کیا معاملہ سنبھل جائے گا؟
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بگڑے ہوئے معاملات سنبھالے جا سکتے ہیں؟ اصل میں سوال دو ہیں یا یہ کہہ لیں کہ ایک ہی سوال دو مختلف اطراف کے لئے ہے۔ سیاسی محاذ پر سوال یہ ہے کہ دو نومبر کو کیا ہوگا؟ دوسری طرف سابق وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید کے استعفے کے بعد یہ سوال ہے کہ کیا اس قربانی کے بعد معاملہ تھم جائے گا یا پھر کھرا دیکھنے والے آگے تک جانے پر اصرار کریںگے؟
دو نومبر تو خیر آ پہنچا۔ پنجابی میں بدھ سدھ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، یعنی ایسا دن جو خوشگوار اور بھاگوان ثابت ہوگا۔ اللہ کرے کہ دو نومبر کا بدھ بھی پرامن رہے اور ٹکرائو نہ ہو۔ اس حوالے سے دونوں فریقوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد احتجاج کا اعلان کیا۔ وہ اپنے اس عزم پرڈٹے ہوئے ہیں۔ عمران اور ان کے کارکن تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں احتجاج کا آئینی حق حاصل ہے۔ درست بات ہے۔کسی بھی جمہوری ملک اور معاشرے میں سیاسی جماعتوں کے پاس احتجاج کی آپشن موجود رہتی ہے۔ یہ بات مگر واضح رہنی چاہیے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کو یہ حق قطعی حاصل نہیں کہ وہ شہر بند کر ے، حکومت کو مفلوج کر دے یا شہریوں کے لئے نقل و حرکت مشکل بنا دے۔ دنیا کے کسی بھی ملک، معاشرے یا آئین میں ایسا کوئی حق کسی کو حاصل نہیں۔ اس لئے تحریک انصاف کے رہنمائوں کو اسلام آباد لاک ڈائون کرنے کی اصطلاح ہرگزاستعمال نہیں کرنی چاہیے۔ سیاستدان بعض اوقات دبائو بڑھانے کے لئے کچھ مبالغہ آمیز بیانات دے ڈالتے ہیں تاکہ حکومت یا انتظامیہ اپنے رویے میں لچک پیدا کرے اور مطالبات پورے ہو سکیں۔ ایسا کرتے ہوئے بھی غیر قانونی دھمکی دینا درست نہیں۔
حکومت کا رویہ شروع ہی سے جارحانہ رہا ہے۔ انہوں نے تصفیہ کرنے کی سرے سے کوشش ہی نہیں کی۔ حکومتی وزرا نے بھی پہلے دن سے جارحانہ رویہ اپنایا۔ شاید وہ خوفزدہ نہ ہونے کا تاثر دینا چاہ رہے تھے۔ اپنے اس جارحانہ موڈ کو حکومت نے برقرار رکھا۔ ٹی وی چینلز پر نمودار ہو کر سلسلہ وار خطاب فرمانے والے ان کے تھری مسکیٹرز(تین توپچی) مسلسل عمران خان اور تحریک انصاف پر گولہ باری کرتے رہے۔
پچھلے تین چار دنوں میں تو خواجہ سعد رفیق نے حد ہی کر دی۔ خواجہ صاحب ریلوے کے وفاقی وزیر ہیں، مسلم لیگ ن کے واحدوزیر، جس نے اپنے محکمے میں ڈیلیورکر دکھایا۔ سیاسی حلقوں اور میڈیا میں خواجہ سعد رفیق کا اس پرفارمنس کے باعث مثبت امیج موجود تھا۔ آنجناب نے اپنی غیر شائستہ اور عامیانہ گفتگو سے اس تاثر کے پرخچے اڑا دیے۔ ایسی غیر اخلاقی گفتگو کوئی تیسرے درجے کا سیاسی کارکن بھی نہیں کرتا۔ لگتا ہے سیاست کے سینے میں دل ہے نہ نگاہ میں شرم اور نہ ہی زبان کے آگے خندق۔
ویسے تو عمران خان بھی ضرورت سے زیادہ سخت، تند وتیز اور گاہے بے لگام زبان کی وجہ سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
”اوئے نواز شریف‘‘ کہہ کر پکارنا کسی بھی قومی سطح کے رہنما کو زیب نہیں دیتا، یہ کونسلر کی سطح کی تقریریں ہیں۔ اپنی اچھی بھلی تقریر میںخان چلتے چلتے اچانک بہک کر کوئی ایسا جملہ کہہ بیٹھتا ہے،کارکنوں کے لئے بھی جس کا دفاع ممکن نہیں رہتا۔ انہیں لکھی ہوئی تقریر کرنا چاہیے یا کم از کم اپنے پوائنٹس لکھ کر انہی پر فوکس رہا کریں۔ دوسری طرف مسلم لیگی رہنما بھی بدزبانی میں کسی سے کم اور پیچھے نہیں رہتے۔ ان کی تعداد زیادہ ہے اور حملے روزانہ کی بنیاد پر جاری ہیں۔ اس اعتبار سے مسلم لیگیوں کی جانب سے برسائے گئے راکٹ تحریک انصاف کے جوابی حملوں سے زیادہ ہو جاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ میاں نواز شریف سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود اس میں نہیں پڑتے، وہ اپنے دوسری صف کے لیڈروںسے یہ کام لیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن یا دوسری بڑی پارٹیوں میں کسی کی جرأت ہی نہیںکہ اپنے قائد کی مرضی کے بغیر کوئی بیان دے سکے۔ ایک آدھ بار تو کسی سے غلطی ہو سکتی ہے، مگر جب روزانہ کی بنیاد پر ایک پارٹی کے رہنما ٹی وی سکرین پر آ کر مخالف رہنما کے بارے میں سخت زبان استعمال کریں اور اس پر ناشائستہ ذاتی حملے کریں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایسا پارٹی قیادت کی مرضی بلکہ ان کے احکامات کے مطابق ہو رہا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں نقصان ہماری سیاست اور جمہوریت کا ہے۔
