منتخب کردہ کالم

اسلامی دہشت گردی کیا ہے؟ آغا مسعود حسین (نئی دنیا)

میرے لئے یہ خبر تعجب کا باعث نہیں بنی ہے کہ امریکہ اپنی نئی حکمت عملی کے تحت ”اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح استعمال کرکے مسلم دنیا کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں مسلمانوں کو باقاعدہ دہشت گرد قرار دیا تھا اور اب جبکہ ٹرمپ صدر کی حیثیت سے غیر معمولی طاقت کا حامل ہوگیا ہے، وہ یقیناً مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک نسل پرست شخص ہے، جو ”امریکہ فرسٹ‘‘ کا نعرہ لگا کر امریکی مفادات کو طاقت ، تشدد اور دھمکیوں کے ذریعے آگے بڑھائے گا۔ وہ اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرکے مسلم دنیا کو باقی دنیا سے کاٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل اس نے بارک اوباما پر یہ الزام لگایا تھا کہ داعش کی تخلیق امریکہ نے کی ہے، یقیناً ٹرمپ کی یہ بات درست ہے۔ داعش کو مضبوط بنانے، انہیں اسلحہ سے لیس کرنے اور روپیہ پیسہ دینے کے بعد شتر بے مہار کی طرح عراق ، لیبیا اور شام میں دھکیل دیا گیا، جہاں تاریخ کا بد ترین خون خرابہ ہو رہا ہے۔ اس سے پوری دنیا واقف ہے اور یہ بات بھی صیحیح ہے کہ داعش یا القاعدہ میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جو امریکہ کے ایجنٹ بن کر اسلام کی تعلیمات کو مسخ کر رہے ہیں، لیکن مسلمانوں کی اکثریت نہ تو دہشت گرد ہے اور نہ ہی وہ دہشت گردی کے فلسفہ سے اتفاق کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داعش نہ تو ”خلافت‘‘ قائم کرنے میں کامیاب ہو سکی اور نہ ہی مغربی افکار کے فروغ کو روکنے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ تاہم یہ چند لاکھ سر پھرے جو امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کی پشت پناہی سے مسلم دنیا میں انتشار پیدا کر رہے ہیں، کبھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
اس پس منظر میں داعش یا القاعدہ کو اسلامی دہشت گردی سے منسوب کرنا قطعاً قرین انصاف نہیں اور مسلمانوں کی اکثریت (جو انتہائی پر امن ہے) کو اسلامی دہشت گردی کا خطاب دینا افسوسناک، قابل مذمت اور بیمار سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں دہشت گردی ہوئی، اس میں دیگر اقوام کے لوگ بھی شامل تھے۔ خود امریکہ میں دہشت گردی کے جو افسوسناک واقعات رونما ہوئے ان میں کرسچیٔن بھی پیش پیش تھے، نیز اسرائیل بھی عرب ممالک میں خصوصیت کے ساتھ فلسطینوں کے خلاف دہشت گردی کر رہا ہے، تو کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ یہودی دہشت گردی کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ اگر آئندہ بھی اسرائیل کا یہی طرز عمل رہا تو دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوگا۔ ایک اور دہشت گردی جو مقبوضہ کشمیر میں ہو رہی ہے، کیا اس کو ہندو دہشت گردی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا؟ کشمیر کی صورت حال سے ساری دنیا واقف ہے۔ اس رائے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا اس بارے میں علم نہیں رکھتی کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔ آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ بلکہ آج سے بیس سال قبل ہی ٹیکنالوجی کے دور کا آغاز ہو گیا تھا۔ کوئی بھی خبر‘ کوئی بھی تصویر اور کوئی بھی ویڈیو اب دنیا سے چھپی نہیں رہ سکتی۔ میڈیا پھیلتا ہوا سوشل میڈیا کی طرف چلا گیا ہے۔ جو ادھر نہیں چھپ سکتا یا ٹی وی نہیں چلا پاتے وہ سب فیس بک وغیرہ پر آ جاتا ہے اور پل بھی میں۔ ایسے میں ٹرمپ جیسے لوگ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ بھارت تو خود امریکہ کا پٹھو بنا ہوا ہے۔ وہ خطے میں پاکستان کے خلاف ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے۔ وہ امریکہ سے اس کی پوری قیمت وصول کر رہا ہے۔ اگر دہشت گردی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی آواز اٹھاتے ہیں تو پھر ایسی دہشت گردی تو دنیا کا ہر وہ انسان کر رہا ہے جس پر ظلم ہوتا ہے اور وہ تھانے اور عدالت میں جا کر انصاف مانگتا ہے۔ اس کی رُو سے تو پھر ہر مظلوم دہشت گرد کہلائے گا۔ دہشت گردی کو صرف اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دینا بہت بڑی زیادتی ہے جو خود امریکہ نے کی ہے۔ اس نے پوری دنیا میں حملے کرائے اور لاکھوں مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل کر دکھ دیا۔اس سے کوئی بھی پوچھنے والا نہیں کہ اس نے یہ ظلم کیوں کئے اور وہ ان کا حساب کب دے گا؟
