منتخب کردہ کالم

امریکہ میں اقدار کا زوال…مفتی منیب الرحمٰن

امریکہ میں اقدار کا زوال…مفتی منیب الرحمٰن
امریکہ اور اہلِ مغرب کی ماضی کی تاریخ مظالم کی داستانوں سے پُر ہے،انہوں نے مختلف براعظموںمیں ممالک پر قبضہ کیا، اپنی نو آبادیات قائم کیں، اقوام کو غلام بنایا، ہندوستان سے غربت زدہ لوگوں کو بحری جہازوں میں بھر کر افریقا کے مختلف ممالک حتیٰ کہ جنوبی امریکہ میں سری نام تک لے جایا گیا تاکہ ان ممالک میں اپنے استعماری مفاد حاصل کرنے کے لیے ان لوگوں کو استعمال کیا جائے۔ماضی کی نو آبادیاتی عالمی طاقتوں میں برطانیہ، جرمنی ، فرانس، ہالینڈ ،پرتگال اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔ امریکہ بھی پہلے برطانیہ کی کالونی بنا، مقامی باشندوں ،جنہیں ریڈ انڈین کا نام دیا گیا،کا قتلِ عام ہوا، انہیں طویل عرصے تک غلام بناکر رکھا گیا۔انہیں انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا، برطانوی تسلط سے آزادی کے بعد بھی یہ شعار جاری رہا۔ جمہوری نظام کے قیام کے بعد بھی عرصے تک عورتوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ نے ہی انسانی تاریخ میں تاحال پہلی اور آخری بار ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم برسائے۔آج بھی جرمنی ،جاپان ، جنوبی کوریا اور افغانستان میں امریکی افواج موجود ہیں ۔دنیا کے کئی اہم سمندری گزرگاہوں پر اپنے بحری اڈوں اور طیارہ بردار بحری جہازوںکے ذریعے اپنا کنٹرول قائم کر رکھا ہے اور کئی ممالک ان کے براہِ راست نشانے پر ہیں ۔معاہدۂ شمالی بحر اوقیانوس یعنی نیٹو امریکہ ہی کے زیرِ نگیں ہے ۔
تاحال امریکہ اپنی سائنسی برتری،سپر ٹیکنالوجی ،انتہائی تباہ کُن اسلحے ،معاشی قوت اور مسلح افواج کے ذریعے دنیا پر اپنی فوقیت قائم کیے ہوئے ہے ۔برطانیہ تو روایتی طور پر امریکہ کا ہم نوا رہا ہے، لیکن پورا یورپ اپنی تمام تر سائنسی وفنی ترقی اور معاشی قوت کے باوجود امریکہ کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔سلامتی کونسل سمیت اقوامِ متحدہ اوراس کے ذیلی ادارے امریکہ کے اشارۂ ابرو کے محتاج رہتے ہیں ۔ یورپی یونین کے تمام ممالک مل کر بھی امریکہ کے متوازی سپر پاور بننے کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ،چنانچہ عالمی سیاسی واقتصادی پالیسیاں امریکہ ہی کے زیرِ اثر ہیں۔ ماضی کی متوازی سپر پاور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد طاقت کا عالمی توازن قائم نہیں رہا۔اگرچہ روس دوبارہ ابھر رہا ہے اور چین ایک بڑی معاشی طاقت کی صورت میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہے ،بین الاقوامی تجارت میں توازن اس کے حق میں ہے اور اس کے ہاں سائنسی ترقی کا عمل بھی جاری وساری ہے ،لیکن امریکہ کو براہِ راست چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، اس کے منجملہ اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امریکہ اور یورپ کی مارکیٹیں چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں اور وہ ان کو اپنے ہاتھ سے نکلنے کے خطرات مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔جب تک چین یا روس سپر ٹیکنالوجی میں امریکہ کے قریب ترین یا ہم پلّہ نہیں ہوجاتے ،سیاسیات عالَم پرامریکہ کی اجارہ داری کسی نہ کسی انداز میں جاری رہے گی ۔
اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے القدس الشریف کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ اسرائیل منتقل کرنے کے واضح اعلان کے باوجود عالمی برادری کی جانب سے ردِّعمل صرف مذمتی بیانات کی صورت میں آیا ہے ،نہ تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی مؤثر معاشی و سفارتی اقدامات کیے گئے ہیں، لہٰذا یہ ساری بیان بازی معنویت سے عاری لفاظی ہی ہے ۔جہاں تک امتِ مسلمہ کا تعلق ہے ،اس کا وجود ریزہ ریزہ ہے ،تقریباً تمام مسلم ممالک کسی نہ کسی صورت میں انتشار کا شکار ہیں ، کئی ممالک میں داخلی خلفشار برسوں سے جاری ہے ۔ سعودی عرب میں بھی ارتعاش کی کیفیت ہے ،رائل فیملی میں اقتدار کی جنگ جاری ہے ،یعنی محمد بن ملک سلیمان اگرچہ اقتدار کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں ،لیکن انہیں اندرونی ردِّعمل کا خوف بھی دامن گیر ہے اور بعض با اثر شخصیات کو گرفت میں لینے کا سبب بھی یہی ہے کہ انہیں اپنی بیعت واطاعت پر آمادہ کیا جائے ، کرپشن کا الزام صرف عنوان ہے ۔ہم ریلیاں نکال سکتے ہیں ،جلوس منعقد کرسکتے ہیں ،لیکن ستاون مسلم ممالک کسی ایسے عملی اقدام کی پوزیشن میں نہیں ہیں جنہیں اسرائیل اپنے سیاسی یا معاشی مفادات کے لیے حقیقی خطرہ محسوس کرے ۔ہماری دعا ہے کہ ترکی میں منعقدہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس ”نشستن، گفتن و برخاستن‘‘ تک محدود نہ رہے ۔
لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ عالمی قیادت کے لیے اپنا اخلاقی جواز کھورہا ہے ،ٹرمپ کا تو اخلاقیات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔اب امریکہ کے نزدیک انسانی حقوق سے مراد صرف امریکیوں کے حقوق ہیں ،اُس سے ماورا دنیا کے لوگ انسانی حرمت کے حقدار نہیں ہیں ۔امریکہ اور اہلِ مغرب اپنے آپ کو حقوقِ انسانی ،حقوقِ نسواں اور حقوقِ اطفال کے پاسبان کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں ،لیکن اب صدر ٹرمپ اور بعض کانگریس کے اراکین پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے شدید الزامات ہیں ۔ الباما میں سینیٹ کی ایک نشست کے انتخابات ہورہے ہیں ، ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار ڈگ جونز نے کہا ہے :” منی سوٹا سے ڈیموکریٹک سینیٹر الفرینکن نے عورت کو ہراساں کرنے کے الزام پر اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا ہے ، صدر ٹرمپ، جن پرسترہ عورتوں نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات لگائے ہیں ،کیوں اپنے منصب سے استعفیٰ نہیں دے رہے ‘‘۔سابق ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار برنی سینڈر نے بھی کہا ہے :”یہ ایسی چیز ہے کہ ٹرمپ کو اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ‘‘۔ بعض سینیٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ پر عائد الزامات کی تحقیق کانگریس کی کمیٹی براہِ راست کرے ۔
صدر ٹرمپ کے یہودی داماد جیرڈ کُشنر نے اُن کی انتخابی مہم کے لیے بڑی مہارت سے منصوبہ بندی کی ، ماہرین پر مشتمل مشیروں کی ٹیم بنائی، انہوں نے نفسیاتی بنیادوں پر انتخابی مہم چلانے کے لیے خوف اور ترغیب کے دونوں نفسیاتی محرکات کو انتہائی مہارت سے استعمال کیا، وہ سفید فام آبادی کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ کرنے میں کامیاب رہے کہ اُن کی بقا اور مفادات کے تحفظ کے لیے ٹرمپ کا منتخب ہونا از حد ضروری ہے ،بہت سے باخبر لوگوں نے بتایا کہ بڑے شہروں کو چھوڑ کر دیگر قصبات کی سفید فام آبادی بدستور ٹرمپ سے جڑی ہوئی ہے ،کیونکہ اُس نے اُن کے لاشعور میں پیوست عصبیت کو جگادیا ہے ۔جیرڈ کُشنر نے پہلے تو روسی نمائندوں سے ملاقات کی نفی کی ، لیکن اب انتخابی مہم کے دوران اُس کے روسیوں سے روابط ثابت ہوچکے ہیں ۔