منتخب کردہ کالم

اس وقت انسان کیا جواب دے گا؟….بلال الرشید

لکھنا اب لازمی ضرورت ٹھہرا

اس وقت انسان کیا جواب دے گا؟….بلال الرشید

کبھی کبھی ان دنوں کا خیال آتاہے ، انسان نے پہلی بار اس نیلے سیارے پر جب شعور کی آنکھ کھولی ہوگی ۔ کیسے عجیب دن ہوں گے وہ بھی ۔ بجلی نہیں تھی ، مضبوط عمارتیں نہیں تھیں، ذخیرہ شدہ خوراک نہیں تھی ۔ کسی کی بینائی کمزور ہو جاتی تو ماہرِ امراضِ چشم موجود نہ تھے۔ وزنی چیزیں ادھر سے ادھر لے جانے کے لیے پہیہ نہیں تھا ۔ اگر ہم اس دور میں پیدا ہوئے ہوتے ؟یہ وہ زمانے تھے، جب اوسط انسانی عمر بہت کم تھی ۔ کسی بھی بڑے مرض میں مبتلا ہونے کا مطلب یقینی موت ہوا کرتا تھا۔ جراثیم کش ادویات موجود نہیں تھیں۔ اکثر زخم بگڑ جایا کرتے ۔
وہ بہت عجیب دن تھے ۔ انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ زمین کے نیچے کہاں کہاں قیمتی ذخائر موجود ہیں ۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ تیل ، کوئلے اور گیس کو جلا کر توانائی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ آہستہ آہستہ اسے اندازہ ہوا کہ بظاہر قوی ہیکل نظر آنے والے جانور منصوبہ بندی (Planning)کی صلاحیت سے محروم تھے۔ آہستہ آہستہ اس نے ان پر سواری شروع کر دی، وزن ان پہ لادنا شروع کر دیا۔ زندگی آسان ہوتی گئی۔ مٹی اور گارے سے عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہوئیں ۔ پھر وہ دن بھی آیا ، جب پکی ہوئی مضبوط اینٹ نے اس کی جگہ لے لی۔
جس روز پہیہ ایجاد ہوا ہوگا اور جب انسان نے آگ کوجلانااور بجھانا سیکھا ہوگا، اس روز کیسا جشن کا سماں ہوگا؟ یہ عین ممکن ہے کہ انسان نے Dung beetleکو دیکھ کر پہیہ ایجاد کیا ہو۔ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کی خوراک ہاتھی اور بیل وغیرہ کا گوبر ہے ۔ یہ اس گوبر کی ایک بہت بڑی گول گیند بنا کر اسے سر سے دھکیلتا ہوا اپنے بل میں لے جاتاہے ۔ اسی طرح ظاہر ہے کہ انسان نے پرندوں کو دیکھ کر اڑنے کا خواب دیکھا ہوگا ۔مچھلی کو دیکھ کر تیرنے کا سوچا ہوگا۔ اڑنے کے سلسلے میں بہت بڑی پیش رفت تو ظاہر ہے کہ انجن کی ایجاد تھی ۔ اس وقت تک انسان تیل اور کوئلے وغیرہ میں پوشیدہ توانائی دریافت کر چکا تھا۔ انسان کا غیر معمولی ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ وہ ایسے عدسے دریافت کر چکا تھا، جس سے خوردبینی سطح پر چیزوں کا جائزہ لیا جا سکتا۔ یوں اس نے زخم بگاڑنے والے جراثیم کو دیکھا ۔ اس نے ان جراثیم کو مارنے کے لیے مختلف کیمیکلز آزمائے ۔ جلد ہی جراثیم کش ادویات منظرِ عام پر آگئیں۔
انسان ایسے عدسے ایجاد کرتا چلا جا رہا تھا، جن سے دور ترین چیزوں کو بھی دیکھا جا سکتا۔ یوں اس پہ عجیب و غریب انکشافات ہونے لگے۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ کرّ ئہ ارض کائنات کا محور و مرکز نہیں ہے بلکہ وہ تو ناقابلِ یقین حد تک پھیلی ہوئی اس عظیم الشان کائنات میں ریت کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے تو اس کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔
انسان نے سورج کے گرد گھومتے ہوئے سیاروں ، سیاروں کے گرد گھومتے ہوئے چاند اور چاند کے گرد گھومتی ہوئی چٹانوں کو دیکھا ۔ وہ حساب کتاب میں جت گیا۔ اس نے بلندی سے پتھر زمین پر گرا کر پیمائشیں کیں۔ اس نے کششِ ثقل دریافت کر لی۔ اس نے کششِ ثقل اور سیاروں کے مداروں کی ایسی وضاحتیں پیش کیں کہ یہ سب عقدے حل ہو کر رہ گئے۔ انسان نے یہ خواب دیکھا کہ کسی اڑنے والی چیز پر بیٹھ کر وہ زمین کی کششِ ثقل سے باہر نکل سکے۔ آخر ایک دن آیا، جب جہاز کے بعد میزائل اڑنا شروع ہوئے۔ انسان نہ صرف خود خلا میں گیا بلکہ اس نے بہت دور تک دیکھنے والی دوربینیں بھی خلا میں بھیج دیں ۔ ان میں سے ایک کا نام کیپلر تھا۔ اس نے بے شمار سیاروں کے بارے میں ہمیں معلومات دیں ۔ آخر یہ معلوم ہوا کہ ہماری اپنی کہکشاں میں سیاروں کی تعداد اربوں میں ہے ۔ پوری کائنات کے بارے میں تو کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا۔ ہاں ایک ادھورا سا اندازہ یہ تھا کہ اوسط ہر سورج کے گرد کم از کم ایک زمین موجود ہے ۔ زمین کے نیچے سے معدنیات نکالنے کا کام تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا۔