دراصل امریکی صدر روز اول ہی سے مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ بعض امریکی دانشور کھلم کھلا یہ کہہ رہے ہیں کہ اشراکیت کے خاتمے کے بعد اسلامی دنیا امریکہ کا آئندہ ٹارگٹ ہونے والا ہے۔ تہذیبوں کا تصادم (Clash of Civilization) کے مصنف ہنٹگٹن نے لکھا ہے کہ اسلام مغربی دنیا کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے جسے ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ ویسے سابق امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے اقتدار کے آٹھ برسوں میں مشرق وسطیٰ سمیت دیگر مسلم ممالک میں جو تباہی پھیلائی کیا اس کو کرسچیٔن دہشت گردی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا؟ مسلم ممالک (پاکستان، ایران کو چھوڑ کر) امریکہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں، یہاں تک کہ عرب لیگ نے بھی ٹرمپ کے مسلمان دشمن بیانات کی مذمت نہیںکی۔ ویسے بھی عرب ممالک کے مطلق العنان حکمران اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے امریکہ کے خلاف کسی قسم کا قدم نہیں اٹھائیں گے، بلکہ جی حضوری کرتے ہوئے اس کی پالیسوں کی حمایت ہی کریں گے۔ مزید برآں اس وقت مسلمان ملکوں کے مابین کسی قسم کا موثر اتحاد نظر نہیں آ رہا، بلکہ اس کے آئندہ ہونے کے بھی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ کئی مسلمان ملکوں میں امریکہ کے اڈے موجود ہیں جو ایک طرف ان حکمرانوں کی حفاظت کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان قوموں کے خلاف فوجی کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، جو اس کے مفادات کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
بہر حال، قطع نظر اس کے کہ اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے یا نہیں، امریکہ مسلم دنیا کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا۔ ٹرمپ کے نسل پرستی پر مبنی خیالات سے مسلمانوں کو پہلے بھی تشویش تھی اور اب زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں ٹرمپ کی پالیسوں خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف بیانات کی وجہ سے آئے دن مظاہرے ہو رہے ہیں۔ قیاس یہ ہے کہ یہ مظاہرے مزید بڑھیں گے کیونکہ ٹرمپ اپنی پالیسوں پر نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف آثار وحالات بتا رہے ہیں کہ ٹرمپ پاکستان کے خلاف بھی کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، بلکہ وہ بھارت کے ایما پر پاکستان کے لئے غیر معمولی مسائل پیدا کرسکتا ہے، یعنی ایک بار پھر ڈومور کا مطالبہ کرکے پاکستان کو کارنر کرنے کی کوشش کرے گا۔
حکومت پاکستان کے لئے یہ صورت حال پریشانی کا باعث بنے گی؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں نے دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، بڑی تعداد میں پاکستان کے شہری بھی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ فاٹا اور سوات میں دہشت گردوں کا صفایا کرکے پاکستان نے اپنے آپ کو اور دیگر ممالک کو دہشت گردی کی لعنت سے بچالیا ہے۔ اتنا عظیم کارنامہ انجام دینے کے بعد اگر do more کا مطالبہ ہوتا ہے تو پاکستان کو اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے، بلکہ سفارت کاری کو زیادہ فعال اور موثر بنا کر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ کو امریکہ اور یورپ میں اجاگر کرنے کی جانب توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ موجودہ صورت حال کا تقاضا بھی یہی ہے، ورنہ اسلامی دہشت گردی کا لقب پاکستان سمیت مسلم ممالک کا حوالہ بن سکتا ہے۔