منتخب کردہ کالم

ادب میں دشمنی نہیں چلتی: زاہدہ حنا

کراچی آرٹس کونسل کی سالانہ ادبی کانفرنس کا اب کراچی میں ہی نہیں شہروں، شہروں اور ملکوں ملکوں انتظارکیا جاتا ہے، تب ہی امریکا، انگلینڈ، جرمنی اور جانے کہاں کہاں سے ادیب آتے ہیں اور ادب کے اس سالانہ جشن میں شرکت کرتے ہیں۔اس سال بھی محمد احمد شاہ ، پروفیسر اعجاز فاروقی، حسینہ معین اور دوسرے بہت سے لوگوں کی کوششوں اورکاوشوں سے 9 ویں عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سندھی، پنجابی، سرائیکی اور پشتو کے ادیب شریک تھے، اس تناظر میں دیکھیے تو یہ ایک ایسی کانفرنس تھی جس میں ہمارے علاقے کی مختلف زبانوں کے رنگ شامل تھے۔

اس وقت پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں پر جو دھائیں دھائیں ہے ،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس مرتبہ ہندوستان کے ادیب اس کانفرنس میں شامل نہ ہوسکے۔ پروفیسر شمیم حنفی جنھیں پہلے اجلاس میں کلیدی مقالہ پڑھنا تھا، وہ اسی تناتنی کے سبب نہ آسکے حالانکہ وہ برسوں سے اس کانفرنس کے ’اسٹار‘ ہیں اور لوگوں کو بے چینی سے ان کا انتظار رہتا ہے۔ سائنسی ایجادات کو دعائیں دیجیے کہ پہلے اجلاس میں آوازکی لہروں کے دوش پر انھوں نے اس میں شرکت کی اور ہم ان کے کلیدی خطبے سے مستفید ہوسکے۔ وہ دلی سے بول رہے تھے اور ہم کراچی میں سن رہے تھے اور داد دے رہے تھے۔ ان کے بعد دوسرا مقالہ آصف فرخی کا تھا جو ہمارے ادب اورہماری دنیا کے موضوع پر خوب بولے۔

اس کانفرنس میں’ فیض اور امن عالم‘ کے موضوع پر ایک سیشن تھا جس میں کشورناہید، زہرا نگاہ، آئی اے رحمن، برلن سے آئے ہوئے عارف نقوی، رضا علی عابدی، فہمیدہ ریاض اور فیض صاحب کے جیل کے ساتھی ظفر اللہ پوشنی نے باتیں کیں۔

آج برصغیر میں سرحدوں پر آتش وآہن کی جو برسات ہے، اس میں امن کی بات کرنا بہت سے لوگوں کو ناگوارگزرتا ہے، لیکن آپ ہی بتایے کہ اگر ادیب، شاعر اور دانشور بھی توپ وتفنگ کی باتیں کرنے لگیں تو پھول، پرندے جگنو اورشرارت سے چمکتی ہوئی آنکھوں والے بچے کہاں جائیں گے اور یہ دنیا کیا راکھ کا ڈھیر نہ ہوجائے گی؟

فیض صاحب اور سبط حسن کے علاوہ ان کے دوسرے ساتھیوں پر پنڈی سازش کیس بنایا گیا اور انھیں سماج میں عفریت کے طور پر پیش کیا گیا لیکن یہی فیض تھے جنہوں نے برصغیر ہی نہیں، ساری دنیا میں امن کی بات کی۔ ان کے حوالے سے اس پُرآشوب زمانے میں امن کی آوازاٹھانے سے زیادہ بامعنی بات بھلا اورکیا ہوسکتی تھی۔اس مرحلے پر مجھے کرشن چندرکی ایک تحریر یادآتی ہے جو امن کی خواہش اورخوشبو سے معطر ہے اورجس کے ہیرو فیض اورخود کرشن چندر ہیں۔کرشن جی لکھتے ہیں :