اس وقت فوری مسئلہ دو نومبر ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک شاندار فیصلہ دے کر درمیانہ حل تجویز کیا ہے۔ تحریک انصاف شہر کے ایک گوشے میں اپنا احتجاج کرے، شہر بند کرے نہ شہریوں کو تکلیف پہنچائے۔ دوسری طرف حکومت گرفتاریاں کرے نہ کنٹینرز رکھے اور نہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اکٹھا ہونے سے روکے۔ یہ بہت عمدہ اور قابل عمل روڈ میپ تھا۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اس کے ساتھ کھڑی ہو جاتی اور اعلان کرتی کہ ”ہم ہائیکورٹ کے فیصلے کی پابندی کر رہے ہیں، احتجاج کو قطعی نہیں روکا جائے گا، عمران خان بھی اس فیصلے کی پابندی کریں‘‘۔ اس کے بعد عمران خان پر بے پناہ اخلاقی، سیاسی اور عوامی دبائو آ جاتا۔ وہ اگر شہر بند کرنے کی کوشش کرتے تو عوامی ہمددریوں سے مزید محروم ہو جاتے اور فعال میڈیا کی موجودگی میں تحریک انصاف کے قائد بری طرح ایکسپوز ہو جاتے۔ حکومت نے ایسا کرنے کے بجائے پکڑ دھکڑ اور سیاسی تشدد کی پالیسی اپنائی۔ تحریک انصاف کے یوتھ کنونشن پر کریک ڈائون غلط تھا، پنڈی میں لال حویلی بند کرنا، شیخ رشید کے احتجاج کو نہ ہونے دینا، عمران خان کو بنی گالہ میں محصور کرنا، یہ سب غیر جمہوری اقدامات تھے۔ گزشتہ روز ایک صحافی دوست کا ٹیکسٹ میسج آیا، لکھتے ہیں: ”عمران خان نے حکمران جماعت اور شریف خاندان کے اوپر ڈالا گیا تہذیب، شائستگی اور جمہوری ہونے کا لبادہ چاک کر دیا ہے، وقت آنے پر معلوم ہوا کہ میاں برادران کے اندر نوے کی دہائی کا تصادم پسند اور مخالفین کو رگڑا دینے والا سیاستدان ابھی زندہ بلکہ پوری طرح صحت مند و توانا ہے‘‘۔ حکمران جماعت اپنے بارے میں پیدا ہونے والا یہ منفی تاثر دور بھی کر سکتی ہے اور اسے بہت زیادہ بڑھا بھی سکتی ہے۔ عمران خان کو بھی یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کے احتجاج کا مقصد صرف پاناما کمیشن بنوانا ہے، وہ حکومت گرانے یا کسی غیر جمہوری سازش کے منصوبے میں شریک نہیں ہیں۔
ادھر سیرل المیڈا والا ایشو بھی اپنے ڈراپ سین کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جب یہ واقعہ ہوا، اس وقت خاکسار نے یہ عرض کی تھی کہ یہ آزادی صحافت نہیں بلکہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کا معاملہ ہے۔ سیرل المیڈا کے حوالے سے اب دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔ وہ اس بے بنیاد، فتنہ انگیز خبر کی اشاعت میں دانستہ استعمال ہوئے یا نادانستہ، دونوں صورتیں کسی دیانت دار صحافی کے لئے شرمندگی کا باعث ہیں۔ دانستہ استعمال ہونا تو خیر تباہ کن امیج کا باعث بنتا ہی ہے، نادانستگی میں استعمال ہوجانا بھی دراصل بے وقوف بننے کے مترادف ہے، جو کوئی بھی صحافی نہیںکہلانا چاہے گا۔ پرویز رشید صاحب رخصت ہوگئے۔ پچھلے دو ہفتوں میں حکومت ان کا غیر ضروری دفاع کرتی رہی، آخر پیچھے ہٹنا ہی پڑا۔ وزیرداخلہ نے اتوار کی شام پرویز رشید کا مقدمہ لڑتے ہوئے کمال معصومیت سے یہ فرمایا: ”جب صحافی نے ان سے خود ملاقات کر کے خبر کنفرم کرنا چاہی تو پرویز صاحب کو تردید کرنے کے ساتھ خبر رکوانی چاہیے تھی اور اگر صحافی ایسا نہ کرتا تو ایڈیٹر اور مالک سے بات کرتے‘‘۔ وزیرداخلہ نے تاثر دیا کہ صرف اس ”سستی‘‘ یا نااہلی کی بنا پر وزیر اطلاعات کو ہٹایا گیا۔ چودھری صاحب کی
”معصومیت‘‘ اور”پاکیزہ خیالی‘‘ قابل رشک ہے، مگر کیا وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ بیان سن کر لوگ بلکہ ہر”حلقے‘‘کے لوگ مطمئن ہو جائیں گے؟ کیا اتنی سادہ سی بات پرویز رشید صاحب نہیں جانتے تھے؟ جو روزانہ کی بنیاد پر درجنوں خبریں اخبارات اور چینلز میں شائع ہونے سے رکوایا کرتے تھے، انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ خبرکیسے ڈیل کرنا ہے؟ نہیں صاحب! ہم پاکستانی بھولے سہی، مگر اتنے بھی نہیں۔ بات اتنی سادہ نہیں جتنی بتائی جا رہی ہے اور ایک قربانی سے یہیں رک بھی نہیں جائے گی۔