منتخب کردہ کالم

الیکشن وقت پر ہی ہوں گے!…..کنور دلشاد

الیکشن وقت پر ہی ہوں گے!…..کنور دلشاد

مجھے یاد ہے ، عمران خان کی مبینہ بیٹی کے معاملے پر ایم کیو ایم نے 2006ء میں ریفرنس دائر کیا تھا جس کی سپیکر قومی اسمبلی (تب) چوہدری امیر حسین کی وساطت سے الیکشن کمیشن نے سماعت کی۔ ایم کیو ایم کی جانب سے دائر کردہ دستاویزات پر پندرہ دن تک بحث ہوتی رہی‘ جس کے بعد اس وقت کے چیئرمین الیکشن کمیشن قاضی فاروق نے اسے ماضی کا قصہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چیئرمین الیکشن کمیشن نے قرار دیا تھا کہ عمران خان نے 2002ء میں بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا‘ اس وقت ریٹرننگ افسران کے پاس اعتراض داخل نہیں کیا گیا۔ اس طرح ٹیکنیکل وجوہ کی بنیاد پر یہ کیس خارج کر دیا گیا‘ اور ریفرنس اگر ایک دفعہ خارج کر دیا جائے تو وہ دوبارہ زیر بحث نہیں آتا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جب سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے یہ کیس سرکاری طور پر دائر کیا گیا تو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس قاضی فاروق صاحب نے اس کیس کو بد نیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے خارج کیا تھا۔ایسے کیس کو سپیکر قومی اسمبلی کے پاس نہیں لے جایا جا سکتا، جبکہ یہ کیس ریٹرننگ افسران کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہے۔ ریٹرننگ افسران مجاز نہیں کہ بیس سال پرانا کیس سنیں‘ لہٰذا میرا خیال یہ ہے کہ یہ کیس مزید آگے جائے گا۔ اگر یہ کیس 2002ء اور 2013ء کے الیکشن میں سامنے نہیں لایا گیا تو اب 2018ء کے الیکشن میں اسے سامنے لانا بد نیتی کے زمرے میں تصور کیا جائے گا۔ میرے اندازے کے مطابق کچھ کمزوری عمران خان کے وکلا کی بھی ہے جو سارا وقت ٹی وی پر بیانات دینے میں گزارتے ہیں۔ وہ اس معاملے کو بد نیتی پر مبنی قرار کیوں نہیں دے رہے؟ سابق صدر پرویز مشرف کے انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی کے حوالے سے سپریم کورٹ کی طرف سے بہت اہم فیصلہ آیا ہے۔ جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اسحاق ڈار کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی کہ ابھی انہیں سزا نہیں ہوئی‘ اور اسحاق ڈار کاغذات نامزدگی کی منظوری کے بعد سینیٹر بھی بن گئے‘ تو مشرف صاحب کے حوالے سے بھی ایسا سوچا جا سکتا تھا‘ لیکن انہوں نے موقع ضائع کر دیا۔ بہرکیف افتخار محمد چوہدری کو سیتا وائٹ کیس کے حوالے سے بات نہیں کرنی چاہئے ۔ ایسی باتیں ذاتیات کے زمرے میں آتی ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل (184)3 اور 218(3) کے تحت بر وقت انتخابات کا انعقاد یقینی بناتے ہوئے امیدواروں سے بنیادی اہمیت کی تمام معلومات کے حصول کا طریقہ وضع کر لیا ہے۔ اب انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند امیدوار الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت متعین کردہ انتخابی فارم کے علاوہ ایک بیان حلفی دینے کے بھی پابند ہیں، جس کا مسودہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن 2013ء کے مروجہ کاغذات نامزدگی کے فارم سے اخذ کر کے عدالت عظمیٰ کی ہدایات پر مختصر وقت میں تیار کر کے عدالت عظمیٰ کو پیش کر دیا۔ اس بیان حلفی کے ذریعے کاغذات نامزدگی داخل کرانے والے امیدواروں نے اثاثوں سمیت تمام مطلوب معلومات ریٹرننگ افسران کو پیش کر دی ہیں کیونکہ امیدواروں کے بارے میں جاننا ووٹروں کا حق اور عام انتخابات کی روح ہے۔ اب حلف نامے کی صورت میں جو فارم ریٹرننگ افسران کو جمع کرائے گئے ہیں ان میں حقائق چھپائے گئے یا جعل سازی کی گئی تو ایسا کرنے والے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔ چیف جسٹس نے یہ تاریخی فیصلہ بھی سنا دیا کہ آئین کے آرٹیکل 218 کی روح کے مطابق انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کے لئے الگ بینچ بنایا جائے گا جو دیکھے گا کہ الیکشن کیسے کرائے جائیں۔ اب یقین ہو چلا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے مذکورہ آرڈر کے ذریعے اداروں کا تقدس برقرار رکھتے ہوئے انتخابی عمل کی شفافیت یقینی بنانے کی مؤثر تدبیر کی گئی ہے۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان نے اپنے ذاتی مفادات کے تحت کاغذات نامزدگی کے فارم میں سے اہم نکات کو حذف کر دیا تھا کیونکہ ان سیاسی راہنمائو ں کو ملکی اور غیر ملکی جائیدادوں، اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کے مندرجات کو پوشیدہ رکھنا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ 2017ء چیلنج کئے جانے کے بعد‘ جس کے محرک سعد رسول ایڈووکیٹ اور حبیب اکرام (صحافی) تھے‘ وفاق کی طرف سے اس اہم آئینی معاملے کو سات ماہ تک طول دیا گیا۔ اب سول سوسائٹی پر ذمہ داری آن پڑی ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے جن ارکان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تیار کردہ پرفارمے‘ جو 1997ء سے رائج تھا‘ کی اہم شقوں کو حذف کرنے یا کرانے میں مدد دی‘ ان کے خلاف اپنی طاقت بروئے کار لائیں۔ نئے حلف نامے کی صورت میں جو فارم وضع کیا گیا ہے اس سے پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں کے لئے پارلیمنٹ کے دروازے بند ہو رہے ہیں ۔ اس حلف نامے میں ایسا ایک کالم بھی موجود ہے جس کے مطابق اسمبلی ارکان کو جو اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر دیئے گئے تھے‘ ان منصوبوں کی تکمیل کا حساب بھی ان سے طلب کیا جا رہا ہے۔ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اس کے معاون اداروں کا فرض ہے کہ انتخابی عمل کو ایسا شفاف بنائیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے مثالی الیکشن تسلیم کئے جائیں۔
ان تمام خوش فہمیوں کے باوجود خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے افغانستان میں مقیم عسکریت پسند پوری شدت سے ان سیاسی جماعتوں پر حملہ آور ہوں گے‘ جنہوں نے فاٹا کو صوبے میں ضم کروایا ہے‘ وہ ان امیدواروں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں پنجاب نسبتاً پُرامن رہا‘ لیکن اب کی بار وہاں نئے طرح کے حالات نے جنم لیا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ آنے والے انتخابات شاید پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات ہوں۔ ہارنے والی پارٹی انتخابات کو تسلیم نہیں کرے گی اور اس طرح ملک شدید معاشی‘ سیاسی اقتصادی اور آئینی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کابل اور دہلی کے ایما پر ابھرنے والی پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں جو انکشافات کئے‘ وہ ہوش ربا اور لرزہ خیز ہیں۔ یہ تنظیم سوشل میڈیا کی وجہ سے طاقتور ہوتی جا رہی ہے‘ اور اس کی پشت پر مبینہ طور پر درجنوں ایسے میڈیا پرسنز کی حمایت ہے جن کی طرف ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے اشارہ کیا تھا۔ بادی النظر میں اس متحرک تنظیم میں نواز شریف کے حالیہ بیانیے کی جھلک نظر آتی ہے‘ جو سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد پاکستان میں کسی بڑے سانحہ کا بار بار ذکر کرتے ہوئے اپنی نااہلیت کے تانے بانے 1971ء کے سانحہ سے ملانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جولائی 2018ء کے انتخابات میں رخنے ڈالنے کے لئے پشتون تحفظ تحریک کے منظور احمد ،جو اب منظور پشتین بن گئے ہیں، خطرناک کھیل کی تیاری کر رہے ہیں اور الیکشن کو سبوتاژ کرنے کے لئے گلگت‘ بلتستان سے کھیل کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ اس تحریک کو جلا بخشنے کے لئے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حساس علاقے فاٹا میں تحریک شروع ہونے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف کی ممکنہ سزا کی آڑ میں پھیلائی گئی افراتفری، ہنگامے اور احتجاج بھی جولائی میں ہونے والے الیکشن کو سبوتاژ کر سکتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف ایک فارمولے پر متفق ہیں کہ اپنی سزائوں کا انتقام پاکستان کی سالمیت کے خلاف محاذ آرائی سے لیں۔ بہر حال عام انتخابات میں تاخیر کا وقت گزر چکا ہے۔ اب الیکشن وقت پر ہی ہوں گے۔