ہمارے ہاں اہلِ اقتدار اور اپوزیشن آزاد الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے لرزاں وترساں رہتے ہیں ، لیکن ٹرمپ میڈیا کا مذاق اڑاتا ہے اور اُسے پرِ کاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا۔ امریکہ میں میڈیا کی گرفت پاکستان جیسی مضبوط نہیں ہے ، کیونکہ وہاں پرنٹ میڈیا کو الیکٹرانک میڈیا کے لائسنس نہیں دیے گئے تاکہ وہ اتنے جری نہ ہوجائیں کہ ریاست کا تحکُّم پامال ہو ۔ٹرمپ کی رعونت کو اگر کسی نے اچھی طرح پامال کیا ہے تو وہ شمالی کوریا کے صدر کم یانگ ہیں۔ وہ اپنے ملک کی پسماندگی کے باوجود بیلسٹک میزائل کی دوڑ کو روکنے کے لیے کسی بھی طور پر تیارنہیں ہیں ، ٹرمپ کی ساری دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں ثابت ہوئی ہیں اور اب امریکی وزیرِ خارجہ رچرڈ ٹلرسن نے کہا ہے کہ ہم نارتھ کوریا سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں ۔اس سے ہمارے حکمرانوں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے، امریکہ اوراہلِ مغرب کے آگے سِپر انداز ہوتے ہوئے ہمیں ستّر برس بیت چکے ہیں ،اب وقت آگیا ہے کہ دینی وملّی حمیت کے جذبے سے معمور ہوکر پوری قامت کے ساتھ کھڑا ہونا سیکھیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہناہوگا اوراپنی چادر کی مقدارپائوں پھیلانے پر اکتفاکرنا ہوگا، لیکن جب ہم بارہ کھرب کا خسارے کا بجٹ بنائیں تو ملّی انا کو قربان کیے بغیر چارہ نہیں ہے ۔
امریکہ میں سفید فام عصبیت کی جو لہر ابھری ہے ،اُس کے اثرات پورے یورپ پر مرتّب ہورہے ہیں ۔ہالینڈ ،فرانس اور جرمنی کے انتخابات میں پہلی بار قوم پرست پارٹیاں ابھر کرسامنے آئی ہیں اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل حالیہ انتخابات میں واضح برتری حاصل کرنے میں ناکام رہیں ، انہیں اتحادی حکومت بنانے میں مشکل درپیش ہے اور بہت ممکن ہے کہ انہیں نئے انتخابات کی طرف جانا پڑے۔ہمارے ہر دور کے حکمران وسرمایہ دارمشرقِ وُسطیٰ اور مغربی ممالک کو اپنی آسائشوں اور عشرتوں کے لیے سب سے محفوظ پناہ گاہ سمجھتے رہے ہیں ،اس ترقی پذیر ملک سے مختلف حیلوں اور حربوں سے سرمایہ کشید کر کے بیرونِ ملک منتقل کرتے ہیں ، لیکن انہیں جان لینا چاہیے کہ ہمارے لیے سب سے محفوظ پناہ گاہ اپنا وطنِ عزیز ہے ۔ ہم نے پاکستانی نژاد اہل ثروت کو بیرونِ ملک دولت میں پھلتا پھولتا ضرور دیکھا ہے ، لیکن جو اپنائیت ، اعتماد اور نازانسان کو اپنے وطنِ عزیز اور اپنی سرزمین پر ہوتا ہے ،وہ اُن کے چہروں پر منعکس ہوتا نظر نہیں آتا۔وہ بیرونِ ملک رہتے ہوئے بھی مقامی میڈیا سے زیادہ پاکستانی چینلز کو دیکھتے ہیں اور ہر روز انتشار ، خلفشار اور محاذ آرائی سے بھرپور خبریں سن کر کڑھتے رہتے ہیں ۔جو سیاسی رقابتیں اور نفرتیں وطنِ عزیز میں پائی جاتی ہیں ،انہوں نے وہاں بھی پاکستانیوں کو منقسم کر رکھا ہے اور یہ اچھی علامت نہیں ہے ۔ میں کبھی کبھی انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ اگر آپ اس گھٹن سے نکلنا چاہتے ہیں، تو پاکستانی میڈیا کم دیکھا کریں ۔ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے شہسواروں کو حب الوطنی اور وطن کی آبرو سے زیادہ اپنی ریٹنگ کی فکر ہوتی ہے ،خواہ اس میں وطنِ عزیز کی حرمت پامال ہورہی ہو ،میڈیا میں ریٹنگ کی بیماری لا علاج ہے ، اس پرآپ صرف اندر ہی اندر کڑھ سکتے ہیں ، اس کے ازالے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
(نوٹ:یہ کالم 13دسمبر 2017ء کو لکھا گیا۔)