منتخب کردہ کالم

امریکی جمہوریت اور معاشی تقسیم .. عرفان حسین

اب جبکہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے لیے جاری طویل مہم کا اختتام ہونے جارہا ہے ، ہمیں شکرکرنا چاہیے کہ ایسا چار سال بعدہوتا ہے ۔ تاہم ابھی ووٹنگ شروع بھی نہیں ہوئی لیکن سیاسی پنڈتوں نے 2020 ء کے انتخابات پر نظریں جمالی ہیں۔ اس طرح امریکی سرزمین پر انتخابات کا چکر مسلسل جاری رہتا ہے ۔ تاہم امسال امریکی جمہوریت ایک افسوس ناک منظر پیش کررہی ہے ۔ دونوں امیدوار عوام کو کوئی تحریک دینے میں ناکام رہے ، دونوں ہی کشش سے عاری ، اور اگر میں ایک امریکی ووٹر ہوتا تو مجھے ان دونوں میںکسی ایک کا انتخاب کرتے ہوئے سخت مشکل کا سامنا کرناپڑتا۔ جیسا کہ عام طور پر انتخابات میں ہوتاہے، رائے دہندگان کو دومیں سے نسبتاً چھوٹی برائی کو چننا پڑتا ہے ۔ چنانچہ ہونے والے پول سرویز کے مطابق زیادہ تررائے دہندگان ہیلری کلنٹن کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ بطور ایک تجربہ کار سیاست دان، ہیلری کلنٹن ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ایک محفوظ آپشن ہیں۔ ٹرمپ نے بار بار اپنے رویے سے اظہار کیا ہے کہ وہ اجڈ اور تہذیب سے عاری شخص ہیں جوکسی کی پرواکیے بغیر جو منہ میں آتا کہتا چلا جاتا ہے۔ اُن کی مثال برتنوں کی دکان میں بپھرے ہوئے بھینسے کی ہے ۔ ان کے عجیب و غریب اور اکثر خواتین کے حوالے سے منفی بیانات نے اُن کی کامیابی کے امکانات ،معدوم کردیے ہیں۔ تاہم یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اپنے مزاحیہ اور تیز وتند بیانات کے درمیان وہ کچھ معقول باتیں بھی کہہ جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر جب وہ عراق پر امریکی حملے کو تباہ کن غلطی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مس کلنٹن نے عراق حملے کے لیے پیش کی گئی قرار داد کے حق میں ووٹ دیا تھا ، تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ٹرمپ درست ہیں۔ اُنھوں نے واشنگٹن میں لابی کرنے والوں کی بھرپور مخالفت کی اور ارکان ِ کانگرس کی مدت کی کچھ حدود طے کرنے کی بھی وکالت کی ۔ اُن کا موقف ہے کہ کچھ سینیٹر اور ارکان کئی عشروں تک ایوان کی نمائندگی کرتے رہتے ہیں۔ اس دوران وہ اہم روابط قائم کرلیتے ہیں،اور پھر لابنگ فرمز قائم کرکے ان روابط کو استعمال کرتے ہیں۔ کہنا پڑے گا کہ ٹرمپ کا موقف درست ہے ۔
دوسری طرف ہیلری کلنٹن محفوظ اور معقول پالیسی تجاویز پیش کررہی ہیں۔ تاہم اس حقیقت کی تردید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے نظریات کے حوالے سے بہت تنک مزاج ہیں۔ اگر گزشتہ چند برسوں کے دوران اوباما کی بجائے وہ امریکی صدر ہوتیں تو امریکہ شام کی جنگ میں بھی الجھ جاتا، اور عین ممکن ہے کہ امریکی طیارے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کرتے ہوئے دنیا کو مہیب خطرے سے دوچار کرچکے ہوتے ۔اگر ہیلری کلنٹن منتخب ہوجاتی ہیں تو وہ دور ِحاضر کے کسی بھی امریکی صدر سے زیادہ اسرائیل کی طرف زیادہ جھکائو رکھیں گی۔ اُن کے وال سٹریٹ کے بنکوں سے مبینہ تعلقات محنت کش طبقے کی مدد کے وعدوں کا کھوکھلا پن ظاہر کرتے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر ، ان پر الزام ہے کہ اُنھوں نے اپنے پرائیویٹ سرور کو سرکاری ای میلز کے لیے استعمال کیا۔اس
پر اُن کے تبدیل ہوتے ہوئے بیانات نے لاکھوں امریکی رائے دہندگان کی نظروں میں ان کی پوزیشن مشکوک بنا دی ہے ۔
