منتخب کردہ کالم

اصغر چانڈیو اور گنڈا سنگھ…منیر احمد بلوچ

اوئے ایتھے وڈے وڈے پولیس افسر میرے گھر سلام کرن آندے نیں تے توں مینوں اجے تک سلام کرن وی نئی آیا اوئے تینوں کنیں اس تھانے وچ میتھوں پچھے بغیر ایس ایچ او لگایا اے ‘‘ یہ الفاظ شریف برادران کی راولپنڈی میں ہتھ چھٹ فورس کے سپہ سالار حنیف عباسی کے ہیں جو انہوں نے اقتدار اور طاقت کے نشے میں دھت ہو کر ر اولپنڈی پولیس کے تھانے کے ایس ایچ اونسپکٹر اصغر چانڈیو سے کہے جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کئے جانے والے ون ویلنگ قانون کے سخت احکامات کی پیروی کرتے ہوئے دو نو جوانوں کو ون ویلنگ کرنے کے جرم میں گرفتار کر رکھا تھا ۔حنیف عباسی تھانے کی املاک اور ریکارڈ کی توڑ پھوڑ کے بعد مسلم لیگ یوتھ فورس کے ان دونوں لڑکوں کو جیل کا تالہ توڑ کر ان کی موٹر سائیکلوں سمیت شیر شیر شیر کے نعروں کی گونج میں قانون اور وردی کے منہ پر تھپڑوں کی بارش کرتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے اور پنجاب کی پولیس فورس اپنی بے بسی پر اس لئے آنسو بہاتی رہ گئی کہ جنہیں وہ اپنے کمانڈر سمجھ رہے تھے وہ اصل میں حنیف عباسی کے غلام نکلے ۔نا فرمان اور نا سمجھ پولیس انسپکٹر اصغر چانڈیو کئے کی سزا پا کر اپنے مقام کو پہنچ چکا ہے اور نواز لیگ کی سوشل میڈیا اس بات پر خوش ہورہی ہے کہ مسلم لیگ نواز کی مرکزی اور پنجاب حکومت نے شارق کمال اور اصغر چانڈیو جیسے پولیس افسران کو قانون کا ماما بننے پر نشان عبرت بنا کر رکھ دیا ہے۔ پنجاب پولیس کی جانب سے ون ویلنگ کے خلاف دیئے جانے والے اشتہارات میں بڑے فخر سے بتایا جا رہا ہے کہ اب تک 358 سے زائد نوجوانوں کو ون ویلنگ کے جرم میں گرفتار کیا جا چکا ہے اور جن میں سے اکثر کو تیرہ اور چودہ اگست کو جوڈیشل مجسٹریٹوں نے چھ چھ دن کی قید کی سزا بھی سنا دی ہے اور اس قانون میں ساتھ یہ بھی تحریر ہے کہ ایسے لڑکوں کے والدین کو بھی شریک جرم سمجھا جائے گا۔۔۔میاں شہباز شریف کو چاہئے تھا کہ یہ قانون نافذ کرتے ہوئے ساتھ یہ بھی لکھ دیا جاتا کہ” مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے اس پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے اور اگر کسی نے اس شق کی خلاف ورزی کرنے کی گستاخی کی تو فیصل آباد میں رانا ثنا اﷲ اور عابد شیر علی، گوجرانوالہ میں خرم دستگیر، بہاولنگر میں لالیکا ، ملتان میں رانا محمود الحسن اور بہاولپور میں اقبال چنڑ گروپ، راولپنڈی کے حنیف عباسی جیسالشکر لے کر ایسے نا اہل پولیس افسران کو ” سنگین جرم‘‘ کی پاداش میں پولیس تھانوں سے دھکے دیتے ہوئے معطل کر دیا جائے گا !!
اگر خادم اعلیٰ پنجاب منا سب سمجھیں تو یہ تحریر ایک بات ضرور دیکھ لیں یا شعیب عزیز سے زبانی سن لیں کہ قیام پاکستان سے قبل یونیفارم پہنے پشاور کے تھانہ ہشت نگری کے ایس ایچ او سب انسپکٹر پولیس گنڈا سنگھ نے صوبہ سرحد کے گورنر سر جارج کننگھمکو سلیوٹ کرتے ہی اپنی پولیس بیلٹ اتار کر ان کی میز پر رکھ دی۔ گورنر سرحد اور ان کا سٹاف حیران ہو کر اس سب انسپکٹر کی جانب دیکھ ہی رہے تھے کہ اس نے ایک کاغذ جس پر اس کا استعفیٰ درج تھا گورنر کو پیش کر دیا جس کی وجوہ میں لکھا ہوا تھا” کیا آپ کی پولیس اور اس کا قانون اس حد تک بے بس ہو چکا ہے کہ ہمیں دفتروں اور تھانوں کے اندر جب چاہے ذلیل کیا جائے آپ کے قانون کو نا فذ کرتے ہوئے اگر ہم نے سر بازار رسوا ہی ہونا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ ہم یہ وردی اتار کر اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔۔۔۔ گنڈا سنگھ کے استعفیٰ کو تفصیل سے پڑھنے کے بعد گورنر نے اسی وقت ہاٹ لائن پر وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن سے رابطہ کیا؟۔قیام پاکستان سے قبل پشاور کے تھانہ ہشت نگری کی حدود میں ایک مشہور ہندو صنعت کار پریم چند کھنہ کے بیٹے رمیش کھنہ کے ہاتھوں ایک غریب مسلم گھرانے کے لڑکے کا قتل ہو گیا۔اس ہندو صنعت کار نے ایس ایچ او کو بھاری رشوت کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ایف آئی آر اور تفتیشی مواد اس طرح کا تیار کرو کہ میرا بیٹا بری ہو جائے لیکن ایس ایچ او تھانہ ہشت نگری گنڈا سنگھ نے انکار کرتے ہوئے کہا وہ صرف سرکار کے قانون اور میرٹ کے مطا بق کام کرے گا بھاٹیہ جو دوسری جنگ عظیم میں انگریز سرکار کو لاکھوں روپے چندہ دینے کی وجہ سے اعلیٰ حلقوں میں انتہائی اثر و رسوخ رکھتا تھا ایس ایچ او سے ناراض ہو کر چلاگیا۔
