منتخب کردہ کالم

اتحاد کرپشن کیخلاف اور گڈ گورننس پر کریں…نفیس صدیقی

اتحاد کرپشن کیخلاف اور گڈ گورننس پر کریں…نفیس صدیقی
گزشتہ پیر کو غیر حاضر رہا اور میں اپنا کالم تحریر نہ کر سکا کیونکہ عمرے اور روضہ رسولؐ پر حاضری کی سعادت حاصل کرنے کیلئے سعودی عرب میں تھا ۔ پاکستان میں کیا کچھ ہو رہا تھا ، اس حوالے سے ہم نے نہ کو ئی ٹی وی دیکھا اور نیٹ پر رابطہ بھی بوجوہ منقطع رکھا لیکن پاکستان سے باہر جاتے ہی اپنے ملک کے حالات کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کا موقع ضرور ملتا ہے ۔ عمرے کی ادائیگی اور روضہ ء رسولؐ پر حاضری کے دوران وہاں دنیا بھر کے لوگوں سے میل میلاپ ہوتا ہے ، جس کے نتیجے میں فوری طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا بہت بدل گئی ہے اور مزید تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ سعودی عرب کی نئی قیادت نے بھی ان تبدیلیوں کو محسوس کر لیا ہے اور یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ سعودی عرب میں احتساب ، روایات شکنی اور معاشی انقلاب کیلئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں ، وہ ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں یا نہیں اور سعودی عرب میں سیاسی استحکام برقرار رہ سکتا ہے یا نہیں ۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ وہاں کی قیادت علاقائی اور عالمی سطح پر تبدیلیوں کے اٹھتے ہوئے طوفانوں سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ پاکستان کی قومی سیاسی قیادت کو ان تبدیلیوں کا اس طرح احساس نہیں ہے ، جس طرح ہو نا چاہئے ۔ اگلے روز پاکستان کی سیاست میں ایک ایسی غیر متوقع پیش رفت ہوئی ہے ، جس پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری قومی سیاسی قیادت کیا کر رہی ہے اور اس کے سوچنے کا اندازہ کیا ہے غیر متوقع پیش رفت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے لاہور جا کر تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری سے ملاقات کی ۔ دونوں رہنماؤں نے ایک آواز ہو کر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر اپنے اس مطالبے کو درست قرار دیا ۔ اس ملاقات سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کو فون کیا اور انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ۔ اس سیاسی پیش رفت کے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں کہ آئندہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو گرانے کیلئے نیا سیاسی اتحاد تشکیل دیا جا رہا ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اگرچہ ایک دوسرے کی سیاسی حریف ہیں اور دونوں جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہے لیکن وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو مارچ سے پہلے گرانے کے ایک نکتے پر متفق ہو گئی ہیں ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقاتی رپورٹ نے انہیں سیاسی اتحاد بنانے کا نہ صرف جواز فراہم کر دیا ہے بلکہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک پل کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ ہم نے بھی پاکستان کی عملی سیاست میں بھرپور حصہ لیا ہے اور یہ سیکھا ہے کہ سیاسی اتحاد کسی بڑے مقصد یا کسی بڑے ایجنڈے کیلئے ہوتے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ 17 جون 2014 ء کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی کارکنوں پر فائرنگ کا واقع قابل مذمت ہے اور اس سانحہ کے متاثرین کو انصاف اور ذمہ دار وںکو سزا ملنی چاہئے لیکن اگر کوئی سیاسی اتحاد بننا تھا تو اس وقت بننا چاہئے تھا تاکہ سانحہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں اس قدر تاخیر نہ ہوتی ۔ اس سانحہ کے بعد پاکستان عوامی تحریک نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف جو دھرنا دیا ، اسے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا تھا ۔ اس وقت لوگوں کو یہ بھی یقین تھا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاسی رفاقت بہت دور تک چلے گی اور انہیں سیاسی کزن قرار دیا جا رہا تھا لیکن بہت کم وقت میں ان کے راستے جدا ہو گئے ۔ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف دلانا مقصود ہوتا تو یہ سیاسی اختلافات کی صورت حال نہ ہوتی ، جس طرح آج اس ایک نکتے پر سیاسی اتحاد بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سیاسی اتحاد بنتا ہے تو اس کا ایجنڈا کچھ اور ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر مجوزہ سیاسی اتحاد مارچ سے قبل مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ تبدیلی ایسی ہو گی ، جس سے نہ تو عوام کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی پاکستان کو کوئی فائدہ ہو گا ۔ یہ مجوزہ اتحاد بھی وقتی نوعیت کا ہو گا اور یہ صرف status quo قائم رکھنا چاہے گا۔
