منتخب کردہ کالم

اللہ کا کرم ہے…امر جلیل

اللہ کا کرم ہے...امر جلیل

اللہ کا کرم ہے…امر جلیل

کئی روز سے میں اس جستجو میں لگا ہوا ہوں کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں مجھے کوئی ایک ایسی مثال مل جائے جس میں کسی سیاسی پارٹی نے علم وتعلیم کی ڈوبتی ہوئی نائو کو کنارے تک پہنچانے کے لئے روڈ راستے بند کرکے بیچ چوراہے میں بستر بچھا کردھرنا دیا ہو۔ چھان بین کرنے کے باوجود مجھے آج تک ایک مثال نہیں ملی ۔ ستر برس کے ایک ایک لمحے کی تاریخ حفاظت کے ساتھ محفوظ کی گئی ہے۔ ایسی تاریخ مرکزی اور صوبائی آرکائیوز محکموں میں محفوظ ہے۔ آرکائیوز والے دستاویزات سنبھال کررکھتے ہیںچونکہ ہم پاکستانیوں کو لکھنے پڑھنے سے لگن ہے، اس لئے ایسی تاریخ کا مستند ریکارڈ بڑی بڑی یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں بھی موجود ہے۔ ایسے مواد سے ہماری نئی نسل فیضیاب ہوتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ آپ کوبتاسکتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے وزرائے اعظم کی تعداد کتنی ہے جو چند دنوں کے لئے وزیر عظم بنے تھے۔وہ آپ کویہ بھی بتا سکتے ہیں کہ ایسے وزرائے اعظم کی تعداد کتنی ہے جو چند ہفتوں کے لئے وزیر اعظم بنے تھے اور ایسے وزرائے اعظم کی تعداد کتنی ہے جو کچھ مہینوں کے لئے وزیر اعظم بنے تھے۔ کراچی کے کاروباری مرکز کی مصروف ترین سڑک ایک ایسے وزیر اعظم کے نام سے منسوب ہے جو چند ہفتوں کے لئے پاکستان کے وزیر اعظم بنے تھے۔ اس روڈ کانام ہے آئی آئی چندریگر روڈ۔ تقسیم ہند سے پہلے اس روڈ کانام میکلیوڈ روڈ تھا ۔ میکلیوڈ روڈ پر این ڈبلیو ریلوے کا چھوٹاسامیوزیم ہوتاتھا، عین کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کے سامنے۔ این ڈبلیو سے مراد ہے نارتھ ویسٹرن ریلوے ۔تب برصغیر کے اس حصے میں انگریز نے کراچی سے کوٹری تک ریل کی پٹریاں بچھائی تھیں، اور ٹرین چلائی تھی ۔ اس چھوٹے سے میوزیم میں ریل کی پٹریاں بچھانے اور ٹرین چلانے تک کی تصویری اور دیگر یادیں سلیقے سے سجاکر رکھی تھیں۔ جن لوگوں نے میکلوڈروڈ کانام بدل کر آئی آئی چندریگر روڈ رکھا تھا، انہی لوگوں نے این ڈبلیو ریلوے میوزیم کا نام ونشان مٹا دیا۔ کوئی نشانی تک نہیں چھوڑی کہ ریلوے کا نظام انگریز چھوڑ کرگئے تھے۔
ضمنی باتوں کوجانے دیجئے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ میں نے آرکائیوز سے لے کر معتبر یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں جاکر چھان بین کی۔ مجھے ایک بھی ثبوت نہیں ملاکہ سیاسی جماعتوں نے تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے کبھی کوئی دھرنا دیاہو۔ تب جاکر مجھ پر عیاں ہوا کہ دھرنا کسی برائی کے خلاف دیاجاتا ہے۔ جب سب کچھ اچھا ہوتا ہے تب دھرنا نہیں دیا جاتا۔ یہ جو ہم سنتے رہتے ہیں اور اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں سرکاری اسپتالوں کابڑا برا حال ہے۔ اول توڈاکٹر غائب۔ اگر ہوتے ہیں تو وہ ڈاکٹر نہیں بلکہ مریض کے لئے خطرہ جان ہوتے ہیں دوائیں ندارد۔ اگر دوائیں ہوتی ہیں تو وہ بھی دونمبر۔ ایک ہی انجیکشن باربار آنے والے مریضوں کو لگاتے ہیں۔ اسپتالوں کی دہلیز پر مریض تڑپ تڑپ کرجان دے دیتے ہیں۔ اسپتال کے عملے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صرف کاکروچ پورے اسپتال میں رینگتے رہتے ہیں۔ حاملہ خواتین اسپتالوں کے کاریڈورز میں بچے کوجنم دیتی اور مرجاتی ہیں۔اگر خود نہیں مرتیں توبچہ مرجاتا ہے۔ یہ سب بکواس ہے۔ افواہیں ہیں۔ ہمیں بدنام کرنے کے لئے کھلم کھلا غلط بیانی ہے۔ اگر اسپتالوں میں اس طرح کی بدنظمی ہوتی توآج تک کئی سیاسی پارٹیاں دھرنوں پر بیٹھتیں اور اسپتالوں کی مبینہ حالت زار کوبہتر بنانے کے لئے احتجاج کرتیں۔ یاد ہے آپ کوکہ کبھی کسی سیاسی پارٹی نے اسپتالوں میں اصلاحات کے لئےدھرنا دیا ہو؟ پاکستان میں سرکاری اسپتالوں کا معیار عالمی معیار کے مطاق ہے۔ ہمارے سرکاری اسپتالوں کا موازنہ آپ کسی بھی ترقی یافتہ ملک بلکہ ممالک سے کرسکتے ہیں۔ یہی حقیقت ہے کہ آج تک کسی سیاسی پارٹی نے اسپتالوں کی فلاح وبہبود کے لئے پاکستان میں کسی جگہ دھرنا نہیں دیا ۔
ہم غریب نہیں ہیں۔ ہم بھکاری نہیں ہیں۔ ہم یتیم نہیں ہیں۔ ہم کسی سے زکوٰۃ نہیں لیتے ۔ ہم کسی کی امداد قبول نہیں کرتے ۔ صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ہم امریکہ سے امداد لیتے ہیں، قطعی غلط ہے۔ بے بنیاد بیان ہے۔ حال ہی میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ ذہنی مریض ہیں۔ پاکستان کوامداد دینے اور امداد بند کرنے کی دھمکی ثابت کرتی ہے کہ صدر ٹرمپ سچ مچ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہیں۔ ورنہ وہ اس قدر غیر ذمہ دارانہ بیان نہ دیتے ۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہم مالامال ہیں۔ افراط زر ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے ۔ درختوں کاتنا ہلائو تو شاخوں سے اشرفیاں جھڑنے لگتی ہیں۔ آپ کیوں مسکرا رہے ہیں میرے بھائی؟ شک ہے آپ کو میری بات پر؟ مغالطہ سمجھتے ہیں؟ اگر ہم غریب اور مفلس ہوتے اور امدادوں اور زکوٰۃ پر پل رہے ہوتے توکیا ہماری لائق فائق سیاسی جماعتیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتیں اور کچھ نہ کرتیں؟ تمام سیاسی جماعتیں روڈ راستوں،باغ باغیچوں ہوائی اڈوں، بحری اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں اور بس اڈوں پر دھرنا دے کر بیٹھ جاتیں اور ملک کو غربت، افلاس اور تنگ دستی سے نکال لیتیں۔
جستجو کے باوجود مجھے کسی دستاویز سے ایک ایسی مثال نہیں ملی، جس سے کوئی قبول کرنے پر مجبور ہوجائے کہ ہمارا تعلیمی معیار بین الاقوامی معیار کانہیں ہے۔ اگر ہمارا تعلیمی نظام ناقص ہوتا تو آج تک کئی دھرنے لگ چکے ہوتے اور نتیجتاً ہمارا تعلیمی نظام بحرانوں سے نکل کر آسمانوں کوچھو رہا ہوتا۔ کہتے ہیں کہ جس قوم کے پاس دولت کے انبار ہوں اور تعلیم نہ ہو، وہ قوم بڑی بدنصیب ہوتی ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم غریب نہیں ہیں۔ کسی سے امداد نہیں لیتے ۔ ہمارے پاس دولت ہے۔ اعلیٰ تعلیم ہے۔ اور پھر ہمارے پاس ایٹم بم بھی ہے۔ اللہ کا بڑا کرم ہے ہم لوگوں پر۔