منتخب کردہ کالم

امریکی انتخابات میں ٹویٹر بوٹس کا استعمال: عرفان حسین

حالیہ امریکی انتخابات پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن کامیابی کی وجوہ پر لامتناہی بحث اور تجزیے جاری ہیں۔ تجزیہ کاروں، مبصروں اور سیاسی پنڈتوں کے ”نشترِ تحقیق‘‘ سے گلوبلائزیشن سے لے کر آمدنی کے فرق، نسل پرستی اور جنگوں تک، شاید ہی کوئی معروضہ یا مفروضہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا ہو؛ تاہم ایک معاملہ ایسا بھی ہے‘ جو ویسے تو تمام جمہوری عمل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتا ہے‘ لیکن یہ قطعی طور پر کمپیوٹر کے رسیا افراد تک ہی محدود ہے۔ میں ٹویٹر بوٹس (bots، ربورٹ کا مخفف) کی آمد کی بات کر رہا ہوں۔ الیکشن کے دوران یہ موصوف (بوٹس) لاکھوں کی تعداد میں آن ڈیوٹی رہے‘ اور دونوں صدارتی امیدواروں کے خلاف ہر ممکن منفی پیغامات پھیلاتے ہیں۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ سیاسی حریفوں کی طرف سے انٹرنیٹ پر پھیلائے گئے سافٹ ویئر جراثیم کس قدر فعال ہیں، ایک مثال سامنے رکھیں کہ نومنتخب صدر ٹرمپ کے بیس ملین کے لگ بھگ ٹویٹر فالورز ہیں‘ لیکن اُن کی 80 فیصد ری ٹویٹ یہی بوٹس کرتے رہے۔
میری (Marie) نامی ایک بوٹ کی ٹویٹ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ ”ٹرمپ جیت رہے ہیں کیونکہ امریکی اتنے ذہین ہیں کہ اب وہ کسی کے فریب کا شکار نہیں ہوں گے‘‘۔ ایک شیطانی ٹویٹ نے اپنے ”قارئین‘‘ کو باخبر کیا کہ وہ ٹیکسٹ پیغام کے ذریعے ہلری کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس طرح یہ ہلری کے حامیوں کو ورغلانے کی کوشش تھی کہ وہ پولنگ سٹیشن نہ جائیں‘ بلکہ گھر بیٹھ کر اپنا موقع ضائع کر دیں۔ Wired کے مطابق ایک بوٹس کو تخلیق کرنا آسان ہے، بلکہ اس کے تاجر تو انہیں تھوک میں بھی فروخت کرتے ہیں۔ جب ایک مرتبہ اُنہیں ہدایات دے کر میدان میں اتار دیا جاتا ہے، جیسا کہ حالیہ امریکی انتخابات میں ہوا، تو پھر وہ من پسند رجحانات پر ”حاضرین‘‘ کی تعداد میں ہوشربا اضافہ کر دیتے ہیں۔ اُن دنوں کلنٹن اور ٹرمپ کے رجحانات غالب رہے لیکن یہ ٹرمپ تھے جنہوں نے بوٹس کی جنگ میں بھی کلنٹن کو زیر کر لیا۔ اُن کے درمیان ہونے والے دوسرے اور تیسرے مباحثے کے درمیان ٹرمپ کی حامی ٹویٹس کا ہلری کلنٹن کی حمایت کرنے والی ٹویٹس سے 7:1 کا تناسب رہا۔
جو افراد ٹویٹر اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سے ناآشنا ہیں، اُن کے لیے شاید یہ ایک اکتا دینے والا موضوع ہو، لیکن اُنہیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ ایسی ترکیبوں سے تمام انتخابی عمل کو یرغمال بنایا جا سکتا ہے۔ ہم فی الحال یہ نہیں جانتے کہ رائے دہندگان پر مزید کتنے اور کس طرح آن لائن حملے کیے گئے، لیکن ایک بات طے ہے کہ ان حملوں نے انتخابی نتائج کو متاثر ضرور کیا۔ فی الحال انتخابات میں ڈیجیٹل ذرائع استعمال کرنے کی کوئی ممانعت نہیں۔ لوگ معلومات کے لیے انٹرنیٹ کی دنیا میں جھانکتے ہیں، سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو اس دوران حملہ آور بوٹس کی موجودگی ایک خطرناک پیش رفت ہے۔ کمپیوٹر صارف کو پتا نہیں ہوتا کہ اُس کا مخاطب کون ہے؟
یہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔ اہم امریکی ریاستیں، جہاں کے نتائج کامیابی کے لیے فیصلہ کن ہوتے ہیں، وہاں ٹرمپ کی کامیابی کو کچھ حلقوں نے روسی ہیکرز کی کارستانی قرار دیا۔ الزام لگایا گیا کہ ان ہیکرز نے مبینہ طور پر الیکٹرانک مشینوں پر ووٹوں کی گنتی کے عمل کو متاثر کیا۔ اگر اس الزام میں سچائی ثابت ہو گئی تو اس کے لرزہ خیز مضمرات ہوں گے۔ اس سے یہ خدشہ گہرا ہو جائے گا کہ کسی بھی ریاست کے انتخابی نتائج کو غیر ملکی ماہرین تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس سے جمہوریت کا مستقبل مخدوش ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ درحقیقت امریکی حکومت نے روس سے Democratic National Committee کی ای میلز ہیک کرنے کی شکایت کی ہے۔ اس کوشش کا مقصد کلنٹن کے حامیوں اور سینڈرز کے مخالفین کے تعصب کا رخ ڈیموکریٹس اسٹیبلشمنٹ کی طرف موڑنا تھا۔ ایک مرتبہ پھر ہم نہیں جانتے کہ اگر یہ الزام درست ہے تو روسی اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب رہے۔
تاہم یہ خطرات صرف لبرل جمہوریت کے لیے ہی ہیں۔ دنیا کے دیگر حصوں میں نسلی تفریق، مذہبی عقائد، عوامی نعرے اور جغرافیائی عوامل انتخابی جمہوریت پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بڑھتا ہوا معاشی فرق بھی انتخابی جمہوریت میں ایک عامل بن چکا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مغرب میں بریگزٹ اور ٹرمپ کی فتح لبرل جمہوریت کے لیے بری خبریں ہیں۔ ان سے توانا ہوتی ہوئی انتہائی دائیں بازو کی سیاست انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے خطرناک ہے۔ پیوٹن، اردوان اور نریند مودی کو اپنے اپنے عوام کی واضح حمایت حاصل ہے کیونکہ وہ متحرک سیاست دان ہیں اور لوگ جانتے ہیں کہ وہ کام کر سکتے ہیں۔ اس وقت قوم پرستی کے نظریات میں دنیا بھر میں شدت آتی جا رہی ہے۔ جب 1991ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو امید بندھی تھی کہ متقابل سپرپاور کی غیر موجودگی دنیا سے پراکسی جنگوں کو ختم کر دے گی، اور ہم ایک پرامن دنیا دیکھیں گے۔ اس دوران ہم نے دنیا کے مختلف حصوں میں آمریت کی جگہ جمہوریت کو فروغ پاتے ہوئے دیکھا۔ پاکستان بھی ان میں سے ایک تھا، اور ہماری آنکھوں میں بہتر مستقبل کی امید سے جگمگا رہی تھیں؛ تاہم یہ امید ابھی تک ایک خواب ہے۔
عراق کے کویت پر حملے کے بعد امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کو ایک مستقبل میدانِ جنگ میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد نائن الیون کے نتیجے میں القاعدہ اور بعد میں داعش جیسی ہولناک تنظیموں نے سر اٹھایا۔ بہارِ عرب کے نتیجے میں خطہ مزید خزاں آلود ہو گیا۔ اب مغرب میں انتہا پسندی کے خلاف جذبات انتہائی شدید ہیں۔ اس دوران جمہوریت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ خوف کے اس ماحول کو جان بوجھ کر بھی گہرا کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو کنفیوژن میں مبتلا کرکے من پسند نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ اس مقصد کے لیے ڈیجیٹیل ذرائع کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ جمہوریت ایک طاقتور نظام ہے اور یہ خود کو درپیش مسائل کا تخلیقی حل نکال لیتی ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بوٹس کے مقابلے میں اس کے پاس کیا ہے؟