انصاف کے ممتاز لیڈروں کواس کی نقل بھی۔ لفظ بہ لفظ درج ذیل:”براہِ کرم دارالحکومت کے محاصرے کا منصوبہ ملتوی کر دیجیے ۔ سرحدوں پر امن قائم ہونے تک یہ خطرناک ہو گا۔ تجارتی راہداری پر بات کرنے کے لیے چینی سفیر کو مدعو کیجیے۔ مدیران اخبارات اورکالم نگاروں سے ملاقاتیں کیجیے۔ محاصرے کے التوا کا اعلان کرنے کے بعد آپ کو پریس کانفرنس کرنی چاہیے۔ اخبارات کے لیے ایک مضمون لکھنا چاہیے‘ تین بڑے شہروں میں بھارتی عزائم پر سیمینار منعقد کرنے چاہئیں۔ خواہ آپ اپنے دفاتر میں کر یں۔ آپ کو کہنا چاہیے کہ پاکستانی عوام اور پاک فوج‘ ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نواز شریف کشمیریوں سے قطعاً مخلص نہیں۔بھارت پہ ان کی پالیسی یکسر غلط ہے۔ بھارتیوں کے ساتھ ان کے کاروباری مفادات وابستہ ہیں۔ان موضوعات پر کافی معلومات مہیا ہیں‘‘۔
صاف صاف‘ تحریک انصاف کے لیڈروں سے عرض کیا کہ طالب علم کی رائے میں‘ ان کی حکمت عملی یکسر غلط ہے۔ 2018ء کے الیکشن سر پر کھڑے ہیں۔ پارٹی کی تنظیمی حالت ابتر ہے۔ مختلف دھڑے باہم متصادم ہیں۔ تنظیم اگر بہتر بنائی جائے ۔ اختلافات اگر نمٹا دیے جائیں۔ امیدواروں کے انتخاب کا آغاز کر دیا جائے۔ اہم ترین عنوانات … دہشت گردی‘ معیشت‘ خارجہ پالیسی‘ ریلوے‘ پی آئی اے اور سٹیل مل وغیرہ کے سدھار یا نجکاری‘ امن و امان‘ عدالتی نظام اور نوکر شاہی وغیرہ پر کمیٹیاں یا تھنک ٹینک بنا دیے جائیں۔ پاناما لیکس پر دریں اثناء دبائو جاری رکھا جائے۔
اسد عمر نے فون کیا اور کہا کہ اسلام آباد پہنچ کر تفصیل سے وہ تبادلہ خیال کریں گے۔ دارالحکومت وہ آئے مگر محاصرے کی مہم کا ایندھن بن گئے۔
اگست 2014ء کے دھرنے کا تجربہ ذہن میں تھا۔ جولائی2014ء میں خان نے مجھ سے کہا تھاکہ دس لاکھ مظاہرین کے ساتھ اسلام آباد پر وہ یلغار کریں گے ۔رتّی برابر مجھے شبہ نہ تھا کہ یہ ممکن نہ ہو گا۔ دس پندرہ گواہوں کی موجودگی میں‘ اپنی رائے سے انہیں آگاہ کر دیا اوروہ بھی بلند آواز میں۔
کامیابی گمراہ کرتی ہے۔رائے ونڈ کے حیران کن جلسہ عام نے تحریک انصاف کی قیادت کو خواب دکھایا ۔ پاناما لیکس پر پیہم مذاکرات اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کی تکلیف دہ ہم سفری نے زچ کر ڈالا تھا۔ ناامیدی میں‘ امکان کی کرن یکایک پھوٹے تو جذباتی توازن بعض اوقات برقرار نہیں رہتا۔
پیپلز پارٹی کی ”غداری‘‘پہ کپتان ناراض تھا۔اسی عالم میںخود پسند علامہ طاہر القادری کے بارے میں‘ نہایت ہی سخت جملہ کہہ دیا۔ علّامہ نے آج تک اپنے اوّلین محسن شریف خاندان کو معاف نہیں کیا‘ جن کے بل پر آسودہ زندگی کا آغازکیا۔ عمران کو کیسے کریں گے؟ شہرت‘ دولت اور اقتدارکے حریص کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی ؎