اب صورتِ حال یہ تھی کہ پانچ ارب مخلوقات میں سے ایک کرّئہ ارض پہ بری طرح غالب (Dominant) ہو چکی تھی۔ نہ صرف یہ کہ زمین پر موجود وسائل پر وہ قبضہ کر چکی تھی ، زمین کھود کر انہیں نکال رہی تھی بلکہ آسمان میں ہر چیز کا جائزہ بھی لے رہی تھی۔ کائنات کی ابتدا اور اختتام کے نظریات پیش کر رہی تھی ۔ کرّئہ ارض پہ زندگی کی ابتدا پر تھیسز لکھ رہی تھی؛حالانکہ جسمانی اور حیاتیاتی طور پر اس میں اور دوسرے جانوروں میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔ وہ بھی خون میں دوڑتے ہوئے گلوکوز اور آکسیجن پہ زندہ تھے اور انسان بھی۔ وہ بھی ہڈیوں، گوشت، Nervesاور جلد پہ مشتمل تھے، انسان بھی یہی تھا۔ وہ بھی پانچ حسیات کے بل پرزندگی گزار رہے تھے، انسان بھی ۔ وہ بھی ہائیڈروجن، کاربن، نائٹروجن، کیلشیم، فاسفورس اور آکسیجن تھے اورانسان بھی ۔ فرق تو کوئی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود یہ سب کیونکر ہوا اور کیسے انسان نے اس پورے کرئہ ارض کو Dominateکیا۔ کیسے دوسرے جانداروں کا استحصال کیا ، یہ ایک ایسی داستان ہے ، جس کا ہر صفحہ خون سے بھرپور ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انسان نے ہر چیز پر غور کیا ۔ تمام اہم معدنیات سے فائدہ اٹھایا۔ ہر طاقتور جانور پہ سواری کی ۔ جو چیزیں نظر نہیں بھی آرہی تھیں، جیسا کہ ایٹم، ان پر بھی تحقیق کی۔ ان سے بھی فائدہ اٹھایا۔ ہر طرح کی ایجادات کیں لیکن جان بوجھ کر ایک سوال سے نظر چراتا رہا۔ وہ سوال یہ تھا کہ پانچ ارب مخلوقات میں سے ایک کو عقل کیونکر ملی اور باقیوں میں سے کسی کو کیوں نہ مل سکی ؟ یہ بالکل سامنے کا سوال مائونٹ ایورسٹ سے زیادہ بڑا تھا لیکن ہر پوشیدہ چیز پر تحقیق کرنے والا انسان اس سوال کے سامنے آنے پر اپنا منہ چھپا لیتا۔ کیوں؟
اس سوال کا اس کے سوا اور کوئی جواب نہیں تھا کہ باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت خدا نے ایک مخلوق کو عقل دی ہے اور باقیوں کو نہیں دی۔ جسے عقل دی ہے ، اسے جواب دہ بنایا ہے ۔ اسے زمین پر بسر ہونے والی اپنی زندگی کا حساب دینا ہوگا ۔ اس سوال کا جواب بہت تلخ تھا۔ انسان زندگی کے آغاز و اختتام کے جس تھیسز پر بھی ایمان لے آتا، سوائے خداکے وجود کے کوئی بھی چیز انسانی عقل کی وضاحت دینے سے قاصر تھی ۔ سب مخلوقات میں سے ایک کو خصوصی طور پر عقل سے نوازا گیا تھا ۔ اس عقل کی مددسے وہ زمین و آسمان کی سیر کرتی پھر رہی تھی لیکن جس نے یہ عقل دی تھی، اس کے وجود کا اقرار کرنے سے منکر تھی ۔ اس کا مطالبہ یہ تھا کہ ایک چار دیواری کے اندر کچھ دیر کے لیے خدا کا نام لیا جا سکتاہے لیکن اسے اپنی روزمرہ زندگی میں دخل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم جنس پرستی سمیت ہر انسانی خواہش کا احترام خدا کو کرنا ہوگا ۔ وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا نے کب انسان سے یہ درخواست کی کہ حضور !مجھ پر ایمان لے آئیے، مہربانی ہوگی۔ لیکن جب وہ وقت آئے گا ۔ جب وہ سب انسانوں کو زندہ کرے گا اور اپنے سامنے حاضر کرے گا۔ جب وہ یہ سوال کرے گا کہ میں نے تمہیں عقل دی ، تم نے اس کا کیا صلہ دیا ؟ اس وقت ہم کیا جواب دیں گے؟