ایس ایچ او نے میرٹ پر چالان تیار کیا اور چونکہ قتل کی یہ واردات دن کی روشنی میں ہوئی تھی اس لئے گواہان بھی اپنی جگہ قائم رہے اور چار ماہ بعد سیشن جج نے رمیش کھنہ کو سزائے موت سنا دی جس کے خلاف ہندو صنعت کار نے اس وقت کے چوٹی کے وکلاء کی خدمات حاصل کرتے ہوئے پہلے ہائیکورٹ اور پھر اپیل کیلئے سپریم کورٹ تک گیا لیکن سزائے موت بر قرار رہی۔ گورنر سرحد سے رحم کی اپیل کی گئی جسے اس نے مسترد کر دیا اور پھر وائسرائے ہند نے بھی اس کی رحم کی اپیل کر مسترد کر دی۔۔۔اسی دوران شہنشاہ برطانیہ کی تاج پوشی کا جشن قریب آ گیا جس پر اس وقت سرحد کے وزیر خزانہ مہر چند کھنہ اور سردار بلدیو سنگھ نے اپنا اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے لندن جانے کیلئے بھاٹیہ کو اس جشن میں شرکت کا دعوت نامہ جاری کرا دیا۔ شہنشاہ برطانیہ کیلئے یہ چونکہ خوشی کا موقع تھا اس لئے دربار شاہی کو جب بتایا گیا کہ پریم چند کھنہ نے چند سالوں میں تاج برطانیہ کو کئی لاکھ روپے چندہ دیا ہے تو جارج ہفتم کوپیش کی گئی پریم چند کھنہ کے بیٹے رمیش کھنہ کی رحم کی اپیل منظور کرلی گئی جس پر سزا کی منسوخی کا شاہی فرمان جا ری ہو گیا۔
شاہی فرمان جاری ہوتے ہی پریم چند لندن سے پشاور پہنچا اور پھر ڈھول باجوں کے ساتھ اپنے بیٹے کو جیل سے گھر لے آیا۔۔۔کوئی تین چار ہفتے بعد سب انسپکٹر گنڈا سنگھ اپنے عملے کے ساتھ پشاور کے کریم با زار میں گشت کررہا تھا کہ پریم چند کھنہ سے اس کا سامنا ہو گیا جس نے گنڈا سنگھ کو دیکھتے ہی زور سے زمین پر تھوکتے ہوئے کہا” اوئے گنڈا سنگھ دیکھ لیا اپنے قانون کی اوقات کو اب میں تمہاری یہ وردی اتروا کر تمہیں گھر بھجوا کر چھوڑوں گا‘‘۔ گنڈا سنگھ اسی رات گورنر سے ملاقات کا وقت لینے میں کامیاب ہو گیا اور صبح دس بجے وہ گورنر سرحد جارج کننگھم کے سامنے کھڑا تھاجو اس کا استعفیٰ ہاتھ میں لئے وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن سے درخواست کر رہا تھا کہ اگر ہم نے اپنی ہی پولیس کے افسران کی عزت اور انہیں عطا کی گئی وردی کا خیال نہ رکھا تو ان میں بد دلی پھیل جائے گی جس سے تاج برطانیہ کی عزت و احترام میں بھی فرق آنا شروع ہو جائے گا۔۔۔وائسرائے ہند نے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے کہا کہ اب وہ کس طرح شہنشاہ برطانیہ سے اس مسئلے پر بات کر سکتا ہے لیکن گورنرکے دیئے جانے والے مضبوط دلائل سنتے ہوئے اس نے تاج برطانیہ کو پریم چند کی گھٹیا حرکت ، سب انسپکٹر پولیس کے استعفے کا حوالہ دیتے ہوئے ایک تفصیلی خط بھجوا دیا۔۔۔۔۔شہنشاہ برطانیہ جارج ہفتم کووائسرائے ہندکی یہ رپورٹ ملی تو تاج شاہی نے اپنی انا اور وقار کو ایک طرف رکھتے ہوئے رمیش چند کھنہ کی معافی کے جاری کردہ احکامات منسوخ کرتے ہوئے سزائے موت پر فوری عمل در آمد کا حکم جاری کر دیا۔راولپنڈی کے پولیس انسپکٹر اصغر چانڈیو کے ساتھ جو کچھ حنیف عباسی نے کیا اسی طرح پاکستان بننے سے پہلے انگریز کی بادشاہی میں پشاور کے پولیس سب انسپکٹر گنڈا سنگھ کے ساتھ ایک ہندو صنعت کار نے کیا تھا جو تاج برطانیہ کو دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں روپے چندہ دیتا چلا آ رہا تھا … سوال یہ ہے کیا نواز لیگ کے اس قسم کے عنا صر اس طرح کی قانون شکنی اور بد گوئیوں سے مستقبل میں آنے والی کسی بہتر تبدیلی کا راستہ روک سکیں گے؟!!