منتخب کردہ کالم

امریکی سفارت خانہ القدس الشریف میں…جاوید حفیظ

امریکی سفارت خانہ القدس الشریف میں…جاوید حفیظ
پوری دنیا میں صرف القدس الشریف ایسا شہر ہے جو یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام‘ تینوں ادیان سماویہ کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام کا حامل ہے۔ یہاں حضرت دائودؑ کے عصر کی دیوار گریہ ہے جہاں دنیا بھر سے یہودی آتے ہیں۔ اسی شہر میں وہ کلیسا ہے جہاں نصرانی اعتقاد کے مطابق حضرت عیسیٰؑ نے آخری کھانا کھایا اور صلیب پر چڑھا دیئے گئے۔ دیوار گریہ کے پاس ہی مسجد اقصیٰ ہے جو مسلمانوں کا قبلۂ اوّل ہے۔ شہر کی آبادی اس وقت ایک ملین کے قریب ہے جس میں سے تقریباً ایک تہائی مسلمان ہیں۔ 1947ء میں جب فلسطین میں برطانوی مینڈیٹ اختتام کے قریب تھا تو نوزائیدہ اقوام متحدہ نے ایک ریزولیوشن پاس کیا کہ فلسطین کے دو حصّے کر دیئے جائیں۔ ایک میں اسرائیل کی نئی ریاست بنا دی جائے۔ دوسرے میں فلسطینی ریاست ہو البتہ یروشلم کا شہر بین الاقوامی رہے اور یہاں اقوام متحدہ کا کنٹرول ہو۔ اسرائیل نے یہ قرارداد قبول کر لی مگر عرب ممالک نے اسے رد کر دیا۔
اس مقدس شہر کے لئے مغربی ممالک یروشلم کا نام استعمال کرتے ہیں۔ عہد قدیم کی انجیل مقدس Old Testament میں یہی نام استعمال ہوا ہے؛ البتہ اسلامی دنیا میں شہر کا پورا نام القدس الشریف ہے جبکہ شہر کے فلسطینی باسی روزمرہ کی زبان میں اسے صرف قدس پکارتے ہیں۔ اسرائیل میں موجود تمام غیر ملکی سفارت خانے آج تک تل ابیب میں ہیں۔ گو کہ اسرائیلی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ یروشلم میں ہیں لیکن اقوام متحدہ کے نزدیک آج بھی شہر کا مشرقی حصہ غیر قانونی طور پر اسرائیل کے قبضے میں ہے‘ لہٰذا اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھنے والے ممالک نے آج تک سفارت خانے یروشلم لانے سے اجتناب کیا ہے۔ مگر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس انٹرنیشنل روایت کو توڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُن کے اس فیصلے سے پورے عالم اسلام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے اور صورتحال پر بحث کرنے کے لئے ترکی نے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلا لیا ہے۔
1967ء کی جنگ تک القدس الشریف کا مشرقی حصہ اردن کے پاس تھا۔ اس جنگ میں عربوں کو شکست ہوئی۔ اردن القدس الشریف سمیت مغربی کنارہ کھو بیٹھا لیکن اسی سال نومبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 242 منظور کی جس میں کہا گیا تھا کہ طاقت کے زور پر کسی ملک کی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل جنگ میں حاصل کئے گئے علاقے خالی کرے۔ یہ قرارداد برطانیہ نے پیش کی تھی اور اسے عالمی سپورٹ حاصل تھی مگر اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو اپنے ہی تسلط میں رکھا اور الٹے 1980ء میں یروشلم ایکٹ اسرائیلی پارلیمنٹ نے پاس کیا جس میں کہا گیا کہ پورا مقدس شہر اسرائیل کا حصہ ہے۔ مگر اسرائیل کے اس یکطرفہ فیصلے کے خلاف 1980ء میں ہی سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فیصلہ بین الاقوامی قانون کے منافی ہے۔ یہ سلامتی کونسل کا ریزولیوشن نمبر 478 تھا۔ بعد میں ایسی سات قراردادیں پاس کی گئیں مگر اسرائیل کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ پرائم منسٹر ہائوس اسلام آباد سے ایشو کئے گئے حالیہ بیان میں بھی یہی پوزیشن لی گئی ہے کہ صدر ٹرمپ کا فیصلہ انٹرنیشنل لاء کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کا موقف بہت واضح اور صحیح ہے۔