چنانچہ ہمارے سامنے امریکی تاریخ کے دو غیر مقبول رہنما ہیںجن کے درمیان انتخابی معرکے کا آغاز ہوا چاہتا ہے ۔ حال ہی میں پبلک براڈ کاسٹنگ سروس ، ایک آزاد امریکی چینل جسے غیر تجارتی بنیادوں پر چلا یا جارہا ہے ، نے ٹرمپ اور مس کلنٹن کے متعلق ایک طویل ڈاکومنٹری نشر کی۔ اس میں ان کی نوجوانی کے تجربات اورتصورات کو بھی پیش کیا گیا۔ مس کلنٹن کے والد ایک سخت گیراور آمرانہ ذہنیت کے مالک تھے جنھوں نے کبھی بھی اپنی ہونہار بیٹی کی تعریف نہیں کی تھی۔جب وہ کلاس میں اول آتیں تو وہ تعریف کی بجائے اُس کے ساتھ طنزیہ لہجے میں بات کرتے ۔ تب سے ہیلری نے سیکھا کہ اپنی کامیابیوں اور عزائم کا کھل کر اظہارنہ کیا جائے ۔ ٹرمپ کے والد ایک کامیاب بزنس مین تھے ۔ اُنھوں نے اپنے بیٹے کے ذہن میں یہ تصور بھر دیاکہ دنیا میں کامیاب اور ناکام انسانوں کے درمیان تقسیم ہے ۔ ٹرمپ کے بھائی نے ایک فضائی کمپنی میں پائلٹ کی ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی تو اُس کے والد نے اُس سے پوچھا کہ ایک پائلٹ اور ایک بس ڈرائیور میں کیا فرق ہوتا ہے ؟وہ کثرت ِشراب نوشی کی وجہ سے جلد فوت ہوگئے ۔ اس کی وجہ سے ٹرمپ مے نوشی سے پرہیز کرتے ہیں۔ اب وہ اپنے کاروبار کے حوالے سے سب کو روندتے ہوئے آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ٹرمپ کو زیادہ تر حمایت سفید فام ورکنگ کلاس کی طرف سے ملے گی۔ یہ اندازہ اس لیے قریں قیاس لگتا ہے کہ کیونکہ زیادہ تر محنت کش افراد گلوبلائزیشن کے دبائو تلے پس کر رہ گئے ہیں۔ اس نے عالمی معاشی معروضات کو تبدیل کردیا ہے ۔اس طرح جو ڈیموکریٹس مس کلنٹن کوووٹ دینا چاہتے ہیں، وہ اور لبرل میڈیا ، ٹرمپ کے حامیوں کو جاہل اور بدتمیز افراد سمجھتے ہیں۔ تاہم گزشتہ ماہ ستاسی ہزار افراد سے کیے گئے گیلپ سروے کے مطابق ٹرمپ کی حمایت کرنے والوں کی اوسط آمدنی 72,000 ڈالر ہے ، اور یہ قومی اوسط سے بہت بلند ہے ۔ مزید یہ کہ اُن میں سے 44 فیصد کالج ڈگری ہولڈر ہیں۔ قومی سطح پر کالج ڈگری رکھنے والوں کا اوسط 29 فیصد ہے ۔ سارا سمرش، جو کہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والی ایک لکھاری ہیں، دی گارڈین میں لکھتی ہیں امریکہ کے سیاسی پنڈت ٹرمپ کی حمایت کے حوالے سے غلط تصویر پیش کررہے ہیں۔ وہ الزام لگارہے ہیں کہ جاہل اور محنت کش طبقہ ٹرمپ کو امریکہ پر مسلط کررہا ہے ، لیکن مندرجہ بالا سروے بتاتا ہے کہ ٹرمپ کے حامیوں کی اوسط نہ صرف خوشحال بلکہ زیادہ تعلیم یافتہ بھی ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ اس کا الزام میڈیا پر جاتا ہے کہ جس نے ٹرمپ کو بھرپور کوریج دی۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ٹرمپ کے لذیذ بیانات اُن کی ریٹنگ بڑھاتے تھے ۔ یہ بھی درست ہے کہ ٹرمپ کو زیادہ تر اُن سفید فام افراد کی حمایت حاصل ہے جو معاشرے میں بڑھتے ہوئے غیر امریکی افراد کی وجہ سے خود دبائو میں پاتے ہیں۔ بہت سے افراد خواتین کو زیادہ طاقت دینے سے بھی خائف ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی محنت کش طبقے کی ہلاکتوں کی تعداد بھی خطرناک حد تک زیادہ ہے ۔ ان میں خود کشی کا رجحان بھی عام ہے ۔مس سمرش اپنا مضمون کا ان الفاظ پر ختم کرتی ہیں۔۔۔” اس وقت ملک میں معاشی تفریق بہت زیادہ ہے ۔ رپورٹ پیش کرنے والے اور جس کے رپورٹ پیش کی گئی ہے ، کی دولت میں کوئی مطابقت نہیں۔ سٹاک مارکیٹ کی کہانیاں بیان کرتے ہوئے اُن افراد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جن کے پاس کوئی سٹاک نہیں ہے ۔ کئی عشروںسے امریکی صحافت ”گلیوں ‘‘ کو نظر انداز کررہی تھی، چنانچہ اب ٹرمپ نے اس خلاکو اپنے بیانات سے بھر دیا ہے ۔ مقبولیت حاصل کرنے کی دوڑ میں مگن میڈیا کو ایک لمحہ رک سوچنا ہوگا۔اشرافیہ کا میڈیا یقینا ورکنگ کلاس کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔ ‘‘
موجودہ انتخابی مہم کے درمیان تلخی اور تقسیم کی لہر اپنی شدت پر دکھائی دی۔ خدشہ ہے کہ انتخابات کے بعد بھی یہ لہر ماند نہیں پڑے گی۔ ٹرمپ کی مقبولیت کے پیچھے محض سنسنی خیز بیانات ہی نہیں، دولت کی عدم مساوات بھی کارفرما ہے ۔ تاہم افسوس، دونوں امیدوار اس اہم ترین مسئلے سے نبردآزما ہوتے دکھائی نہیں دیتے ۔