’’یہ کانگریس 1965ء کی ہند پاک جنگ کے بعد منعقد ہوئی تھی۔اس پس منظرکو ذہن میں رکھیے۔ حالانکہ میرے وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی مگر ممکن ہے کہ منتظمین کے ذہن میں یہ بات رہی ہو۔ میں اورفیض دونوں ہوٹل مسکوا میں ٹھہرے ہوئے تھے، مگر ایک دوسرے سے ملاقات کی نوبت نہ آئی تھی۔ پہلی شام جب میں مسکوا ہوٹل کے وسیع وعریض ڈائننگ ہال میں کھانے کے لیے گیا تو دیکھا کہ ہر ملک کے مندوبین کے لیے ایک میز الگ سے سجی ہوئی ہے اور اس میز پر اس ملک کا ایک چھوٹا سا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ میں نے دیکھا تو پاکستان کی میز اور ہندوستان کی میز میں کم سے کم تیس دوسری میزوں کا فاصلہ تھا۔ میں مسکرا کر چپ رہا اور اپنی میز پر بیٹھ گیا۔

فیض ابھی اپنی میز پر آئے نہ تھے۔ پہلے پندرہ بیس منٹ مشروب پینے میں گذرے۔ اتنے میں، میں نے دیکھا کہ فیض کسی دوسرے دروازے سے داخل ہوکر اپنی میزکی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کرسی پر بیٹھ کر انھوں نے میری طرح چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ غالباً انھیں بھی کسی دوسری میزکی تلاش تھی۔

یکایک میری اور فیض کی آنکھیں چار ہوئیں۔ وہ فوراً اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور میں اپنی کرسی سے۔ اس وقت سارا ہال ہم دونوں کی طرف عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔پھر ہوا یہ کہ میں اپنی میز سے ہندوستان کا فلیگ لیے اٹھا اور فیض اپنی میز سے پاکستان کا فلیگ لیے اٹھے اور ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف بڑھتے ہوئے، میزیں پارکرتے ہوئے بیچ کی کسی میز پر آکر رُک گئے۔ اس پر ہم دونوں نے ہندوستان اور پاکستان کا جھنڈا ساتھ ساتھ لہرا دیا اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہوگئے۔

سارا ہال تالیاں بجانے لگا۔یہ تالی اس وقت تک بجتی رہی جب تک فیض اور اس کی ترجمان، میں اور سلمیٰ اور ہماری ترجمان ایرینا اس میزکے گرد بیٹھ نہ گئے۔’’کیا سمجھتے ہیں یہ لوگ؟ ہم لوگ بھی کیا متعصب سیاست دانوں کی طرح ایک دوسرے کے دشمن ہیں؟ ادب میں یہ دشمنی نہیں چلتی اورکاش کہیں بھی نہ چلے۔‘‘میں نے کہا ’’مگر اس بد قسمتی کو کیا کہیے کہ تمہاری میری ملاقات اب نہ ہندوستان میں ہوتی ہے’ نہ پاکستان میں‘ اور ہوتی ہے تو صرف ماسکو میں !‘‘

’’ان لوگوں کو چاہیے‘‘۔ فیض نے ہنس کر کہا۔ ’’اپنے روسی ادیبوں کی کانگریس ہر سال منعقد کیا کریں۔ اسی بہانے مل لیا کریں گے…‘‘ میری طرف جھک کر پوچھا۔ ’’تمہاری ترجمان تو بڑی خوبصورت ہے۔ کہاں سے اینٹھی ہے؟‘‘

میں نے کہا ۔’’بدل لو۔ مگر یاد رکھنا یہ یہودن ہے!‘‘ ہم سب ہنسنے لگے۔ پھر جام سے جام ٹکرانے لگے۔ دو جھنڈے ساتھ لہرانے لگے۔ اتنے میں جنوبی افریقہ کے مشہور ناول نگار الیکسی لاگونا ہاتھ میں کونیک کا جام اٹھائے ٹوسٹ پیش کرنے کے لیے ہماری میز پر آگئے۔ پھر کہیں سے گم زادے کی نظر ہم پر پڑگئی۔گم زادے کا شمار سوویت شاعروں کی پہلی صف میں ہوتا ہے۔ ہندوستان آچکے ہیں اور اردوکے صرف دو لفظ جانتے ہیں۔ ’’مشہورشاعر‘‘ چنانچہ ہم سے مصافحہ کرتے ہوئے اور منہ چومتے ہوئے بولے‘‘۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض ‘‘۔ ’’مشہور شاعرکرشن چندر‘‘۔ ’’مشہور شاعر سلمیٰ صدیقی‘‘۔ پھر ہماری ترجمان کی طرف شوخ نگاہوں سے تاکتے ہوئے پوچھنے لگے۔ ’’مشہور شاعر…؟ ‘‘میں نے کہا ۔ ’’ایرینا۔‘‘’’ایری نچکا‘‘۔ گم زادے نے اس نام کو اور بھی پیار سے لیا اور اس کے قریب کرسی گھسیٹ لی۔پھر اور لوگ آتے گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہماری میز پر پانچ سات جھنڈے جمع ہوگئے تھے۔ اس کے بعد جتنے بھی دن ہم ہوٹل مسکوا میں رہے ‘ میری اور فیض کی میز ایک ہی رہی۔ ہندوستان اور پاکستان ایک ہی میز پر کھانے کھاتے رہے‘‘۔

