منتخب کردہ کالم

آج کا ہٹلر…منیر احمد بلوچ

امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری کے خصوصی جہاز کے بنگلہ دیش سے بھارت کی سر زمین پر اترنے سے چند گھنٹے پہلے 29 اگست کو واشنگٹن میں امریکہ اوربھارت نےLEMOA
(logestic Exchange memorandum Of Agreement)کے نام سے ایک ایسے دفاعی معاہدے پردستخط کئے ہیں جس سے چین اور پاکستان براہِ راست متاثر ہوں گے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس معاہدے کے بعد امریکہ اور بھارت جب چاہیں گے دنیا بھر میںایک دوسرے کے بری، بحری اورفضائی افواج کے اڈے اور سمندری حدود استعمال کرنے کے علاوہ لاجسٹک سہولتوں کی فراہمی جس میں ری فیولنگ اورمتفرق پرزہ جات کی فراہمی شامل ہے ایک دوسرے کو مہیا کرنے کے مجا ز ہوں گے ۔ بھارت کو اس کی شدید خواہش پر امریکہ جیٹ انجن ٹیکنالوجی اور امریکی ٹیکنالوجی کے حامل ڈرون طیارے دینے پر رضامند ہو جاتا ہے تو پھر اس میں رتی بھر بھی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ امریکہ پس پردہ نہیں بلکہ اب کھل کر پاکستان کی تباہی کے منصوبے بنا چکا ہے کیونکہ بھارت کو ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی ملنے سے پاکستان کا روایتی جنگ میں بھارت کے مقابلے میں کمزور ہونے کا امکان ہے؟
امریکی سیکرٹری خارجہ کی جانب سے پاکستان کو قطعی نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ، بھارت اور افغانستان کے ہونے والے سہ فریقی مذاکرات نے اس خطرے کی جانب واضح اشارہ بھی کر دیا ہے کہ امریکہ بھارت اورافغانستان کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو چاروں جانب سے گھیرنے کی کوششیںکر رہا ہے ۔ چمن بارڈر کی مسلسل چودہ روزہ بندش، الطاف حسین اور محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی خان کے دیئے جانے والے تازہ بیانات اور تقریروں کو اگر ہمارے ملک کی قیا دت امریکہ ، بھارت اور افغانستان کے حالیہ دفاعی معاہدوں اور گٹھ جوڑ سے لاتعلق رکھے گی تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہو گی اور اس کا نتیجہ وہی نکل سکتا ہے جو ”ہنوز دلی دور است‘‘ کہنے والوں کا ہوا کرتا ہے ۔اور اس میں تو کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ یہ سب کچھ سی پیک منصوبے کو ختم کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ پاکستان یاد رکھے اگر اس نے امریکہ اور برطانیہ سمیت یا بھارت کے خوف، دبائو یا لالچ میں آ کر سی پیک کے اس منصوبے سے بھاگنے کی کوشش کی تو وہ دنیا بھر میں اکیلا رہ جائے گا اور سی پیک چھوڑنے کے بعدبھی اسے امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کی جانب سے بھارت کو فراہم کی جانے والی سیاسی، اخلاقی، معاشی اور فوجی برتری کا سامنا آئے دن کرنا پڑے گا؟۔
امریکہ اوربھارت کے وزرائے دفاع ایش کارٹر اور منوہر پاریکر کے درمیان طے پانے والے حالیہ دفاعی معاہدوں کے مندرجات کا پاکستان کی قیا دت کو تو شاید احساس ہی نہیں تھا لیکن چین پہلے ہی اندازہ کر چکا تھا اسی لئے بیجنگ میں چین کے انسٹیٹیوٹ آف کنٹیمپریری انٹر نیشنل ریلیشن کے ڈائریکٹر ہو ششنگ جن کا تعلق چین کی وزارت دفاع کے سکیورٹی معاملات سے بھی ہے‘ نے اس معاہدے پر دستخط ہونے سے چند دن پہلے اپنے ایک انٹرویو میں واضح کر دیا ہے کہ اگر ”بلوچستان میں کسی بھی طرف سے اور کسی بھی طریقے سے گوادر اور سی پیک کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو چین ایسی کسی بھی کو شش کو ہر ممکن طریقے سے روکے گا۔۔۔ اور ” فوربس میگزین ‘‘ کی حالیہ رپورٹ کو سامنے رکھا جائے تو امریکہ نے اپنی بحریہ کی ساٹھ فیصد سے زائد قوت Indo-Pacific میں رکھنے کا منصوبہ بنا لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سابق دورہ امریکہ کے دوران چین کی جنوبی سمندری حدود سے ہر وقت با خبر رہنے کیلئے ان دو ممالک کے درمیان باہمی سمجھوتہ بھی طے پا چکا ہے۔ اس کے علا وہ امریکی زیر اثر جنوبی ویت نام کے ساتھ پہلے ہی بھارتISRO کے نام سے سیٹیلائٹ ٹریکنگ کا معاہدہ کر چکا ہے جس کا مرکز ہوچی میں ہے اور اس پر بھارت23 ملین ڈالر خرچ کر ے گا، اس کے ساتھ جنوبی ویت نام کی سب میرینز کو تربیت دینے کیلئے بھارت نے مزید100 ملین ڈالر مختص کئے ہیں۔