جامۂِ احرامِ زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا
اقبالؔ نے کہا تھا:براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے۔ ہوس چھپ چھپ کے سینوںمیںبنا لیتی ہے تصویریں ۔ ملّا کا نہیں یہ دوسروں کا ذکر ہے۔ واعظ کے بارے میں اس نے یہ کہا تھا ؎
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملاّ ہوں غازی
2012ء کے دھرنے میں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود سمیت‘ تحریک کے کئی لیڈر علامہ طاہر القادری سے نامہ و پیام کے آرزومند تھے۔ خان کو قائل کرنے میں‘میں کامیاب رہا کہ ان سے دور رہے۔ بے برکت آدمی ہیں۔ دوسری بار وہ پھنس گیا۔
پیپلز پارٹی کے سوا‘ آئندہ الیکشن میں ہر سیٹ پر جو امیدوار کھڑا کرے گی ‘ باقی اپوزیشن پارٹیاں‘ عمران خاں کی مدد سے انکار کرتی ہیں۔ وہ حصہ مانگتی ہیں۔ الیکشن2018ء کے لیے علامہ صاحب30فیصد سیٹیں چاہتے ہیں جماعت اسلامی 20فیصد سے کم پہ راضی نہ ہوگی۔ چوہدری صاحبان حقیقت پسند ہیں مگر پھر بھی!…مجموعی طور پر کم از کم چالیس فیصد تو کپتان کو چھوڑنا ہی ہوں گی۔ زیادہ تر یہ ہار دی جائیں گی۔ قاف لیگ والے شاید کچھ لے مریں۔
یہ ایک پہلو ہے۔ اس سے زیادہ یہ کہ دہلی اور کابل افراتفری پھیلانے پر تلے ہیں۔ اللہ کرے میرا اندازہ غلط ہو۔ کوئٹہ کا سانحہ آخری نہیں لگتا۔ امریکہ بھارت کی پشت پر ہے۔ چین اور ترکی کے سوا عملاً ہمارا کوئی دوست نہیں۔ وزیر اعظم سمیت کسی ایک بھی پاکستانی سیاستدان کو صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ شاکی ہیں ‘ وزیر اعظم کیا‘ایوان وزیراعظم کاعملہ بھی بات نہیں سنتا۔
اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا۔ وزیر اعظم نے تعزیت کی لوٹ آئے۔ چن چن کر نالائق افسر کوئٹہ بھجوائے جاتے ہیں۔ تحقیقات سامنے آئیں گی تو تصدیق ہو گی کہ پولیس کالج میں ایک بھی محافظ ڈیوٹی پر نہ تھا‘ جی ہاں! ایک بھی نہیں۔ آئی جی وہاں پہنچے ضرور لیکن کوئی اقدام نہ کیا۔ فوجی افسر پہنچے تو وہ جھوٹ بولتے رہے کہ انسداد دہشت گردی پولیس کے دستے اندر مصروف عمل ہیں۔ 48پولیس افسروں میں سے دو تہائی عموماً رخصت پر ہوتے ہیں۔ صرف چار مقامی افسر مستقل موجود پائے جاتے ہیں۔ آئی جی صاحب چیف سیکرٹری کا انتخاب ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کے پاس بلوچستان کے لیے کوئی وقت نہیں۔ چیف سیکرٹری ‘ وزیر اعظم کے پسندیدہ ہیں۔ پوری کی پوری کھیپ بدل بھی جائے تو بہت زیادہ فرق واقع نہ ہو گا۔ وزیر اعظم کو بلوچستان سے دلچسپی ہی نہیں‘ صوبائی قیادت ناتجربہ کار ہے یا پرلے درجے کی بدعنوان ‘نتیجہ معلوم ‘ ملّاہیں‘ سردار ہیں‘ لیویز ہے اور سونے پہ سہاگہ اچکزئی خاندان ۔بیشتر ارکان اسمبلی ایسے ہیں کہ بیس تیس کروڑ سالانہ سے کم میں‘ جن کا پیٹ نہیں بھرتا۔