مگر اس حقیقت کا کیا کیا جائے کہ عالمی سیاست اخلاقیات پر مبنی نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے عالم اسلام پر یہ وار اُس وقت کیا ہے جب اسلامی ممالک بری طرح منقسم ہیں۔ عراق‘ شام اور لیبیا تباہ ہو چکے۔ مصر کے داخلی مسائل گمبھیر ہیں۔ سعودی عرب کی توجہ یمن پر مرکوز ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہے اندرونی خلفشار ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا فلسطین سے جغرافیائی طور پر بہت دور ہیں۔ اس صورتحال میں ترکی نے ہمت دکھا کر عالم اسلام کو تھوڑی بہت قیادت فراہم کی ہے‘ لیکن صاف ظاہر ہے کہ عالم اسلام کو جرم ضعیفی کی سزا مل رہی ہے۔ بہت مشکل ہے کہ صدر ٹرمپ اپنا فیصلہ بدلے۔ امریکی صدر کی اندرونی مقبولیت اکتیس فیصد پر آ گئی ہے جو کہ خطرناک حد تک کم ہے۔ وہ طاقتور یہودی لابی کی حمایت حاصل کر کے اپنی ڈوبتی نیّا کو بچانا چاہتے ہیں۔ عالم اسلام کے غم و غصہ کی انہیں کوئی پروا نہیں۔
ایسی صورتحال میں تین طرح کے ردعمل عمومی طور پر دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایک صورت سڑکوں پر احتجاج کی ہے جو کہ لاہور سے لے کر استنبول تک نظر آ رہی ہے۔ دوسرا ذریعہ بین الاقوامی تنظیموں کے ریزولیوشن ہیں‘ حکومتی بیانات ہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ کے مذمتی بیانات بھی جلد سامنے آ جائیں گے‘ مگر زمینی حقائق کا رُخ نہیں موڑ سکیں گے۔
البتہ ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے موثر طریقہ اقتصادی بائیکاٹ ہوتا ہے۔ جب ڈنمارک میں گستاخانہ خاکے چھپے تھے تو چند خلیجی ممالک نے وہاں سے مال امپورٹ کرنا بند کر دیا تھا اور یہ قدم بڑا موثر ثابت ہوا تھا۔ کیا آج عرب اور اسلامی حکومتیں امریکہ سے اسلحہ خریدنے کے معاہدے ختم کر سکتی ہیں؟ مجھے موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ جب تک اسلامی دنیا اپنی چارہ گری پورے عزم کے ساتھ خود نہیں کرتی اُس کے زخم بڑھتے جائیں گے۔ ضعف میں مزید اضافہ ہو گا۔
1978ء کے اواخر کی بات ہے‘ میں کینیڈا میں تھا۔ وزیر اعظم ٹروڈوکی پارٹی اُس سال قومی الیکشن ہار گئی تھی۔ کنزرویٹو پارٹی کے نوجوان لیڈر جوزف کلارک کینیڈا کے وزیر اعظم بنے۔ اُن کی پارٹی نے الیکشن مہم میں وعدہ کیا تھا کہ کینیڈا کا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دے گی۔ وزیر اعظم کلارک نے کہا کہ ہم اس وعدے کی تکمیل کریں گے۔ سعودی عرب کی حکومت کا دو ٹوک موقف تھا کہ آپ ایمبیسی شفٹ کریں گے تو ہم آپ کے اقتصادی اور تجارتی کنٹریکٹ منسوخ کر دیں گے۔ کینیڈین حکومت جلد ہی راہ راست پر آ گئی۔
صدر ٹرمپ کا موقف ہے کہ امریکی کانگریس نے 1995ء میں زیرولیوشن پاس کیا تھا کہ 1999ء تک اسرائیل میں امریکن ایمبسی یروشلم شفٹ ہو جائے گی اور میں تو صرف اس قرارداد پر عملدرآمد کرا رہا ہوں جو میرے پیشرو مختلف وجوہات کی وجہ سے نہیں کرا سکے۔ لیکن صدر ٹرمپ اس بات کو بڑی آسان سے فرموش کر رہے ہیں کہ اگر امریکی صدور نے بائیس (22) سال تک یہ معاملہ التواء میں رکھا تو کوئی ٹھوس وجوہات تھیں۔ بات یہ ہے کہ 1995ء میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات قدرے روشن تھے۔ 1993ء میں اوسلو معاہدہ ہو چکا تھا۔ 1994ء میں اردن نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ بل کلنٹن سے لے کر بارک اوباما تک مختلف امریکی صدور نے یہ فیصلہ اس لیے موخر کیا کہ اسرائیل پر کچھ دبائو رہے‘ مگر صدر ٹرمپ مکمل طور پر اسرائیل کی جھولی میں گر رہے ہیں۔ اس سے یہ بھرم بھی ختم ہو جائے گا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں ثالث رہے گا۔ عالمی امن کے لیے خطرات یقیناً بڑھ گئے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل ایک طرف کھڑے ہیں اور امن پسند دنیا دوسری طرف۔ القدس الشریف سے صرف مسلمانوں کو ہی روحانی وابستگی نہیں پوپ فرانسس اور فرانسیسی صدر امانوئیل میکرون کو بھی صدر ٹرمپ کے فیصلے سے اصولی اختلاف ہے۔