بھارت کے ایک ایک کونے میں اسلحہ گولہ بارود اور جنگی سازو سامان سے بھرنے والے امریکہ، جاپان اوریورپی یونین شائد دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نام کے اس شخص کو بھول چکے ہیں جس کی ہوس اور اپنے ارد گرد کے تمام ملکوں کو اپنے تابع اور زیر اثر رکھنے کے پاگل پن نے دوسری جنگ عظیم کا آغاز کیا تھا اور شائد امریکہ سمیت تمام دنیا جرمنی کے ہٹلر کے پاگل پن کی بھینٹ چڑھنے والے پانچ کروڑ سے زائد انسانوں کی ہلاکت اور پچیس کروڑ سے زائد انسانوں کی خانماں بربادی کو بھول چکے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وہ ہٹلر کی کمی کو اب بری طرح محسوس کرنے لگے ہیں اور وہ ایک بار پھر اپنے سے ہزاروں میل دور کرئہ ارض پر بسنے والے کروڑوں انسانوں کو نریندر مودی کی شکل میں آج کے نئے ہٹلر کے ہاتھوں آگ اور بارود میں جلتا، تڑپتا اور چیختا دیکھنے کو بے تاب ہوئے جا رہے ہیں۔۔۔اگر امریکہ ،برطانیہ ، یورپی یونین اور جاپان سمجھ رہے ہیں کہ ایشیا میں مودی کی شکل میں تخلیق کئے گئے نئے ہٹلر کو سپلائی کئے جانے والے جدید اسلحہ اور مہلک ترین ہتھیاروں اور ایٹمی میزائلوں سے کی جانے والی تباہی کانشانہ صرف پاکستان اور چین ہی بنے گا تو یہ ان سب کی زبردست بھول ہو گی ۔۔۔۔وہ یہ بات اپنے مفروضوں اور ذہنوں کے ہر گوشے سے نکال لیں کہ ان کے دفاعی تھنک ٹینکس ان سے اسی طرح غلط بیانی کر رہے ہیں جس طرح انہوں نے ویت نام، کیوبا، عراق اور افغانستان کے بارے میں ان سے کی تھی۔ امریکہ کے آج کے فیصلہ ساز ذہنی دیوالیہ پن کی اس حد کو چھو رہے ہیں جو یقین کئے بیٹھے ہیں کہ پاکستان اور چین کے گرد بھارتی ہٹلر کی شکل میں ان کی لگائی جانے والی آگ ان کے دامن تک نہیں پہنچے گی ۔ ان امریکی تھنک ٹینکس کا یہ اندازہ سوائے ایک سراب کے اور کچھ نہیں کہ یہ آگ صرف ایشیاء تک محدود رہے گی اور مغرب سمیت امریکیوں سے کوسوں دور رہے گی۔ یہ سوچ اور یہ مفروضہ ان کی بہت بڑی بھول ہو گی۔
جس طرح روس نے پاکستان کے بڈھ بیر سے اڑنے والے امریکی یو ٹو کے بعد پشاور کے گرد سرخ نشان لگا دیا تھا ہو سکتا ہے کہ امریکی منصوبہ سازوں کے خطرے کو بھانپتے ہوئے کسی دوسری قوت نے بہت سے اَن گنت شہروں پر سرخ دائرے لگا دیئے ہوں اور کل کو تاریخ میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے تراشے گئے نئے ہٹلر نریندر مودی نے ہلکی سی بھی شرارت کرنے کی کوشش کی تو یہ اقوام متحدہ ختم ہو جائے گی اور آج کے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی جگہ بڑے بڑے ممالک اور شہر تباہی و بربادی کی داستان عبرت بن کر رہ جائیں۔ ابھی وقت ہے روس، ترکی، جاپان، یورپی یونین اور عرب ممالک عالمی امن کیلئے پاکستان اور چین کے ساتھ کھڑے ہو جائیں نہ کہ نئے ہٹلر کو اپنے ملک کے سب سے اعلیٰ ایوارڈ سے نوازیں۔
چینی حکومت اس سے قبل بھارت کے کسی بھی ملک سے کئے جانے والے روائتی یا دفاعی معاہدوں کو خاطر میں لانا گوارا نہیں کرتی تھی لیکن امریکہ کے ساتھ کئے جانے والے حالیہ دفاعی معاہدے کے بعد چین کیلئے سمجھنا اب کوئی مشکل نہیں رہا کہ یہ سب سی پیک منصوبے کو سبو تاژ کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ بھارتی رائے عامہ کو پائپ لائن میںCISMA اورBECA جیسے معاہدوں کے علا وہ امریکہ سے کئے جانے والے حالیہ دفاعی معاہدے کے تحت حاصل ہونے والے جیٹ انجنوں کی ٹیکنالوجی کے ساتھ Unmanned Aerial Vehicles(UAV’s) کی ٹیکنالوجی ملنے پر خوش ہونے کی بجائے اپنی حکومت پر یہ کہتے ہوئے دبائو بڑھا نا ہو گا کہ آپ کی ایک غلطی سے دور دور تک کچھ بھی دیکھنے کو نہیں بچے گا!