منتخب کردہ کالم

اندازِ فکر…ھارون الرشید

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

اندازِ فکر…ھارون الرشید
فرمان ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پہ ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ خود نیت کس چیز سے پھوٹتی ہے؟ ظاہر ہے کہ افراد یا اقوام کے اندازِ فکر سے۔ کیوں نہ یہ مثبت ہو‘ تعمیری ہو۔
چین کے سوا سب پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ناہموار ہیں۔ بھارت کی بات اور کہ پاکستان کے وجود کا دشمن ہے۔ افغانستان بدامنی کا گہوارہ ہے۔ تاریخی عوامل کی بنا پہ بھاڑے کے کارندے (Mercenaries) وہاں پلتے رہتے ہیں۔ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات میں خرابی کیوں در آتی ہے؟
جیسا کہ عرض کیا تھا ساڑھے چار سال ادھر‘ 2011ء کے موسمِ بہار میں‘ تہران سے مشہد تک نوروز کی ہوائوں نے آب و گِل کو گلزار بنا رکھا تھا۔ ثانوی ایرانی قیادت کے ساتھ محدود سے تعمل (Interaction) میں ان کے روّیے پر سوالات اٹھائے۔ یہ کہ ایرانی میڈیا میں پاکستان کے لیے اندازِ فکر ہمیشہ منفی کیوں رہتا ہے۔ عربوں اور ترکوں سے بھی ہمیشہ وہ ناخوش کیوں رہتے ہیں۔ ایرانی قوم پرستی اور کئی طرفہ مغائرت سے پھوٹنے والے مسائل اپنی جگہ، ایرانی ملّائیت کی نفسیات اپنی جگہ۔ کیا ہم پاکستانی بھی ناقص اندازِ فکر کا شکار نہیں؟
لگتا ہے کہ چند ہفتے قبل جنرل قمر جاوید باجوہ تہران گئے تو یہ نکتہ ان کے ذہن میں واضح تھا۔ شاید اسی لئے وہ برف پگھلانے میں کامیاب رہے؛ اگرچہ جو بنیاد انہوں نے رکھی اس پر عمارت کی تعمیر باقی ہے۔ مراسم کا انحصار کسی ایک فریق پہ نہیں ہوتا لیکن ان میں سے کوئی بھی مثبت اندازِ فکر اختیار کر لے تو اندمال کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ 1980ء کے عشرے میں، جب ایرانی انقلاب کے بانی‘ دلاور اور نسبتاً وسیع الظرف روح اللہ‘ آیت اللہ خمینی زندہ تھے‘ پاک ایران تعلقات اسی طرح الجھ گئے تھے۔ تب جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے سب سے ہوشمند رفیق جنرل اختر عبدالرحمن کو ایران بھیجا۔ امام خمینی کے ساتھ تنہائی کی ایک ملاقات میں انہوں نے معاملات نمٹائے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے انقلابِ ایران کا بہت خوش دلی سے خیر مقدم کیا تھا؛ اگرچہ انقلاب سے پہلے بہت بڑی غلطی کا وہ ارتکاب کر چکے تھے۔ 1978ء میں، جب طوفان اٹھ چکا تھا‘ وہ تہران گئے۔ یہ تاثر پھوٹا گویا پاکستان رضا شاہ پہلوی کی تائید کرتا ہو۔ میرے ذاتی دوست‘ سیاہ فام امریکی مسلمانوں کی تنظیم Islamic Party of North America کے بانی اور سربراہ مصطفی ان دنوں پاکستان میں تھے۔ کچھ دن ایران میں بتا کر وہ پاکستان آئے تھے۔ مجیب الرحمن شامی کے ہاں‘ بزرگ سیاسی رہنما جنابِ حمزہ کی موجودگی میں انہوں نے یہ کہا: جنرل نے کم اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے۔
جنرل کو احساس ہو گیا تھا، جو گاہے اپنی ذات کو الگ رکھ کے تجزیہ کرنے پہ قادر ہوتا۔ ماہرین کے مشورے کو اکثر جو اہمیت دیتا؛ چنانچہ ہمہ گیر ہنگاموں میں امام خمینی نے پیرس سے تہران کا قصد کیا تو جنرل نے انہیں طیارے کی پیشکش کی۔ خمینی پاکستان اور اسلامی تحریکوں کی تائید کے آرزو مند تھے۔ انقلاب برپا ہونے سے پہلے اپنا ایک وفد انہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ہاں بھیجا تھا۔ بعد ازاں جن کے جانشین میاں طفیل محمد‘ دنیا بھر کی 22 اسلامی تحریکوں کا وفد لے کر ایران گئے۔ ادھڑے ہوئے فارس کو انہوں نے ماہرین کی پیشکش کی۔ انقلاب کا خیر مقدم کرتے ہوئے جنرل محمد ضیاء الحق نے یہی کیا تھا۔ اپنی ایک نشری تقریر میں‘ جنابِ خمینی کو انہوں نے حضرت امام آیت اللہ خمینی کہا۔ پیغام دیا کہ پڑوسی ملک کے زخم سینے میں وہ ہر طرح کی اعانت پر آماد ہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ کتنی ہی چیزیں دھندلا جا تی ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں ایران نے پاکستان کی مدد کی تھی جو بھارت کی دشمنی مول لینے کے مترادف تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں اسلام آباد سے تہران کے مراسم خوشگوار نہ رہے؛ اگرچہ اس کے ذمہ دار بھٹو نہیں، نخوت کا شکار شہنشاہِ ایران تھے‘ جو بلند آہنگ پاکستانی لیڈر کو ناپسند کرتے تھے۔ جو اس خطے میں امریکی تھانیدار تھے۔ رضا شاہ پہلوی کا خیال تھا کہ ایران ایک بڑی طاقت بن کے ابھر رہا ہے لہٰذا اس کا اکرام کیا جانا چاہیے۔ بھٹو ایران گئے تو سرد مہری کا شکار ہوئے۔ شہنشاہِ ایران کی ناراضی کا سبب یہ تھا کہ مشکل حالات میں بھی بھٹو قد آور نظر آتے۔ طاقتور مغرب کے مقابل وہ تیسری دنیا کا نقطۂ نظر پیش کرتے۔ بھٹو کا خیال یہ بھی تھا کہ تزویراتی اہمیت رکھنے والا پاکستان ایران سے بہر حال زیادہ اہم ہے۔ بھارت و ایران کیا وہ انکل سام سے بھی مرعوب نہ تھے۔
بزرگ اخبار نویس عبد القادر حسن نے‘ جو کالم نگار سے زیادہ اس وقت ایک جواں سال اور باہمت رپورٹر تھے‘ ایک سے زیادہ بار تہران کے ہوائی اڈے پر پیش آنے والی سرد مہری پہ حیرت کا اظہار کیا‘ جس میں بدتمیزی کا عنصر بھی در آیا تھا۔ یاد رہے کہ ابتلا کے ایام میں ڈٹ کر اپنے شوہر کا ساتھ دینے والی بیگم نصرت بھٹو کا تعلق ایران سے تھا۔ جیسا کہ مؤرخ سٹینلے والپرٹ نے لکھا ہے‘ 1960ء کے عشرے میں ایک بار محترمہ نصرت بھٹو اپنے شوہر سے ناراض ہو گئیں تو چھ ماہ اپنی بہن کے پاس رہیں‘ جو شکل و صورت میں ان سے حیرت انگیز مماثلت رکھتی تھیں۔ چار سو سال پہلے‘ شہنشاہ ہمایوں کے عہد سے مسلم برصغیر کی تشکیل میں ایرانیوں کا عمل دخل رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ جو بڑھتا گیا۔ کتنے ہی پاکستانی مسلمانوں کا تعلق ایران سے ہے۔ شعوری نہ سہی تو لاشعوری طور پر کبھی وہ ایران کی طرف دیکھتے ہیں۔
پاک ایران مراسم میں عرب فیکٹر (Factor) بنیادی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں‘ پاکستانی فوج کا ایک دستہ سعودی بادشاہ کی حفاظت پہ مامور ہوتا۔ ایرانی انقلاب رونما ہونے کے بعد سعودیوں نے جنرل ضیاء الحق سے کہا کہ اس دستے میںجعفریہ مکتبِ فکر کے افسر اور سپاہی شامل نہ کئے جائیں۔ صاف صاف اس نے انکار کر دیا‘ درآں حالیکہ دونوں ملکوں کے مراسم مثالی تھے۔ خاموشی سے یہ فرمائش پوری کی جا سکتی مگر جنرل نے ٹھیک فیصلہ کیا۔ پاکستان کی مسلّح افواج اور سول سروس میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
1965ء کی جنگ میں ایران نے پاکستان کی جو مدد کی تھی‘ ایران عراق جنگ کے ہنگام پاکستان نے خاموشی سے اس کا قرض چکایا۔ اسلحے سے لدی ریل گاڑیاں ایران بھیجیں۔ عین حالتِ جنگ میں ایرانی پائلٹوں کو تربیت دی۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں پاکستانی پائلٹ کی ٹریننگ مثالی مانی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان نے کبھی اس کا تذکرہ نہیں کیا، غالباً عربوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ ایرانی میڈیا میں کبھی اس کا حوالہ تک نہیں آیا۔ عربوں کے ساتھ پاکستان کے پختہ مراسم بھی پاک ایران تعلقات میں ایک گہری نفسیاتی خلیج کو جنم دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سعودی قیادت میں تشکیل پانے والی 41 مسلم ممالک کی مشترکہ فوج میں پاکستان کی شرکت کا فیصلہ ایران کو خوش نہیں آیا۔ اس سے بھی زیادہ جنرل راحیل شریف کو سپہ سالار بنانے کا۔
پاک ایران گیس پائپ لائن ادھوری پڑی ہے۔ واشنگٹن سے زیادہ ریاض کا دبائو ہے۔ دو آزاد ملکوں کا معاہدہ ہے‘ پاکستان کو پورا کرنا چاہیے ۔ ہمارے خیر خواہ سعودی عرب کو ہمارے قومی مفاد کا خیال رکھنا چاہیے کہ گیس کی قیمت نسبتاً کہیں کم ہے۔ زبوں حال پاکستانی معیشت کے لئے وہ ایک خوشخبری بن سکتی ہے۔ پاک ایران سرحد پہ تخریب کاری ایک مسئلہ ہے۔ ایرانی جانتے ہیں کہ پاکستان نہیں استعماری اس کے ذمہ دار ہیں۔ سمگلنگ زیادہ سنگین سوال ہے۔ دونوں طرف کے مفلس بلوچ قبائل عشروں سے اس میں ملوث ہیں۔ یہ ایسی گرہ نہیں جو کھولی نہ جا سکتی ہو۔ دونوں ملک مل کر روزگار کے قانونی مواقع ان لوگوں کے لئے پیدا کر سکتے ہیں۔ مسئلہ اندازِ فکر اور عزم کا ہے۔
فرمان یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پہ ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ خود نیت کس چیز سے پھوٹتی ہے؟ ظاہر ہے کہ افراد یا اقوام کے اندازِ فکر سے۔ کیوں نہ یہ مثبت ہو‘ تعمیری ہو۔