بھارت جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ سیرل المیڈاخود نہیں گئے ‘بھگا دیے گئے۔ بھارت سے ان کے رابطے ہیں۔ وفاق حکومت کو پروا ہے نہ اس میں عزم کہ اخبار اور رپورٹر کے باب میں پورا سچ بولے۔ فوج کے نئے سالار کاانتخاب ہونا ہے۔ترجیح اس میں یہ ہے کہ وزیر اعظم کا وفادار ہو اور فوج کے کردار کو محدود کر سکے۔ ظاہر ہے کہ اسے غیر موثر بنا کر ۔غیر موثر یعنی بے دل فوج‘ بھارتی‘ کابلی اور امریکی عزائم کا سامنا کیسے کرے گی؟ سی پیک کا کیا ہو گا؟ گوادر کا مستقبل کیا ہے؟ حتیٰ کہ ایٹمی پروگرام کا؟ خطرہ لاحق ہوا تو زرداری‘ اچکزئی‘ اسفند یار اور مولانا فضل الرحمن سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟ دودھ پینے والے مجنوئوںسے۔
کپتان کو لکھا :آپ غصے میں ہیں اور غصے میں فیصلے نہیں کیے جاتے۔ شہباز شریف پر جو الزامات انہوں نے عائد کئے ہیں وہ ثابت نہ کر سکیں گے‘ حالانکہ عصر حاضر کے شیر شاہ سوری اور قائد اعظم کا دامن صاف تو ہرگز نہیں۔ قومی خزانے کے باب میں اس سفاک ہیں۔ تین ارب کوہاٹ پہ لٹا دیے۔ صوبے کا آئندہ الیکشن جیتنے کے لیے ایک ہزار ارب روپے وہ بربادکر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کا دم غنیمت ہے کہ تجارت پیشہ حکمرانوں پر دبائورہے۔ کامرانی مگر موزوں تجزیے کی مرہون منت ہوتی ہے۔سیاستدان غرض کے بندے‘ میڈیا کا بڑا حصہ بکائو۔ پارٹی غیر منظم‘ لیڈر ناتجربہ کار‘ کارکن غیر تربیت یافتہ‘ تقریباً تمام حلیف شائیلاک کی طرح اپنا حصّہ مانگنے والے۔ فیصلہ کن جنگیں اس طرح کے لشکروں سے نہیں لڑی جاتیں؛ اگرچہ حکومت نے خود کو رسوا کر لیا اور کرتی چلی جائے گی۔
2014ء کے دھرنے میں‘ جنرل راحیل شریف سے‘ کپتان کی ملاقات کے ہنگام‘ پی ٹی آئی کے لیڈروں سے درخواست کی تھی کہ ان کی پیشکش قبول کر لیں۔فوج کی ضمانت سے‘ سانحہ ماڈل ٹائون اور دھاندلی کی زیادہ بہتر تحقیقات کے علاوہ شہباز شریف کی معزولی ممکن تھی۔ انہوں نے سن کر نہ دیا۔
اب کی بار عدالت نے راستہ کھول دیا ہے۔ تحریک انصاف شہرکا محاصرہ نہ کرے‘ حکومت کسی کو گرفتار کرے اور نہ کنٹینر لگائے۔ جلسے پر سمجھوتہ ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک تاریخی اجتماع ہو سکتا ہے۔ طوفان میں جرأت سے زیادہ حکمت درکار ہوتی ہے۔
درویش سے پوچھا:فلاں ‘فلاں اور فلاں درود آپ پڑھتے ہیں؟جواب ملا : فقط ابراہیمی درود ہم پڑھتے ہیں‘ ہم پکّی سڑک پرچلتے ہیں ۔