منتخب کردہ کالم

اخلاقی اقدار کا زوال .. مفتی منیب الرحمن

عدلیہ

اخلاقی اقدار کا زوال .. مفتی منیب الرحمن

آج کل ماشاء اللہ ہمارے میڈیا اسٹارز کے لیے موضوعات کی بہتات ہے ،پاناما لیکس ،بہاماس لیکس ، قرض معافی مافیا ، میڈیا کو سیکرٹ میٹنگ کی لیکنگ یا فیڈنگ ، سپریم کورٹ آف پاکستان اورالیکشن کمیشن آف پاکستان میں اعلیٰ شخصیات کی نااہلی کے بارے میں متعدد ریفرنس اور 2نومبر کو اسلام آباد کے محاصرے اور حکومت کومفلوج کرنے جیسے امور تو چل ہی رہے تھے ، اِس اثنا میں جنابِ مصطفی کمال اور گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے تودھماکا ہی کردیا۔سو اب ہمارے اینکرپرسنز اور کالم نگاروں کے وارے نیارے ہیں ۔بیچ میں چٹنی اور چٹخارے کے طور پر امریکہ کے صدارتی انتخابات کو بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے اورانڈیا میں ہمارے اداکاروں کی بے توقیری الگ سے ایک عالَمی اورآفاقی مسئلہ ہے ۔ بعض پاکیزہ ذہنوں پرنازل ہونے والے عالَمِ غیب کے الہامات ، بشارتیں اوروعیدیں اِس سے سِوا ہیں۔ الغرض ٹیلی ویژن اسکرین اور اخبارات کے صفحات پر ہر سو رونق ہی رونق ہے ۔ بدھ کو موضوعات کے دبائوکے باعث جناب ڈاکٹر فاروق عبدالستار کے لیے بھی گنجائش نہیں نکل پائی اور وہ رات انہوں نے شاید سکون سے گزاری ہوگی یااُن کے لوگ اسکرین آئوٹ ہونے پر مضطرب ہوں گے ۔
ایران میں ایک اصطلاح ”اصلاح طلبان‘‘ (Reformist) کی رائج ہے اور موجودہ ایرانی صدر جنابِ حسن روحانی کا تعلق اِسی طبقے سے ہے ،اِن کے مقابل” محافظانِ انقلاب‘‘ یا ”قدامت پرست‘‘ کہلاتے ہیں۔اس وقت ہمارے ہاں سیاسی محاذ آرائی انتہا پر ہے ، اس لیے توازن و اعتدال، میانہ روی، اصلاحِ احوال اور ہوش مندی کی بات کرنا یا لکھنا غیر مقبول (Unpopular) موضوع ہے ، کیونکہ اس طرح آپ پر مصلحت پسندی ،مطلب براری ، ضمیر فروشی یا منافقت ،الغرض کوئی بھی فتویٰ لگ سکتا ہے ۔آپ اگر لشکرِ حسین میں نہیں تو یزیدی ہیں ،اس سے قطع نظر کہ آپ فریقِ مخالف کے حامی ہوں یا نہ ہوں ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہر شخص کے پاس اپنے آپ کو ”ظِلِّ حسین‘‘اور اپنے مخالفین کو ”یزیدی‘‘قرار دینے کا لائسنس ہوگااوروہ ہوائے نفس کے تحت یا بربنائے اخلاص ہی سہی جو بھی معرکہ بپا کرے گا ،وہ اکسٹھ ہجری کے بعد معرکۂ کربلا کا ہم پلّہ قرار پائے گا،کسی نے کہا تھا: ؎
ہر بوالہوس نے حُسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
جواب ندارد:ہم اورہم جیسے چند دیگر کوتاہ فہم مسلسل لکھ رہے ہیں کہ جب بظاہر تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ریاستی نظام کی کرپشن سے تطہیر کو اپنا مقدس مشن بناچکے ہیں ،تو یہ سب لوگ یک سوئی کے ساتھ کم از کم وقت میں اس مقصدکے لیے جامع قانون سازی کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں؟۔ اگر ہمارانظامِ ریاست کسی نظامِ آئین وقانون کے تحت چل رہا ہے تو ہرچیز قانون ،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نظامِ عدل کے تحت ہونی چاہیے اور جہاں پہلے سے قانون موجود نہیں ہے یا قانون میں خلا (Lacuna)ہے یا قانون کسی خاص فرد یا طبقے کو تحفظ دے رہا ہے یا وہ جامع نہیں ہے ،تو اِس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سب مل کر اتفاقِ رائے سے جامع قانون سازی کیوں نہیں کر پارہے؟۔ لیکن اس کا جواب میدانِ سیاست میں متحارب فریقوں اور حکومتی اداروں سمیت کہیں سے نہیں آرہا اور یہی قرائن نیتوں کو مشتبہ قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔
اَخلاقی زوال:ایک وقت تھا کہ اِختلافِ رائے کے باوجود لوگوں میں کسی نہ کسی درجے میں باہمی احترام کی روایت موجود تھی اور کچھ اَخلاقی اقدار تھیں ،جن کی پاس داری کی جاتی تھی ۔اگر فریقِ مخالف کا احترام ملحوظ نہ بھی ہوتا،تب بھی اپنے شخصی وقار واعتبار اور اپنی وضع داری اور بھرم کو قائم رکھنے کے لیے باوقار لوگ اَخلاقی اقدار کی ایک اوسَط سطح سے نیچے نہیں گرتے تھے ۔قریشِ مکہ، جو سیدالمرسلین رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے جانی دشمن تھے وہ، بھی اِس حد تک نہیں گرے کہ آپ کو العیاذ باللہ !کاذب اور خائن کہاہو یا آ پ کے کردار پر کوئی طعن کیا ہو ۔جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
”اور (اے رسول !)آپ اپنے قرابت داروں کو( اللہ کے عذاب سے) ڈرائیے،(الشعراء:214)‘‘۔اِس حکمِ ربانی کی تعمیل میں آپ ﷺ کوہِ صفا کی بلند چوٹی پر چڑھے اور ندا دی:یَا صَباحَاہ! (واضح رہے کہ اُس زمانے میں عالَمِ عرب میں یہ صدا کسی ہنگامی صورتِ حال میں لگائی جاتی تھی )۔ سب متوجہ ہوئے اورکہا:یہ کون ہیں؟،اُس زمانے میں جو شخص خود موقع پرنہ جاپاتا تو وہ خبر لینے کے لیے اپنا کوئی نمائندہ بھیجتا ۔چنانچہ ابولہب اور قریش کے سردار آکر جمع ہوگئے،پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے عقب سے شہسواروں کاایک لشکر تم پر اچانک حملہ کرنے والا ہے ،تو کیا تم میری خبر کی تصدیق کرو گے؟،سب نے یک زباں ہوکر جواب دیا:یقینا کریں گے ، کیونکہ ہم نے پوری زندگی آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا ، (سُبل الھُدیٰ والرَّشاد فی سِیْرَۃِ خیرِ العباد ، ج:2،ص:323)‘‘۔سوزمانۂ کفر میں بھی رواداری کا ایک معیار قائم تھا ۔
اِسی طرح جب ابوسفیان شام کے تجارتی سفر پر تھے ،تو ھِرَقْل (قیصرِ روم)نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے رؤسا ء اورترجمان کو بلایا اور قریشِ مکہ کے تجارتی قافلے کو دربار میں طلب کر کے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں پوچھا : تم میں سے نسبی اعتبار سے اِس مُدّعیِ نبوت کا سب سے قریب کون ہے ؟،ابوسفیان نے کہا: میں ہوں ، اُس نے کہا: آپ میرے قریب آجائو ،میں اس شخص کے بارے میں چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ابوسفیان کہتے ہیں: اللہ کی قسم !اگر مجھے یہ حیا نہ ہوتی کہ مجھے جھٹلادیا جائے گا ،تو میں ضرور اُن کے بارے میں جھوٹ بولتا(یعنی اُسے انتہائی عداوت کے باوجود اپنے وقار واعتبار کا اتنا پاس تھا ) اُن میں سے چند سوال یہ تھے: اُس کا نسب کیسا ہے؟،ابوسفیان نے کہا: وہ ہم سب میں عالی نسب ہیں۔تمہارے خاندان میں پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟، ابوسفیان نے کہا: نہیں۔اُس نے پوچھا: تم میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟، ابوسفیان نے کہا: نہیں۔اُس نے پوچھا: اُس کے پیروکار اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا سماجی اعتبار سے کمزور لوگ ہیں؟، ابوسفیان نے کہا: نچلے طبقات کے لوگ ہیں ۔ اُس نے پوچھا: اُن کی تعداد بڑھتی جارہی ہے یا گھٹ رہی ہے؟، ابوسفیان نے کہا: بڑھتی جارہی ہے ۔اُس نے پوچھا: اُس کا دین قبول کرنے کے بعد کسی نے اُس کے دین کو چھوڑا بھی ہے ؟،ابوسفیان نے کہا: نہیں۔اُس نے پوچھا: کیا نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے تم لوگوں نے اُس پرکبھی جھوٹ کا الزام لگایا ہے؟، ابوسفیان نے کہا: نہیں۔ اُس نے پوچھا: کیا اُس نے کبھی عہد شکنی بھی کی ہے؟