منتخب کردہ کالم

آج کا افغانستان اور ہم .. جاوید حفیظ

آج کا افغانستان اور ہم .. جاوید حفیظ

پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں خاصے عرصے کے بعد پچھلے دنوں یکایک گرم جوشی دیکھنے میں آئی اور یہ اچھا موڈ ابھی تک جاری ہے۔ حالات میں یہ خوشگوار تبدیلی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے چند روز قبل کیے گئے دورۂ کابل کے دوران شروع ہوئی۔ تمام باخبر مبصرین جانتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے اس وزٹ میں کابل کو انٹیلی جنس شیئرنگ کی اور عسکری ٹریننگ کی پھر سے دعوت دی گئی لیکن ظاہر ہے کہ صرف اتنا کرنے سے حالات یک دم تبدیل نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کے پس منظر میں کچھ اور معاملات بھی ہو سکتے ہیں۔ ان معاملات کی اصل وجوہات اور تفاصیل اب آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہیں۔ شنید ہے کہ پاکستان کے پاس افغان طالبان کے کئی اہم لیڈر زیر حراست تھے۔ ان میں سے بیشتر رہا کرنے کے بعد افغانستان بھیج دیے گئے تھے لیکن تقریباً پانچ ابھی تک پاکستان کی تحویل میں ہیں۔ آرمی چیف کے وزٹ میں قیدیوں کے تبادلے پر کوئی انڈر سٹینڈنگ ہوئی ہو سکتی ہے اور اس سے زیادہ دلچسپ وزیر خارجہ کی بیان کردہ وہ آفر ہے جو آج کل ایک قومی مباحثے کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ واشنگٹن میں خواجہ آصف نے امریکی و عالمی میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ افغان انٹیلی جنس کے پاس حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی کے واضح ثبوت ہوں تو اس کے حکام ہمارے ساتھ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی کریں اور اگر ان کی بات صحیح ہوئی تو ہم یہ ٹھکانے فی الفور تباہ کر دیے جائیں گے۔ وزیر خارجہ کی اس فراخدلانہ آفر میں دو شدید جھول نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جس کا ذکر مسلح افواج کے تعلقات عامہ کے ادارے نے کیا ہے۔ یہ کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کے فوجیوں کو اپنی سرزمین میں کسی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ پاکستان ایک مقتدر (Sovereign) ملک ہے اور یہاں کسی قسم کی کارروائی صرف پاکستانی ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ دوسرا جھول میری نظر میں یہ ہے کہ انٹرنیشنل معاملات برابری اور Resiprocity پر مبنی ہوتے ہیں اور اگر پاکستان ایسی کوئی رعایت دیتا ہے تو پھر ہمارے انٹیلی جنس حکام کو بھی اس بات کی اجازت ہونی چاہئے کہ وہ افغان ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ملا فضل اللہ اور ہمارے بچوں کے دوسرے قاتلوں کی نشاندہی کر سکیں اور افغان فوج ان کا ہمارے سامنے خاتمہ کرے۔ میرے خیال میں اس سارے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ خواجہ آصف کا انٹرنیشنل تعامل (Interaction) ماضی میں بہت محدود رہا ہے۔ اس لئے ان کا ذہنی افق بڑی حد تک مقامی (Local) ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح پولیس سیالکوٹ میں کسی بھی مشکوک گھر میں داخل ہو سکتی ہے‘ اسی طرح افغان یا امریکی حساس اداروں کے کارندے پاکستان میں مشکوک ٹھکانوں کی تلاشی لے سکتے ہیں۔ یہ سوچ خواجہ صاحب کے بین الاقوامی امور سے نابلد ہونے کی عکاس ہے۔
آج کے افغانستان کو سمجھنے کے لئے وہاں کے زمینی حقائق کا ادراک ضروری ہے۔ کابل میں حکومت صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے دھڑوں نے مل کر بنائی ہوئی ہے۔ یہ اتحاد امریکہ کی آشیرباد سے بنا تھا لیکن اس میں یکجہتی کی شدید کمی ہے۔ کئی معاملات پر ان میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ نائب صدر رشید دوستم کئی ماہ سے ترکی میں رہ رہا ہے۔ افغانستان کی متعدد اہم شخصیات کے خاندان بیرونِ ملک ہیں اور وہ خود کابل کے گیسٹ ہائوسز میں رہ کر حکومت چلا رہے ہیں۔ دوسری جانب افغان اکانومی ایک وار اکانومی بن کر رہ گئی ہے۔ حکومتی اخراجات زیادہ تر دوسرے ممالک سے ملنے والی امداد پر چلائے جا رہے ہیں۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ اگر آج امریکہ اپنی تمام فوجیں وہاں سے نکال لے اور مالی مدد بند کر دے تو افغانستان شدید مالی بحران کا شکار ہو جائے گا۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اس کے فوجی‘ جن کی تعداد بارہ سے چودہ ہزار ہے‘ وہاں یعنی افغانستان میں کم از کم دس سال اور رہیں گے۔ اس بات پر اشرف غنی حکومت خوش ہے مگر طالبات ناخوش ہیں۔ افغان معاشرے میں لسانی تقسیم تو خاصے عرصے سے موجود رہی ہے‘ اب قوم امریکہ کے معاملے میں بھی منقسم ہے۔ آبادی کا ایک حصہ امریکی فوجیوں کی موجودگی کو مناسب سمجھتا ہے جبکہ دوسرا اس کے خلاف ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ طالبان چالیس فیصد سے زائد علاقے پر کنٹرول رکھتے ہیں لیکن یہ بھی محل نظر رہے کہ طالبان کے زیر اثر علاقے میں آبادی کم ہے اور یہ ایریا اقتصادی ترقی میں بھی پیچھے ہے لہٰذا یہ قیاس کرنا کہ طالبان پھر سے کابل کا کنٹرول سنبھال لیں گے‘ بالکل غلط ہو گا۔ ایسے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گو کہ طالبان کے بہت سے خیالات اور رویے ماضی جیسے نہیں رہے‘ بدلے ہوئے نظر آتے ہیں مثلاً آج کے افغان طالبان تعلیم نسواں کے مخالف نہیں‘ لیکن شمالی اتحاد کے لئے آج بھی طالبان کا مکمل کنٹرول کسی طور قابل قبول نہیں۔ طالبان میں بھی دو دھڑے نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جو مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں کیونکہ لمبی جنگ کے بعد وہ بھی تھکے تھکے نظر آتے ہیں۔ دوسرے وہ جو ہر حال میں جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ جنگ جاری رکھنے والوں کا پلڑا بھاری ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ جنگ فیلڈ کمانڈروں کے لئے منفعت بخش بھی ہے اور جنگ کی بدولت ہی ان کی اہمیت قائم ہے۔
صدر اشرف غنی نے جب پاکستان کے لئے ڈاکٹر عمر ذاخلوال کا بطور سفیر انتخاب کیا تھا تو یہ اس بات کا غماز تھا کہ وہ ہمارے ملک کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں واضح بہتری چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر عمر ماہر اقتصادیات ہیں اور کابل میں وزیر خزانہ بھی رہے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی اقتصادی امور پر کام شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ مل کر ایک 42 نکاتی پلان بنایا‘ جس کا مقصد دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی تعاون بڑھانا اور تجارت کا فروغ تھا۔ بوجوہ یہ اہداف حاصل نہ ہو سکے لیکن ان پر از سر نو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سنجیدگی سے کام کیا جائے تو یہ اہداف حاصل کرنا مشکل نہ رہے گا۔ افغانستان کے لئے پاکستانی برآمدات چند سال پہلے دو ارب ڈالر کو چھو رہی تھیں‘ لیکن اب یہ خاصی کم ہو گئی ہیں۔ اقتصادی تعاون اور تجارت کے فروغ سے بارڈر کے دونوں طرف عوام کو فائدہ ہو گا۔ اقتصادی ترقی انتہا پسندی کا یقینی توڑ ہے۔ تجارت کے فروغ سے امن کو تقویت ملتی ہے۔
افغانستان کے دو تین اضلاع میں داعش کا اثر و رسوخ بڑھا ہے اور بقول سابق صدر حامد کرزئی افغانستان میں امریکہ داعش کی درپردہ مدد کر رہا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ امریکہ افغان طالبان کے مقابل ایک اور انتہا پسند تنظیم کھڑی کرنا چاہتا ہے۔ کرزئی کی بات میں کسی حد تک صداقت ہے اور کس حد تک فسانہ‘ یہ ہمیں غور سے دیکھنا ہو گا۔ ہمارے لئے اہم بلکہ تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ افغانستان میں موجود داعش میں ٹی ٹی پی کے عناصر بھی شامل ہیں۔
کابل کے ساتھ تعلقات میں بہتری ایک صبر آزما عمل ہے۔ دونوں ممالک میں اعتماد کا فقدان ہے اور انڈیا اس سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ کابل میں قائم موجودہ حکومت کے اپنے اندرونی مسائل ہیں اور پھر امریکہ کے افغانستان میں تقریباً مستقل قیام نے سیاسی حل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبے بارڈر پر مکمل کنٹرول ایک اور مسئلہ ہے۔
تمام مشکلات کے باوجود افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ اس وقت ہم تین محاذوں پر جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر مغربی محاذ پر ہم افواج کم کر سکیں تو دوسرے دو محاذوں پر زیادہ موثر پرفارم کر سکیں گے۔ کابل میں برف پگھلی ضرور ہے۔ اب ہمیں صدر اشرف غنی کے متوقع دورے کو باثمر بنانا ہو گا۔