50 برس پرانی اس تحریر کو پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ اب ہمارے درمیان نہ فیض ہیں نہ کرشن چندر۔ دونوں رخصت ہوئے لیکن ان کے سینوں میں امن کی خواہش جس شدت سے لہریں لیتی تھی، وہ آج بھی زندہ ہے۔ آج بھی پاکستان اور ہندوستان کے ادیب اس کی خواہش رکھتے ہیں کہ سرحدی علاقے کے کھیتوں کو ٹینک اپنے آہنی پہیوں سے نہ روندیں۔ ان میں کسان کا ہل اور ٹریکٹر چلے اورگیہوں کی فصل لہلہائے۔

گیہوں جو انسانوں کی بھوک مٹاتا ہے اور جب اس سے بنی ہوئی روٹی، تندورکی آگ میں سینکی جاتی ہے تو اس کی سوندھی خوشبو دنیا کی ہر خوشبو پر بھاری ہوتی ہے۔لکھنے والوں اور فنکاروں کی یہ خواہش بدترین جنگوں کے دوران بھی زندہ رہتی ہے۔ اس عالمی کانفرنس میں بھی رواداری، تحمل اور امن پسندی کی یہ جستجو، یہ خواہش مختلف رنگوں میں جھلک رہی تھی۔ ان میں سب سے دلکش اور دل ربا انداز شیما کرمانی اور ان کے ساتھیوں کی پیش کردہ تمثیل میں نظر آیا۔

’تحریک نسواں‘ جسے سالہا سال پہلے شیما نے شروع کیا تھا، ان برسوں کے دوران انھوں نے امن کے لیے بہت کچھ کیا۔ اس کانفرنس میں بھی ’فیض اور امن عالم‘ کے فوراً بعد تحریک نسواں کی طرف سے ’ ذکر یار چلے‘ پیش کیا گیا۔ فیض کی نظموں اور انورجعفری کے لکھے ہوئے اسکرپٹ پر شیما کرمانی نے گھنٹے بھر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یہ اسکرپٹ جو فیض صاحب کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کررہا تھا اسے صائمہ حیات اور عمران خان نے پیش کیا۔یہ شیما کا کمال تھا کہ انھوں نے تیز بخار میں بھی دیکھنے والوں کو یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ کس اذیت سے گزر رہی ہیں اور چند قریبی لوگوں کے سوا کسی کو ان کی اس کیفیت کا گمان بھی نہیں گذرا۔

چار دن جاری رہنے والی اس کانفرنس میں یوں تو سب ہی سیشن خاص تھے لیکن احمد ندیم قاسمی کی صد سالہ تقریب خاص الخاص اس حوالے سے تھی کہ اس میں شرکت کے لیے ان کی بیٹی ناہید قاسمی لاہور سے آئی تھیں اور لوگ ان کے سامنے بچھے چلے جارہے تھے۔ اسی طرح کانفرنس کے دوسرے دن نعمان الحق نے اپنا لیکچر ’غالب سے اقبال تک‘ ’چہ مستانہ می رود‘ کے عنوان سے دیا جس پر ان کی بے حد داد و تحسین ہوئی۔ وہ ایک دانشور ہیں اور اپنی گفتگو میں ہمیشہ علم و ادب کے موتی رولتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو سننے کے لیے شہر والوں کو سال بھر علم وادب کی اس محفل کا انتظار رہتا ہے۔