منتخب کردہ کالم

امریکہ کا ACT OF EVIL ؟…منیر احمد بلوچ

امریکہ کا ACT OF EVIL ؟…منیر احمد بلوچ

امریکیوں کا پیمانہ بھی عجب ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کے خلاف میدان میں کودے تو جنگی جہازوں کی یلغار کرتے ہوئے جب انہیں افغان طالبان اور القاعدہ کے ٹھکانوں کا سراغ نہ ملا تو واپس جاتے ہوئے نیچے سے گزرنے والی افغان فوج کے قافلے پر ہی راکٹ برسا دیئے‘ کچھ دیر بعد جب کابل میں اس پر کہرام مچ اٹھا تو اسے ” فرینڈلی فائر‘‘ کا نام دے کر سب کو چپ کرا دیا اور اگر یہی راکٹ افغان طالبان امریکی یا نیٹو کے کسی گروپ یا کانوائے پر گرا دیں تو وہ دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔ امریکہ میں اب تک سکولوں، کالجوں، تھیٹروں اور کنسرٹ ہالوں میں نہ جانے کتنے ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں ایک یا دو تین لوگوں نے فائرنگ کرتے ہوئے درجنوں لوگوں کو ہلاک کیا۔۔۔لیکن امریکی حکومت اور میڈیا انہیں دہشت گرد کا خطاب دینے کی بجائےAct OF Evil بنا دیتے ہیں۔
جس طرح دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی گروپ یا فرد کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائی کرنے والوں کو دہشت گرد کہہ کر اچھالا جاتا ہے تو اسی طرح کی دہشت گردی والے کسی بھی امریکی کو آج تک امریکی انتظامیہ یا ان کے کسی بھی ادارے نے Terrorist کیوں نہیں کہا؟۔کبھی اسے” ایکٹ آف ایول‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے تو کبھی مضحکہ خیز طور پر اسےHate Crimes کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی میڈیاکے سامنے اسے ایک نفسیاتی معاملہ کے طور پر پیش کر تے ہوئے دبا دیا جاتا ہے۔۔۔دور نہ جائیں ابھی حال ہی لاس ویگاس میں جو دہشت گردانہ کارروائی ہوئی ہے اسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایکٹ آف ایول کے دھویں میں چھپا دیا ہے شائد اس لیے کہ اس کے کردار امریکی تھے اور امریکیوں کیلئے تو دہشت گرد کا لقب وائٹ ہائوس کی توہین کے مترادف ہوتا ہے۔
وائٹ ہائوس اور کانگریس سمیت امریکی سینیٹ کو آج کل دہشت گرد صرف مسلمانوں اور پاکستان میں ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ شائد نہیں جانتے کہ ” اس وقت ایک اندازے کے مطابق 900 کے قریب مختلف مذہبی اور نظریاتی سوچ رکھنے والے دہشت گرد گروپ کام کر رہے ہیں ۔۔۔۔ امریکن تھنک ٹینکس سمیت ان کی یونیورسٹیوں کے سکالرز اور اراکین کانگریس اور سینیٹ کی خدمت میں عرض کرتے ہوئے ان سب کو ایک بار پھر یاد دلا ئے دیتے ہیں کہ ”1990 کی دہائی کے ہر سال امریکہ کے اندر دہشت گردی کے70 واقعات ہوتے رہے یعنی دس برسوں میں دہشت گردی کی کل700 وارداتیں ہوئیں۔۔۔کیا کسی دوسرے ملک میں اس قدر دہشت گردی کے واقعات ہوئے تھے؟۔ جب2000 سے2011 ء تک امریکہ میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ تعداد307 تک ہے جس کا مطلب ہوا کہ نوے کی دہائی کے مقابلے میں امریکہ کے اندر ہونے والی دہشت گردی میں بلا شک و شبہ400 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ سب کوئی لفاظی یا اندازے نہیں ہیں بلکہ اسلام آباد میں امریکی اور یورپی سفارت کاروں سمیت ان کے ہر ادارے کو دعوت دے رہا ہوں کہ وہ اسے اپنے ریکارڈ سے میرے دیئے گئے ان اعداد و شمار کو چیک کرسکتے ہیں ۔
امریکہ میں انسانی جانوں سے ابھی حال ہی میں بہیمانہ طریقوں سے کھیلے گئے مذموم عمل پر اپنا پالیسی بیان یا میڈیا سے گفتگو کے دوران امریکہ کے موجو دہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر تفریح کیلئے کنسرٹ ہال میں خواتین اور بچوں سمیت مردوں کی جانوں سے بے دردی سے کھیلے گئے ان واقعات کو Extremism, Radicalism or Terror کے نام سے پکارنے کی بجائے ACT OF EVIL کہہ کر پکارتے رہے۔ امریکہ نے شائد فیصلہ کر لیا ہے کہ بم دھماکوں، اجتماعی قتل و غارت کے واقعات میں اگر کوئی مسلمان ملوث پایا گیا تو اسے فوری طور پر دہشت گردی سے منسوب کر دینا ہے اور اگر اس سے بھی دس گنا بڑی قتل و غارت کے واقعہ میں کوئی