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں ۔ سیاسی اتحاد کسی بڑے مقصد اور کسی بڑے ایجنڈے کیلئے ہونے چاہئیں پاکستان اس وقت تاریخ کے دوراہے پر ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری اور بعض دیگر عوامل و اسباب کی وجہ سے پاکستان امریکی کیمپ سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے یا اسے باہر دھکیلا جا رہا ہے ۔ دنیا اور خاص طور پر ایشیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔ پاکستان کے مشرق وسطی کے زیادہ تر دوست بشمول سعودی عرب اس صف میں جا رہے ہیں ، جہاں پاکستان کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ پاکستان کے پڑوسی خصوصاً بھارت اور افغانستان کھل کر پاکستان کے خلاف محاذ بنا چکے ہیں ۔ ایران کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادی گھیرا تنگ کر رہے ہیں ، جس سے پاکستان کیلئے مسائل پیداہو سکتے ہیں ۔ ایران اس صورت حال کے باوجود پاکستان سے مسابقت کر رہا ہے اور گوادر کے مقابلے میں بندر عباس کو ترقی دے رہا ہے تاکہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے گوادر کے علاوہ دوسرا آپشن بھی رہے ۔ دنیا میں رونما ہونے والی نئی تبدیلیوں اور پاکستان کو اپنے محل وقوع کی وجہ سے اہمیت تو حاصل ہو گئی ہے لیکن اسی اہمیت کے باوجود علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کا نہ صرف پہلے جیسا کردار نہیں ہے بلکہ پاکستان کافی مشکلات کا شکار ہے ۔ دوسری طرف پاکستانی معیشت نے ’’ نان سی پیک ‘‘ منصوبوں اور آپشنز پر انحصار ختم کر دیا ہے ، جو انتہائی خطرناک ہے ۔ ملک میں انفرا اسٹرکچر کے بڑے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے لیکن غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے ، جس نے سیاسی اور سماجی ہیجان پیدا کر دیا ہے ۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ چین کے خلاف جو عالمی طاقتیں کام کر رہی ہیں ، وہ چین کے عالمی ایجنڈے کو سبوتاژ کرنے کیلئے جتنا پاکستان کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں ، اتنا کسی اور ملک یہاں تک کہ ایران کو بھی نہیں بنائے ہوئے ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے اور بعد میں پاکستان کی سیاسی قوتوں کا ملک کی خارجہ پالیسی میں عمل دخل نہیں رہا صرف بھٹو نے اس پالیسی میں عمل دخل کی کوشش کی اور انہیں بھی عبرت کا نشان بنا دیا گیا ۔ 1980 ء کے عشرے میں پاکستان میں منظم دہشت گردی شروع ہونے کے بعد سیاسی قوتوں نے ملک کی داخلی پالیسیوں سے بھی لاتعلق ہونا شروع کر دیا اور اب وہ داخلی معاملات خصوصاً امن و امان کے معاملات سے تقریباً بے دخل ہو چکی ہیں ۔ اس وقت پاکستان جن حالا ت سے دوچار ہے ، ان میں غیر سیاسی قوتیں تمام تر خلوص اور خواہش کے باوجود پاکستان کو خطرات سے نہیں نکال سکیں گی ۔ سیاسی قوتوں کو آگے ہونا ہو گا ۔
اب وقت ہے کہ پاکستا ن کی خارجہ پالیسیوں میں بڑی تبدیلیوں ، ان پالیسیوں میں سیاسی قوتوں کا عمل دخل بڑھانے اور عوام کے معاشی مسائل کے حل کیلئے کوئی بڑا ایجنڈا تشکیل دیا جائے اور اس پر سیاسی اتحاد بنایا جائے ۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اگرچہ یہ اعلان کر دیا ہے کہ حکومت کرنا فوج کا کام نہیں ۔ آرمی چیف کا یہ بیان اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے کام کرنے چاہئیں ۔ لاتعلقی سے مسئلہ حل نہیں ہو گا اور ’’پیٹی ایشوز ‘‘ پر سیاسی اتحاد سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف دونوں جماعتوں کے قائدین انتخابی سیاست ضروری کریں لیکن تاریخ کے اس نازک دور میں جب دنیا تبدیلیوں کی زد میں ہے ، ان دونوں سیاسی جماعتوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کی انتخابی حریف بنی رہیں لیکن وہ کسی بڑے ایجنڈے پر قومی سیاسی قیادت کو جمع کریں اور اس ایجنڈے پر کوئی سیاسی اتحاد بنائیں ۔ اس سے ان کی انتخابی سیاست پر بھی اثر نہیں پڑے گا ۔