، ابوسفیان نے کہا: نہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں :میں اتنی ہی گنجائش نکال پایا کہ میں نے کہا: ہمیں اپنے وطن سے آئے ہوئے کافی دن ہوگئے ہیں ،اگر ہمارے بعد کوئی ایسی چیز صادر ہوگئی ہو تو اُس کا ہمیں علم نہیں ۔ اُس نے پوچھا: تمہاری اُس سے جنگ بھی ہوئی ہے ؟، ابوسفیان نے کہا: ہاں !۔اُس نے پوچھا: اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلا؟۔ ابوسفیان نے کہا: جنگ میں کبھی ہمارا پلڑا بھاری ہوجاتا اور کبھی اُن کا۔اُس نے پوچھا: اُس کی تعلیمات کیا ہیں؟ ، ابوسفیان نے جواب دیا: وہ کہتے ہیں :اللہ وحدہٗ کی عبادت کرو ، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو ، اپنے آبائواجداد کی (ناحق باتوں )کو چھوڑو اور وہ ہمیں نماز ،سچ بولنے ،پاک بازی اور صلۂ رحمی کی تعلیم دیتے ہیں ۔
قیصرِ روم نے اپنے ترجمان کے ذریعے کہا: میرے سوالات کے جواب میں تم نے بتایا :وہ عالی نسب ہیں اور اللہ تعالیٰ عالی نسب لوگوں ہی کو اپنی قوم میں رسول بناکر بھیجتا ہے ۔ تم نے بتایا : ہمارے خاندان میں اِن سے پہلے نبوت کا دعویٰ کسی نے نہیں کیا ، اگر ایسا ہوا ہوتا تو میں کہتا:یہ شخص ماضی کی روایت کی پیروی کر رہا ہے ۔میرے سوال کے جواب میں تم نے بتایا : اِ س سے پہلے تمہارے خاندان میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا، اگر تمہارا جواب اِثبات میں ہوتا تو میں سوچتا:یہ شخص اپنی گم گشتہ بادشاہت کا طلب گار ہے ۔میرے سوال کے جواب میں تم نے بتایا:دعوی ٔ نبوت سے پہلے اِس شخص پر جھوٹ کی کوئی تہمت بھی نہیں لگی (واضح رہے کہ تہمت اُس الزام کو کہتے ہیں جو ثابت نہ ہوا ہو)،اگر تمہارا جواب اثبات میں ہوتا تو میں سوچتا :جو شخص لوگوں پر جھوٹ بول سکتا ہے وہ اللہ پر بھی بول سکتا ہے ۔تم نے یہ بھی بتایا کہ اُس کے پیروکار اَشرافیہ طبقے کے لوگ نہیں ہیں بلکہ زیریں طبقات کے لوگ ہیں اور ابتدا میں رسولوں کے پیروکار ہمیشہ پِسے ہوئے طبقات کے لوگ رہے ہیں ۔تم نے یہ بھی بتایا کہ اُس کے پیروکار بڑھتے چلے جارہے ہیں اور دعوتِ نبوت کا سفر اِسی طرح آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۔تم نے یہ بھی بتایا کہ جو اُس کا ہوجائے ،پھر وہ اُس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا ،ایمان کی حقیقت بھی یہی ہے کہ جب دل میں گھر کر جائے تو وہ مٹائے نہیں مٹتا ۔تم نے اُن کی تعلیمات بھی بتائیں ،اگر تمہارا بیان سچ ہے تو ایک وقت آئے گا کہ وہ میرے قدموں کی جگہ کے بھی مالک ہوجائیں گے ، (صحیح البخاری: 7،تلخیص کے ساتھ)‘‘۔ابوسفیان مکے کا سرداراور غزوۂ اُحد میں کفارِ مکہ کے لشکر کا سپہ سالار تھا ،لیکن دشمنی کے باوجود اُس نے قیصرِ روم کے سوالات کے جوابات میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں غلط بیانی نہیں کی، کیونکہ اُسے اپنے منصب کا پاس تھا۔
اس موضوع کی طرف میرا ذہن اس لیے متوجہ ہوا کہ جنابِ مصطفی کمال اور گورنر عشرت العباد کے تنازعے پر ایک معروف دانش ور نے کہا:شرافت ،وضع داری اور اَقدار کے اعتبار سے ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے ،حالانکہ انہوں نے کہا: میں اپنے مخالف سے ٹکرا جانے والا آدمی ہوں، گالیوں کے بارے میں خود کفیل ہوں اور گالیوں کی نئی لغت بھی ایجاد کرسکتا ہوں ،لیکن کبھی کسی سے تعلق رہا ہو تو حیا آتی ہے ۔پس ہم مجموعی حیثیت سے حیا باختہ قوم بنتے جارہے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
نوٹ: روزنامہ دنیا میں چھپنے والے میرے کالموں کی پہلی جلد کا دوسرا ایڈیشن ،دوسری اورتیسری جلد کا پہلا ایڈیشن چھپ چکا ہے اور ”ضیاء القرآن پبلی کیشنز،اردوبازار لاہوراور کراچی ‘‘سے دستیاب ہے ۔