امریکی ملوث پایا جائے تو اسے محض Act Evil یا Hate Of Crimes کا نام دیتے ہوئے اسے ایک نفسیاتی مرض بنا کر پیش کرنا ہے۔امریکی میڈیا اور اس کی سوچ کے حامی اداروں سمیت سی آئی اے کی محنت اور کوششوں سے کانگریس اور سینیٹ کے ”طاقتور ‘‘ بنائے گئے اراکین کے ذمہ یہی فریضہ سونپا گیا ہے کہ وہ امریکی انتظامیہ کے مقاصد اور جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈے کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مختلف عالمی میڈیا ، سیا سی اور معاشی امور کے ماہرین اور ہیومن رائٹس کے نام سے قائم کی گئی بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف کرنا ہے۔ ان کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان میں سوشل، سیا سی، معاشی اور مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو اس طرح خوفناک طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ ان ممالک کی عوام کی نظروں میں اس کا سوشل کنٹریکٹ توڑ کر رکھ دیا جائے ۔۔۔۔اور امریکی انتظامیہ اور اس کی خفیہ ایجنسیوں سمیت سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پاکستان سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف یہ حربے استعمال کرنے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان پر دبائو بڑھاتے ہوئے اورانہیں بلیک میل کرتے ہوئے ان کو اپنی شرائط کا پابند کرایا جا سکے ۔ ان کے کسی بھی آزادانہ فیصلے کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ امریکی خواہشات کا غلام بن جائے۔
مختلف مذہبی فرقوں پر مشتمل انتہا پسند گروپ کے علاوہ تحریک طالبان ،سپاہ صحابہ کے حوالے سے امریکہ آسمان سر پر اٹھاتے ہوئے دنیا بھر کو تاثر دیتا آ رہا ہے کہ پاکستان میں ہر جانب یہ انتہا پسند گروپ ہی چھائے ہوئے ہیں اور یہ ایک قسم کا جنگل معاشرہ بن گیاہے۔۔۔۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں کسی نے بھی امریکہ کواس کی اصل شکل دکھاتے ہوئے کبھی یہ بتانے کی کوشش ہی نہیں کہ سپر پاور کہلانے والے امریکہ میں۔۔۔۔آل امریکن پروٹیکٹوریٹ، امریکن فریڈم پارٹی، امریکن فرنٹ، آریان نیشنز، اسمبلی آف کرسچئین سولجرز، چرچ آف جیسو کرائسٹ، سٹیزن کونسل، کونسل آف کنزر ویٹو سٹیزن، کائونٹر ریولیوشن آرگنائزیشن آف سالویشن اینڈ سروس، رلیجن کریٹیوٹی، یورپین امریکن یونٹی، فری سوسائٹی آف ٹیو ٹونیا، فریندز آف نیو جرمنی،کو کلکس کیان، لبرٹی لابی، نیشنل رینیسنس پارٹی، نیشنل ایسوسی ایشن فاروائٹ پیپل، نیشنل سوشلسٹ موومنٹ، نیشنل سٹیٹس رائٹ پارٹی ، نیشنل وین گارڈ،نیشنل فرنٹ،نیشنل موومنٹ،دی آرڈر، ریڈ شرٹس آف امریکہ، وائٹ لیگ اور اس قسم کی نہ جانے کتنے مذہبی، لسانی انتہا پسند گروپس امریکہ کی52 ریا ستوں میں کام کر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں سے نفرت اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے والی عالمی شخصیات کا ذکر کیا جائے تو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے نام سامنے آتے ہیں ۔۔۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار نے آج تک ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی طرح اپنا منشور یہ کہتے ہوئے پیش نہیں کیا کہ وہ اقتدار میں آ کر مسلمانوں کے امریکہ داخلے پر پابندیاںلگائے گا ان کو امریکہ سے نکال دے گا یا مودی کی طرح مسلمانوں کو کچلنے کے نعرے نہیں لگائے ۔۔بھارت کے وزیر اعظم کے انتخاب کیلئے اپنی مہم میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ ” پرکھوں کی واپسی کے نام سے‘‘ مسلمانوں کو ان کے پرانے دھرم ہندو مت کی طرف لائے گا ۔
عیسائیت ، بت پرست ہندو اور یہودی جب دنیا کے تین طاقتور ملکوں کے سربراہ مسلمانوں کی نسل کشی کے نعروں کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرتے ہوئے مسنداقتدار پر بیٹھے ہیں تو یہ لوگ پاکستان پر انتہا پسندی کے فتوے کس منہ سے لگاسکتے ہیں؟۔بد قسمتی سے انتہا پسندوں کی اس مثلث کا نشانہ صرف ایک ہی ملک ہے جو اس مثلث کو واحد ”اسلامی بم ‘‘کی شکل میں کھٹک رہا ہے ۔۔!!